كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الضَّحَّاكِ الْبَابْلُتِّيُّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ تَلَقِّي السِّلَعِ حَتَّى يُهْبَطَ بِهَا الْأَسْوَاقَ، وَنَهَى عَنِ التَّنَاجُشِ
کتاب
باب
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (منڈیوں سے باہر) سامان لانے والے کو ملنے سے منع کیا یہاں تک کہ وہ بازاروں میں اترجائے اور آپ نے قیمت بڑھانے کے لیے ایک دوسرے کے مال کی بولی دینے سے منع کیا۔
تشریح :
(1) شہر سے باہر غلہ لانے والوں کو ملنا:
سامان تجارت لے کر آنے والے قافلوں کوشہر اور منڈی سے باہر راستے میں سامان خریدنے کی غرض سے ملنا ممنوع ہے۔ اس صورت میں چونکہ دھوکہ دہی اور ضرر رسانی کا پہلو موجود ہے اس لیے اسلام نے اس طریقہ تجارت کو غیر مشروع قرار دیا، اگرکوئی آدمی منڈی میں مال پہنچنے سے پیشتر سودا کرلے تو بائع کو سودا فسخ کرنے کا اختیار ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَا تَلَقَّوْا الْجَلَبَ فَمَنْ تَلَقَّاهُ فَاشْتَرٰي مِنْهُ فَإِذَا اَتٰی سَیِّدُهُ السُّوقَ فَهُوَ بِالْخِیَارِ))( صحیح مسلم، البیوع، باب تحریم تلقي الجلب : 1519۔)
’’باہر سے شہر غلہ لانے والوں کو آگے جا کر نہ ملو اور جو کوئی آگے جا کر مال خرید لے تو مال کے مالک کو منڈی میں آنے کے بعد سودا فسخ کرنے کا اختیار ہے۔‘‘
(2) دھوکہ دہی کے لیے قیمت بڑھانا:
’’نجش‘‘ کسی کو دھوکا دینے کے لیے جو چیز بکتی ہے اس کی تعریف کرنا، دھوکا دینے کی نیت سے نرخ بڑھانا تاکہ دوسرا شخص اس کو جلد خریدے یا کسی بکتی ہوئی چیز کی برائی کرنا تاکہ خریدار اس کو چھوڑ کر دوسری طرف جائے۔( لغات الحدیث : 4/304، 305)
اگر کوئی شخص کسی چیز کا خریدار ہے تو وہ قیمت بڑھا کر بولی دے سکتا ہے لیکن محض دھوکہ دہی کے لیے قیمت بڑھانا غلط ہے کیونکہ اس سے اصل خریدار کو خسارہ اور نقصان ہوتا ہے اور ہر ایسی بیع جس میں غرر یا ضرر ہو ممنوع ہے۔
تخریج :
صحیح بخاري، البیوع، باب النهي عن تلقي الرکبان… الخ، رقم الحدیث : 2165، صحیح مسلم، البیوع، باب تحریم تلقی الجلب، رقم الحدیث : 1517۔
(1) شہر سے باہر غلہ لانے والوں کو ملنا:
سامان تجارت لے کر آنے والے قافلوں کوشہر اور منڈی سے باہر راستے میں سامان خریدنے کی غرض سے ملنا ممنوع ہے۔ اس صورت میں چونکہ دھوکہ دہی اور ضرر رسانی کا پہلو موجود ہے اس لیے اسلام نے اس طریقہ تجارت کو غیر مشروع قرار دیا، اگرکوئی آدمی منڈی میں مال پہنچنے سے پیشتر سودا کرلے تو بائع کو سودا فسخ کرنے کا اختیار ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَا تَلَقَّوْا الْجَلَبَ فَمَنْ تَلَقَّاهُ فَاشْتَرٰي مِنْهُ فَإِذَا اَتٰی سَیِّدُهُ السُّوقَ فَهُوَ بِالْخِیَارِ))( صحیح مسلم، البیوع، باب تحریم تلقي الجلب : 1519۔)
’’باہر سے شہر غلہ لانے والوں کو آگے جا کر نہ ملو اور جو کوئی آگے جا کر مال خرید لے تو مال کے مالک کو منڈی میں آنے کے بعد سودا فسخ کرنے کا اختیار ہے۔‘‘
(2) دھوکہ دہی کے لیے قیمت بڑھانا:
’’نجش‘‘ کسی کو دھوکا دینے کے لیے جو چیز بکتی ہے اس کی تعریف کرنا، دھوکا دینے کی نیت سے نرخ بڑھانا تاکہ دوسرا شخص اس کو جلد خریدے یا کسی بکتی ہوئی چیز کی برائی کرنا تاکہ خریدار اس کو چھوڑ کر دوسری طرف جائے۔( لغات الحدیث : 4/304، 305)
اگر کوئی شخص کسی چیز کا خریدار ہے تو وہ قیمت بڑھا کر بولی دے سکتا ہے لیکن محض دھوکہ دہی کے لیے قیمت بڑھانا غلط ہے کیونکہ اس سے اصل خریدار کو خسارہ اور نقصان ہوتا ہے اور ہر ایسی بیع جس میں غرر یا ضرر ہو ممنوع ہے۔