مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 61

كِتَابُ بَابٌ وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ تَرَكَ صَلَاةً يَعْنِي الْعَصْرَ، حَتَّى تَفُوتَهُ فَكَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلَهُ وَمَالَهُ» ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يُصَلِّيهَا وَالشَّمْسُ بَيْضَاءُ نَقِيَّةٌ

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 61

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان کرتے ہوئے سنا:’’جس نے نماز عصر چھوڑی حتی کہ وہ رہ گئی تو گویا اس کے اہل اور اس کا مال برباد ہو گیا۔‘‘ اور عبداللہ بن عمر نماز عصر پڑھتے تھے جبکہ سورج صاف چمک رہا ہوتا تھا۔‘‘
تشریح : (1) نماز عصرکی اہمیت: اللہ تعالیٰ نے تمام نمازوں کو بروقت ادا کرنے کا حکم دیا۔ نماز عصرکی خاص تاکید فرمائی گئی اور ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ﴾ (البقرہ : 238) ’’سب نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی اور اللہ کے لیے فرماں بردار ہوکر کھڑے رہو۔‘‘ غزوہ خندق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بروقت نماز عصر نہ پڑھ سکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین سے متعلق فرمایا: ((شَغَلُونَا عَنِ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰی صَلٰوةِ الْعَصْرِ مَلَأَ اللّٰهُ بُیُوتَهُمْ وَقُبُورَهُمْ نَارًا))( صحیح مسلم، المساجد، باب الدلیل لمن … الخ : 627۔) ’’انہوں نے ہمیں صلاۃ الوسطیٰ نماز عصر سے روک دیا، اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے۔‘‘ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ تَرَکَ صَلَاةَ الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ))( صحیح بخاري، مواقیت الصلاة، باب من ترك العصر : 553۔) ’’جس نے عصر کی نماز چھوڑ دی اس کے عمل ضائع ہو گئے۔‘‘ درج بالا دلائل میں نماز عصر کی اہمیت بیان ہوئی اور نہ پڑھنے والے کو اتنا نقصان ہے گویا اس کا گھر بار اور مال سب کچھ چھین لیا گیا۔ اس کی تمام نیکیاں ضائع کر دی گئیں ۔ (2) نماز عصر کا وقت: نماز عصر کا وقت ہر چیز کا سایہ برابر ہونے سے لے کر غروب آفتاب تک ہے۔ لیکن نماز عصر کو اول وقت میں پڑھنا افضل و بہتر ہے۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کایہی معمول رہا کہ سورج خوب روشن سفید اور چمک دار ہوتا تو نماز عصر اداکرتے۔ نماز عصر کو تاخیر سے غروب آفتاب کے قریب ادا کرنا ناپسندیدہ ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ((تِلْكَ صَلٰوةُ الْمُنَافِقِ یَجْلِسُ یَرْقُبُ الشَّمْسَ حَتّٰی إِذَا کَانَتْ بَیْنَ قَرْنَيْ الشَّیْطَانِ قَامَ فَنَقَرَهَا أَرْبَعًا لَا یَذْکُرُ اللّٰهَ فِیهَا إِلَّا قَلِیلًا))( صحیح مسلم، المساجد، باب استحباب التکبیر بالعصر : 622۔) ’’یہ منافق کی نماز ہے جو بیٹھا سورج (کے غروب ہونے) کا انتظار کرتا رہتا ہے حتی کہ جب وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان آجاتا ہے تو اٹھ کر چار ٹھونگیں مار دیتا ہے جن میں وہ اللہ کا ذکر بہت کم کرتا ہے۔‘‘
تخریج : صحیح بخاري، مواقیت الصلاة، باب اثم من فاتته العصر، رقم الحدیث : 552، صحیح مسلم، المساجد، باب التغلیظ في تفویت صلوة العصر، رقم الحدیث : 626۔ (1) نماز عصرکی اہمیت: اللہ تعالیٰ نے تمام نمازوں کو بروقت ادا کرنے کا حکم دیا۔ نماز عصرکی خاص تاکید فرمائی گئی اور ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ﴾ (البقرہ : 238) ’’سب نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی اور اللہ کے لیے فرماں بردار ہوکر کھڑے رہو۔‘‘ غزوہ خندق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بروقت نماز عصر نہ پڑھ سکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین سے متعلق فرمایا: ((شَغَلُونَا عَنِ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰی صَلٰوةِ الْعَصْرِ مَلَأَ اللّٰهُ بُیُوتَهُمْ وَقُبُورَهُمْ نَارًا))( صحیح مسلم، المساجد، باب الدلیل لمن … الخ : 627۔) ’’انہوں نے ہمیں صلاۃ الوسطیٰ نماز عصر سے روک دیا، اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے۔‘‘ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ تَرَکَ صَلَاةَ الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ))( صحیح بخاري، مواقیت الصلاة، باب من ترك العصر : 553۔) ’’جس نے عصر کی نماز چھوڑ دی اس کے عمل ضائع ہو گئے۔‘‘ درج بالا دلائل میں نماز عصر کی اہمیت بیان ہوئی اور نہ پڑھنے والے کو اتنا نقصان ہے گویا اس کا گھر بار اور مال سب کچھ چھین لیا گیا۔ اس کی تمام نیکیاں ضائع کر دی گئیں ۔ (2) نماز عصر کا وقت: نماز عصر کا وقت ہر چیز کا سایہ برابر ہونے سے لے کر غروب آفتاب تک ہے۔ لیکن نماز عصر کو اول وقت میں پڑھنا افضل و بہتر ہے۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کایہی معمول رہا کہ سورج خوب روشن سفید اور چمک دار ہوتا تو نماز عصر اداکرتے۔ نماز عصر کو تاخیر سے غروب آفتاب کے قریب ادا کرنا ناپسندیدہ ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ((تِلْكَ صَلٰوةُ الْمُنَافِقِ یَجْلِسُ یَرْقُبُ الشَّمْسَ حَتّٰی إِذَا کَانَتْ بَیْنَ قَرْنَيْ الشَّیْطَانِ قَامَ فَنَقَرَهَا أَرْبَعًا لَا یَذْکُرُ اللّٰهَ فِیهَا إِلَّا قَلِیلًا))( صحیح مسلم، المساجد، باب استحباب التکبیر بالعصر : 622۔) ’’یہ منافق کی نماز ہے جو بیٹھا سورج (کے غروب ہونے) کا انتظار کرتا رہتا ہے حتی کہ جب وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان آجاتا ہے تو اٹھ کر چار ٹھونگیں مار دیتا ہے جن میں وہ اللہ کا ذکر بہت کم کرتا ہے۔‘‘