كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَّيَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: جَاءَ عُبَيْدٌ إِلَى أَبِي فَقَالَ: أَتَيْتُ ابْنَ عُمَرَ فَسَأَلْتُهُ عَنْ خِصَالٍ، فَقَالَ لِي: هَاتِ، فَإِنَّكَ لَا تَزَالُ تَأْتِينِي بِشَيْءٍ قُلْتُ: رَأَيْتُكَ لَا تَمْسَحُ مِنْ هَذِهِ الْأَرْكَانِ إِلَّا الرُّكْنَ الْيَمَانِيَّ وَالرُّكْنَ الَّذِي فِيهِ الْحَجَرُ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ [ص:22] اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ ذَلِكَ، قَالَ: وَرَأَيْتُكَ لَا تَلْبَسُ مِنْ هَذِهِ النِّعَالِ إِلَّا السِّبْتِيَّةَ - قَالَ عَاصِمٌ: السِّبْتِيَّةُ تُحْلَقُ وَتُدْبَغُ لَيْسَ فِيهِ شَعَرٌ - قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ ذَلِكَ يَتَوَضَّأُ فِيهَا وَيُصَلِّي فِيهَا وَيَسْتَحِبُّهَا
کتاب
باب
عبیدبن جریج سے مروی ہے انہوں نے کہا: عبید میرے باپ کے پاس آئے اور عرض کیا: میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا اور ان سے کچھ کاموں سے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا: بیان کریں آپ ہمیشہ میرے پاس کسی مقصد سے ہی آئے ہیں ۔ میں نے پوچھا: میں نے آپ کو رکن یمانی اور حجر اسود کے علاوہ کسی اور رکن کو چھوتے نہیں دیکھا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی کرتے دیکھا ہے۔ ابن جریج نے کہا: میں نے آپ کو صرف سبتی جوتے ہی پہنے ہوئے دیکھا ہے۔ عاصم نے کہا: سبتی جوتے سے مراد وہ جوتا ہے جو چمڑے کو صاف کرنے اور رنگنے کے بعد جس میں بال نہ ہوں ،تیار ہو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کرتے (سبتی جوتے پہنے) دیکھا۔ آپ اس میں وضو کرتے اور اس میں نماز ادا کرتے اور اس کو پسند فرماتے تھے۔
تشریح :
(1) أرکان الکعبہ:
کعبہ کے کل چار ارکان ہیں ۔ رکن یمانی اور حجر اسود کو ’’رکنین یمانیین‘‘ کہتے ہیں جبکہ دوسرے دونوں ارکان کو ’’رکنین شامیین‘‘ کہتے ہیں ۔
رکن یمانی بیت اللہ کی جنوبی دیوار میں حجر اسود والے کونے سے پہلے کونے کو کہتے ہیں ۔ طواف کعبہ کے دوران رکن یمانی کو ہاتھ سے چھونا سنت و ثواب ہے۔ مگر رکن یمانی کو بوسہ دینا یا اسے ہاتھ سے چھو کر اپنے ہاتھ کو چومناثابت نہیں ۔ اسی طرح اگر رش کی وجہ سے اسے چھونا ممکن نہ ہو تو اس کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری نہیں ۔
طواف کعبہ کا آغاز حجر اسود سے ہوتا ہے اور اس پر ایک چکر مکمل ہوگا۔حجر اسود کو بوسہ دینا، اس کو کسی چیز (ہاتھ، لاٹھی وغیرہ) سے چھو کر اسے بوسہ دینا مسنون ہے۔ البتہ صرف اشارہ کر کے اس چیز کو بوسہ دیناثابت نہیں ۔
(2) حجر اسود اور رکن یمانی کو چھونے کی فضیلت:
کعبۃ اللہ کے ان دو کونوں کو چھونا مسنون ہے۔ احادیث میں اس کی فضیلت بھی بیان کی گئی ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود سے متعلق فرمایا:
((وَاللّٰهِ لَیَبْعَثَنَّهٗ اللّٰهٗ یَوْمَ الْقِیَامَةِ لَهٗ عَیْنَانِ یُبْصِرُبِهِمَا، وَلِسَانٌ یَنْطِقُ بِهٖ یَشْهَدُ عَلٰی مَنِ اسْتَلَمَهِ بِحَقٍّ))( سنن ترمذی، الحج، باب ما جاء في الحجر الاسود : 961، سنن ابن ماجة ، المناسک، باب استلام الحجر : 2944، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔)
’’اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کو اٹھائیں گے۔ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جس سے یہ دیکھے گا اور اس کی زبان ہو گی جس سے بولے گا۔ اور اس آدمی کے لیے گواہی دے گا جس نے حق کے ساتھ اسے بوسہ دیایا چھوا ہوگا۔‘‘
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے حجر اسود اور رکن یمانی کے استلام سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:
((اِنَّ مَسْحَهُمَا یَحُطَّانِ الْخَطِیْئَةَ))( سنن نسائي، مناسک، الحج، باب ذکر الفضل فی الطواف بالبیت : 2919، سنن ترمذی، الحج، باب ما جاء فی استلام الرکنین : 959، صحیح ابن خزیمة : 2729، 2730، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔)
’’ان دونوں (حجر اسود اور رکن یمانی) کو چھونا گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘
حجر اسود اور رکن یمانی کے ان فضائل کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ بھیڑ کی شکل میں دھکم پیل کرتے ہوئے دیگر حجاج اور معتمرین کے ساتھ زور آزمائی کر کے بہرصورت بوسہ لیا جائے بلکہ رش کی صورت میں کسی دوسری چیز سے حجر اسودکو چھونا یا صرف اشارہ کرنا بھی مسنون ہے اور اس سے بھی حجر اسود کو بوسہ دینے کی فضیلت حاصل ہو جائے گی۔ لہٰذا دھکم پیل سے احتراز کرنا چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
((یَا عُمَرُ اِنَّكَ رَجُلٌ قَوِیٌّ فَلَا تُؤْذِ الضَّعِیْفَ وَاِذَا اَرَدْتَّ اِسْتَلَامَ الْحَجْرِ، فَاِنْ خَلَالَکَ فَاسْتَلِمْه وَاِلَّا فَاسْتَقْبِلْه وَکَبِّرْ))( سنن الکبریٰ للبیهقی : 5/130 (9261)، مناسك الحج والعمرۃ، ص 21، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔)
’’اے عمر! تو طاقت ور آدمی ہے لہٰذا کمزور کو تکلیف نہ پہنچانا، جب حجر اسود کے استلام کا ارادہ ہو اور وہ تمہیں خالی مل جائے تو اس کا استلام کر لو ورنہ رش کی صورت میں اس کی طرف منہ کر کے ’’اللہ اکبر‘‘ کہو (اور اشارہ کرتے ہوئے طواف شروع کر دو۔)‘‘
(3) سبتی جوتے کا استعمال:
عرب میں عموماً لوگ چمڑے کی بالوں سمیت جوتیاں استعمال کرتے تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر بالوں کے چمڑے کی جوتی پسند تھی۔ عبد اللہ بن عمر بھی نبی علیہ السلام کی اس پسند کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہی جوتا استعمال کرتے۔
علامہ وحید الزماں لکھتے ہیں : ’’سِبْت‘‘ بہ کسرہ سین گائے کی کھال جو دباغت کی گئی ہو جس سے جوتے بناتے ہیں ۔ اس کو سبت اس وجہ سے کہا کہ اس کے بال د ور کیے جاتے ہیں ، بعض نے کہا اس وجہ سے کہ وہ دباغت کی وجہ سے نرم ہوجاتی ہے۔( لغات الحدیث : 2/253۔)
(4) جوتوں میں نماز پڑھنا:
اگر جوتے صاف ہوں اور انہیں کسی قسم کی نجاست و گندگی نہ لگی ہو تو ان میں نماز پڑھنا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی پڑھی اور جوتے پہن کر نماز پڑھنے کی اجازت بھی دی۔ سیدنا ابو سلمہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوتوں میں نماز پڑھ لیتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں ۔( صحیح بخاري، الصلاة، باب الصلاة فی النعال : 386، صحیح مسلم، المساجد، باب جواز الصلاة فی النعلین : 555۔)
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک آپ نے اپنے جوتوں کو اتار کر بائیں جانب رکھ دیا، جب صحابہ نے یہ دیکھا تو انہوں نے بھی (آپ کی پیروی میں ) جوتے اتار دئیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کی تو پوچھا: ’’تم لوگوں نے اپنے جوتے کیوں اتارے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: ہم نے آپ کو جوتے اتارتے دیکھا تو ہم نے بھی اپنے جوتے اتار دئیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک میرے پاس جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور مجھے بتایا کہ آپ کے جوتوں میں گندگی لگی ہے۔ (اس لیے میں نے جوتے اتارے)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِذَا جَاءَ اَحَدُکُمْ اِلَي الْمَسْجِدِ فَلْیَنْظُرَ، فَاِنْ رَایٰ فِیْ نَعْلَیْه قَذْرًا أَوْ أَذَیً فَلْیَمْسَحْهُ وَلْیُصَلِّ فِیْهِمَا))( سنن ابی داؤد، الصلاۃ، باب الصلاۃ فی النعل : 650، 651، سنن دارمي : 1418، مسند احمد : 17/242، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔)
’’جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو وہ اپنے جوتے دیکھ لے اگر ان میں نجات و گندگی لگی ہوئی دیکھے تو اسے زمین پر رگڑ کر صاف کر لے اور ان میں نماز پڑھے۔‘‘
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم :
ایک مومن و مسلمان کے لیے زندگی کے ہر شعبہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اسوۂ کامل ہے۔ نوع انسانی کی دنیوی و اخروی عزت اتباع نبوی میں ہے۔ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و اطاعت سے روگردانی اختیار کرتے ہیں ۔ ذلت و رسوائی ان کا مقدر ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس حقیقت کو پالیا تھا، اسی لیے وہ ہر دم، ہر لمحہ امور نبوی کی پیروی میں گزارتے تھے۔ سیدنا عبدا للہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اتباع نبوی میں ایسی مثالیں قائم کیں کہ اس سلسلہ میں ضرب المثل ٹھہرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امور شریعت میں پیروی کے علاوہ پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے عادات و اطوار کو بھی اپنایا۔ اگر کبھی آپ علیہ السلام نے کوئی کام کہیں بشری تقاضوں کے تحت کیا تو اس کو بھی اختیار کرنے کی کوشش کی۔
بس اتنی سی حقیقت ہے ہمارے دین و ایمان کی
کہ اس جان جہاں کا آدمی دیوانہ ہو جائے
تخریج :
صحیح بخاري،الوضو، باب غسل الرجلین فی النعلین، رقم الحدیث : 166، 5851، صحیح مسلم، الحج، باب الاهلال من حیث ’’تنبعث الراحلة،رقم الحدیث : 1187۔
(1) أرکان الکعبہ:
کعبہ کے کل چار ارکان ہیں ۔ رکن یمانی اور حجر اسود کو ’’رکنین یمانیین‘‘ کہتے ہیں جبکہ دوسرے دونوں ارکان کو ’’رکنین شامیین‘‘ کہتے ہیں ۔
رکن یمانی بیت اللہ کی جنوبی دیوار میں حجر اسود والے کونے سے پہلے کونے کو کہتے ہیں ۔ طواف کعبہ کے دوران رکن یمانی کو ہاتھ سے چھونا سنت و ثواب ہے۔ مگر رکن یمانی کو بوسہ دینا یا اسے ہاتھ سے چھو کر اپنے ہاتھ کو چومناثابت نہیں ۔ اسی طرح اگر رش کی وجہ سے اسے چھونا ممکن نہ ہو تو اس کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری نہیں ۔
طواف کعبہ کا آغاز حجر اسود سے ہوتا ہے اور اس پر ایک چکر مکمل ہوگا۔حجر اسود کو بوسہ دینا، اس کو کسی چیز (ہاتھ، لاٹھی وغیرہ) سے چھو کر اسے بوسہ دینا مسنون ہے۔ البتہ صرف اشارہ کر کے اس چیز کو بوسہ دیناثابت نہیں ۔
(2) حجر اسود اور رکن یمانی کو چھونے کی فضیلت:
کعبۃ اللہ کے ان دو کونوں کو چھونا مسنون ہے۔ احادیث میں اس کی فضیلت بھی بیان کی گئی ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود سے متعلق فرمایا:
((وَاللّٰهِ لَیَبْعَثَنَّهٗ اللّٰهٗ یَوْمَ الْقِیَامَةِ لَهٗ عَیْنَانِ یُبْصِرُبِهِمَا، وَلِسَانٌ یَنْطِقُ بِهٖ یَشْهَدُ عَلٰی مَنِ اسْتَلَمَهِ بِحَقٍّ))( سنن ترمذی، الحج، باب ما جاء في الحجر الاسود : 961، سنن ابن ماجة ، المناسک، باب استلام الحجر : 2944، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔)
’’اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کو اٹھائیں گے۔ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جس سے یہ دیکھے گا اور اس کی زبان ہو گی جس سے بولے گا۔ اور اس آدمی کے لیے گواہی دے گا جس نے حق کے ساتھ اسے بوسہ دیایا چھوا ہوگا۔‘‘
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے حجر اسود اور رکن یمانی کے استلام سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:
((اِنَّ مَسْحَهُمَا یَحُطَّانِ الْخَطِیْئَةَ))( سنن نسائي، مناسک، الحج، باب ذکر الفضل فی الطواف بالبیت : 2919، سنن ترمذی، الحج، باب ما جاء فی استلام الرکنین : 959، صحیح ابن خزیمة : 2729، 2730، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔)
’’ان دونوں (حجر اسود اور رکن یمانی) کو چھونا گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘
حجر اسود اور رکن یمانی کے ان فضائل کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ بھیڑ کی شکل میں دھکم پیل کرتے ہوئے دیگر حجاج اور معتمرین کے ساتھ زور آزمائی کر کے بہرصورت بوسہ لیا جائے بلکہ رش کی صورت میں کسی دوسری چیز سے حجر اسودکو چھونا یا صرف اشارہ کرنا بھی مسنون ہے اور اس سے بھی حجر اسود کو بوسہ دینے کی فضیلت حاصل ہو جائے گی۔ لہٰذا دھکم پیل سے احتراز کرنا چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
((یَا عُمَرُ اِنَّكَ رَجُلٌ قَوِیٌّ فَلَا تُؤْذِ الضَّعِیْفَ وَاِذَا اَرَدْتَّ اِسْتَلَامَ الْحَجْرِ، فَاِنْ خَلَالَکَ فَاسْتَلِمْه وَاِلَّا فَاسْتَقْبِلْه وَکَبِّرْ))( سنن الکبریٰ للبیهقی : 5/130 (9261)، مناسك الحج والعمرۃ، ص 21، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔)
’’اے عمر! تو طاقت ور آدمی ہے لہٰذا کمزور کو تکلیف نہ پہنچانا، جب حجر اسود کے استلام کا ارادہ ہو اور وہ تمہیں خالی مل جائے تو اس کا استلام کر لو ورنہ رش کی صورت میں اس کی طرف منہ کر کے ’’اللہ اکبر‘‘ کہو (اور اشارہ کرتے ہوئے طواف شروع کر دو۔)‘‘
(3) سبتی جوتے کا استعمال:
عرب میں عموماً لوگ چمڑے کی بالوں سمیت جوتیاں استعمال کرتے تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر بالوں کے چمڑے کی جوتی پسند تھی۔ عبد اللہ بن عمر بھی نبی علیہ السلام کی اس پسند کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہی جوتا استعمال کرتے۔
علامہ وحید الزماں لکھتے ہیں : ’’سِبْت‘‘ بہ کسرہ سین گائے کی کھال جو دباغت کی گئی ہو جس سے جوتے بناتے ہیں ۔ اس کو سبت اس وجہ سے کہا کہ اس کے بال د ور کیے جاتے ہیں ، بعض نے کہا اس وجہ سے کہ وہ دباغت کی وجہ سے نرم ہوجاتی ہے۔( لغات الحدیث : 2/253۔)
(4) جوتوں میں نماز پڑھنا:
اگر جوتے صاف ہوں اور انہیں کسی قسم کی نجاست و گندگی نہ لگی ہو تو ان میں نماز پڑھنا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی پڑھی اور جوتے پہن کر نماز پڑھنے کی اجازت بھی دی۔ سیدنا ابو سلمہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوتوں میں نماز پڑھ لیتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں ۔( صحیح بخاري، الصلاة، باب الصلاة فی النعال : 386، صحیح مسلم، المساجد، باب جواز الصلاة فی النعلین : 555۔)
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک آپ نے اپنے جوتوں کو اتار کر بائیں جانب رکھ دیا، جب صحابہ نے یہ دیکھا تو انہوں نے بھی (آپ کی پیروی میں ) جوتے اتار دئیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کی تو پوچھا: ’’تم لوگوں نے اپنے جوتے کیوں اتارے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: ہم نے آپ کو جوتے اتارتے دیکھا تو ہم نے بھی اپنے جوتے اتار دئیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک میرے پاس جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور مجھے بتایا کہ آپ کے جوتوں میں گندگی لگی ہے۔ (اس لیے میں نے جوتے اتارے)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِذَا جَاءَ اَحَدُکُمْ اِلَي الْمَسْجِدِ فَلْیَنْظُرَ، فَاِنْ رَایٰ فِیْ نَعْلَیْه قَذْرًا أَوْ أَذَیً فَلْیَمْسَحْهُ وَلْیُصَلِّ فِیْهِمَا))( سنن ابی داؤد، الصلاۃ، باب الصلاۃ فی النعل : 650، 651، سنن دارمي : 1418، مسند احمد : 17/242، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔)
’’جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو وہ اپنے جوتے دیکھ لے اگر ان میں نجات و گندگی لگی ہوئی دیکھے تو اسے زمین پر رگڑ کر صاف کر لے اور ان میں نماز پڑھے۔‘‘
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم :
ایک مومن و مسلمان کے لیے زندگی کے ہر شعبہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اسوۂ کامل ہے۔ نوع انسانی کی دنیوی و اخروی عزت اتباع نبوی میں ہے۔ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و اطاعت سے روگردانی اختیار کرتے ہیں ۔ ذلت و رسوائی ان کا مقدر ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس حقیقت کو پالیا تھا، اسی لیے وہ ہر دم، ہر لمحہ امور نبوی کی پیروی میں گزارتے تھے۔ سیدنا عبدا للہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اتباع نبوی میں ایسی مثالیں قائم کیں کہ اس سلسلہ میں ضرب المثل ٹھہرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امور شریعت میں پیروی کے علاوہ پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے عادات و اطوار کو بھی اپنایا۔ اگر کبھی آپ علیہ السلام نے کوئی کام کہیں بشری تقاضوں کے تحت کیا تو اس کو بھی اختیار کرنے کی کوشش کی۔
بس اتنی سی حقیقت ہے ہمارے دین و ایمان کی
کہ اس جان جہاں کا آدمی دیوانہ ہو جائے