مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 66

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي قَدِ اتَّخَذْتُ خَاتَمًا، وَإِنِّي نَقَشْتُ فِيهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا يَنْقُشْ أَحَدٌ مِثْلَهُ»

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 66

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نے انگوٹھی بنوائی ہے اور اس میں ’’محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ نقش کروایا ہے۔ لہٰذا اس طرح کوئی بھی انگوٹھی میں تحریر نہ لکھوائے۔‘‘
تشریح : (1) انگوٹھی کا استعمال: شرعاً انگوٹھی کا استعمال جائز اور درست ہے۔ انگوٹھی دائیں اور بائیں دونوں ہاتھوں میں پہنی جا سکتی ہے۔ البتہ دائیں ہاتھ میں پہننا افضل و بہتر ہے۔ سیدنا ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: ((اَنَّ النَّبِيَّ صلي اللّٰه عليه وسلم کَانَ یَتَخَتَّمُ فِيْ یَمِیْنِهٖ))( سنن ابي داؤد، الخاتم، باب التختم في الیمین والیسار : 4226، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے۔‘‘ نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنی انگوٹھی بائیں ہاتھ میں پہنا کرتے تھے۔( سنن ابي داؤد، الخاتم، باب ماجاء في التختم في الیمین والیسار : 4228۔) بعض مرفوع روایات میں بھی بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننے کا ذکر ہے لیکن وہ کمزور ہیں ۔ انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کے علاوہ کسی بھی انگلی میں انگوٹھی پہنی جاسکتی ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اور اس یعنی شہادت والی اور درمیانی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع کیا۔( سنن نسائي، الزینة، باب النهي عن الخاتم في السبابة : 524۔) (2) سونے، لوہے اور پیتل کی انگوٹھی پہننا: ابتداء اسلام میں سونا مسلمان مردوں کے لیے استعمال کرنا جائز تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی سونے کی انگوٹھی استعمال کی، آپ کو دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوا کر پہنیں ۔ مگر بعد میں جب مردوں کے لیے سونا حرام قرار دیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگوٹھی اتار دی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی انگوٹھیاں اتار دیں ۔ البتہ عورتوں کے لیے سونے کا استعمال جائز ہے۔ خالص لوہے کی انگوٹھی پہننا بھی شرعاً درست نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا، چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منہ موڑ لیا، جب اس آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناپسندیدگی دیکھی تو سونے کی انگوٹھی اتار دی اور لوہے کی انگوٹھی لے کر پہن لی اور دوبارہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’یہ بدترین ہے یہ اہل جہنم کا زیور ہے وہ واپس گیا اور اسے اتار کر پھینک دیا۔ پھر چاندی کی انگوٹھی پہن لی تو (اس کو دیکھ کر) اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔( الأدب المفرد للبخاري، باب ترك السلام علی المتخلق واصحاب المعاصي : 1021، مسند احمد : 6/82، 233۔) اگر لوہے پر چاندی کی ملمع سازی کر لی جائے تو اس کی رخصت ہے۔ معیقیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی لوہے سے بنی ہوئی تھی اور اس پر چاندی کی ملمع سازی کی گئی تھی۔ وہ بسا اوقات میرے ہاتھ میں ہوتی۔ معیقیب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کے نگران تھا۔( سنن ابي داؤد، الخاتم، باب ما جاء في خاتم الحدید : 4224، سنن نسائي، الزینة، باب لبس خاتم حدید ملوي علیة فضة، رقم : 5220۔) پیتل کی انگوٹھی پہننا بھی ممنوع ہے۔ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جبکہ اس نے پیتل کی انگوٹھی پہن رکھی تھی۔ آپ علیہ السلام نے اس سے فرمایا: ’’مجھے کیا ہے کہ میں تجھ سے بتوں کی بو محسوس کر رہا ہوں ؟‘‘ اس نے اس (پیتل کی) انگوٹھی کو اتار کر پھینک دیا۔ دوبارہ آیا تو اس نے لوہے کی انگوٹھی پہن رکھی تھی، آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’مجھے کیا ہے کہ میں تجھ پر آگ والوں کا زیور دیکھ رہا ہوں ۔‘‘ اس نے اسے بھی پھینک دیا۔ پھر عرض کیا، اے اللہ کے رسول!میں کس چیز کی انگوٹھی بناؤں ؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’ایک مثقال (ساڑھے چار ماشے) سے کم چاندی کی بنا لے۔‘‘( سنن ابي داؤد، الخاتم، باب ما جاء في خاتم الحدید : 4223، سنن ترمذي، اللباس، باب ما جاء في خاتم الحدید : 1785۔) (3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انگوٹھی کا بطور مہر استعمال کرتے تھے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رومی بادشاہ کو خط لکھنے کا ارادہ فرمایا تو آپ سے گزارش کی گئی، اگر آپ کے خط پر مہر نہ ہوئی تو وہ خط نہیں پڑھیں گے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی جس پر ’’محمد رسول اللہ‘‘ نقش کروایا، گویا میں اب بھی آپ علیہ السلام کے ہاتھ میں اس کی سفیدی دیکھ رہا ہوں ۔( صحیح بخاري، اللباس، باب اتخاذ الخاتم : 5875، صحیح مسلم، اللباس والزینة، باب في اتحاذ النبي صلى الله عليه وسلم خاتمًا، رقم : 2092۔) یہ ہجرت کا ساتواں سال تھا جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف ریاستوں کے سربراہوں کسریٰ، قیصراور نجاشی وغیرہ کے نام دعوت اسلام کے خطوط لکھے۔ اہل علم بغیر مہر کے خطوط کوتوجہ نہیں دیتے تھے اور ایسے خطوط کو قابل اعتماد و احترام بھی نہیں سمجھتے تھے۔ جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مہر کا مشورہ دیا تو آپ علیہ السلام نے اس مشورہ کو قبول فرما کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کندہ کروائے اور انگوٹھی بنوائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی امور سلطنت پر مہر لگانے کے لیے استعمال ہوتی تھی، اس لیے آپ علیہ السلام نے اس کی نقل تیار کرنے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو منع کر دیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی ادارہ، خلیفہ، قاضی یا افسران کی مہرکی نقل تیار کرنا منع ہے۔ کیونکہ اس سے جعل سازی اور فریب کاری کا دروازہ کھلتا ہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی وفات تک آپ کے ہاتھ میں رہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں آئی۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں آئی۔ پھر جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ آیا تو وہ ایک مرتبہ بئر اریس پربیٹھے ہوئے تھے کہ انگوٹھی نکال کر اسے الٹنے پلٹنے لگے کہ وہ کنویں میں گر گئی۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہم اسے تین دن تک ڈھونڈتے رہے اورکنویں کا سارا پانی بھی کھینچ ڈالا لیکن وہ انگوٹھی نہ ملی۔( صحیح بخاري، اللباس، باب هل یجعل نقش الخاتم ثلاثة اسطر؟ : 5879۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ انگوٹھی سیدنا معیقیب رضی اللہ عنہ کے پاس ہوتی اور وہ اس کے نگران و محافظ تھے۔ جیسا کہ بیان ہو چکا ہے۔
تخریج : صحیح بخاري، اللباس، باب قول النبي صلي اللّٰه عليه وسلم لا ینقش… الخ، رقم الحدیث : 5877، صحیح مسلم، اللباس والزینة، باب لبس النبي صلي اللّٰه عليه وسلم خاتما من ورق، رقم الحدیث : 2992، عن انس بن مالک رضي اللّٰه عنه ۔ (1) انگوٹھی کا استعمال: شرعاً انگوٹھی کا استعمال جائز اور درست ہے۔ انگوٹھی دائیں اور بائیں دونوں ہاتھوں میں پہنی جا سکتی ہے۔ البتہ دائیں ہاتھ میں پہننا افضل و بہتر ہے۔ سیدنا ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: ((اَنَّ النَّبِيَّ صلي اللّٰه عليه وسلم کَانَ یَتَخَتَّمُ فِيْ یَمِیْنِهٖ))( سنن ابي داؤد، الخاتم، باب التختم في الیمین والیسار : 4226، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے۔‘‘ نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنی انگوٹھی بائیں ہاتھ میں پہنا کرتے تھے۔( سنن ابي داؤد، الخاتم، باب ماجاء في التختم في الیمین والیسار : 4228۔) بعض مرفوع روایات میں بھی بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننے کا ذکر ہے لیکن وہ کمزور ہیں ۔ انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کے علاوہ کسی بھی انگلی میں انگوٹھی پہنی جاسکتی ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اور اس یعنی شہادت والی اور درمیانی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع کیا۔( سنن نسائي، الزینة، باب النهي عن الخاتم في السبابة : 524۔) (2) سونے، لوہے اور پیتل کی انگوٹھی پہننا: ابتداء اسلام میں سونا مسلمان مردوں کے لیے استعمال کرنا جائز تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی سونے کی انگوٹھی استعمال کی، آپ کو دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوا کر پہنیں ۔ مگر بعد میں جب مردوں کے لیے سونا حرام قرار دیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگوٹھی اتار دی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی انگوٹھیاں اتار دیں ۔ البتہ عورتوں کے لیے سونے کا استعمال جائز ہے۔ خالص لوہے کی انگوٹھی پہننا بھی شرعاً درست نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا، چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منہ موڑ لیا، جب اس آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناپسندیدگی دیکھی تو سونے کی انگوٹھی اتار دی اور لوہے کی انگوٹھی لے کر پہن لی اور دوبارہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’یہ بدترین ہے یہ اہل جہنم کا زیور ہے وہ واپس گیا اور اسے اتار کر پھینک دیا۔ پھر چاندی کی انگوٹھی پہن لی تو (اس کو دیکھ کر) اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔( الأدب المفرد للبخاري، باب ترك السلام علی المتخلق واصحاب المعاصي : 1021، مسند احمد : 6/82، 233۔) اگر لوہے پر چاندی کی ملمع سازی کر لی جائے تو اس کی رخصت ہے۔ معیقیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی لوہے سے بنی ہوئی تھی اور اس پر چاندی کی ملمع سازی کی گئی تھی۔ وہ بسا اوقات میرے ہاتھ میں ہوتی۔ معیقیب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کے نگران تھا۔( سنن ابي داؤد، الخاتم، باب ما جاء في خاتم الحدید : 4224، سنن نسائي، الزینة، باب لبس خاتم حدید ملوي علیة فضة، رقم : 5220۔) پیتل کی انگوٹھی پہننا بھی ممنوع ہے۔ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جبکہ اس نے پیتل کی انگوٹھی پہن رکھی تھی۔ آپ علیہ السلام نے اس سے فرمایا: ’’مجھے کیا ہے کہ میں تجھ سے بتوں کی بو محسوس کر رہا ہوں ؟‘‘ اس نے اس (پیتل کی) انگوٹھی کو اتار کر پھینک دیا۔ دوبارہ آیا تو اس نے لوہے کی انگوٹھی پہن رکھی تھی، آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’مجھے کیا ہے کہ میں تجھ پر آگ والوں کا زیور دیکھ رہا ہوں ۔‘‘ اس نے اسے بھی پھینک دیا۔ پھر عرض کیا، اے اللہ کے رسول!میں کس چیز کی انگوٹھی بناؤں ؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’ایک مثقال (ساڑھے چار ماشے) سے کم چاندی کی بنا لے۔‘‘( سنن ابي داؤد، الخاتم، باب ما جاء في خاتم الحدید : 4223، سنن ترمذي، اللباس، باب ما جاء في خاتم الحدید : 1785۔) (3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انگوٹھی کا بطور مہر استعمال کرتے تھے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رومی بادشاہ کو خط لکھنے کا ارادہ فرمایا تو آپ سے گزارش کی گئی، اگر آپ کے خط پر مہر نہ ہوئی تو وہ خط نہیں پڑھیں گے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی جس پر ’’محمد رسول اللہ‘‘ نقش کروایا، گویا میں اب بھی آپ علیہ السلام کے ہاتھ میں اس کی سفیدی دیکھ رہا ہوں ۔( صحیح بخاري، اللباس، باب اتخاذ الخاتم : 5875، صحیح مسلم، اللباس والزینة، باب في اتحاذ النبي صلى الله عليه وسلم خاتمًا، رقم : 2092۔) یہ ہجرت کا ساتواں سال تھا جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف ریاستوں کے سربراہوں کسریٰ، قیصراور نجاشی وغیرہ کے نام دعوت اسلام کے خطوط لکھے۔ اہل علم بغیر مہر کے خطوط کوتوجہ نہیں دیتے تھے اور ایسے خطوط کو قابل اعتماد و احترام بھی نہیں سمجھتے تھے۔ جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مہر کا مشورہ دیا تو آپ علیہ السلام نے اس مشورہ کو قبول فرما کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کندہ کروائے اور انگوٹھی بنوائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی امور سلطنت پر مہر لگانے کے لیے استعمال ہوتی تھی، اس لیے آپ علیہ السلام نے اس کی نقل تیار کرنے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو منع کر دیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی ادارہ، خلیفہ، قاضی یا افسران کی مہرکی نقل تیار کرنا منع ہے۔ کیونکہ اس سے جعل سازی اور فریب کاری کا دروازہ کھلتا ہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی وفات تک آپ کے ہاتھ میں رہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں آئی۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں آئی۔ پھر جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ آیا تو وہ ایک مرتبہ بئر اریس پربیٹھے ہوئے تھے کہ انگوٹھی نکال کر اسے الٹنے پلٹنے لگے کہ وہ کنویں میں گر گئی۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہم اسے تین دن تک ڈھونڈتے رہے اورکنویں کا سارا پانی بھی کھینچ ڈالا لیکن وہ انگوٹھی نہ ملی۔( صحیح بخاري، اللباس، باب هل یجعل نقش الخاتم ثلاثة اسطر؟ : 5879۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ انگوٹھی سیدنا معیقیب رضی اللہ عنہ کے پاس ہوتی اور وہ اس کے نگران و محافظ تھے۔ جیسا کہ بیان ہو چکا ہے۔