كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَمَ يَهُودِيًّا وَيَهُودِيَّةً
کتاب
باب
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی مرد اور عورت کو رجم کیا۔
تشریح :
(1) حدود کے نفاذ کا مقصد:
اللہ رب العزت نے ہمیں اپنی عبادت و اطاعت کا حکم دیا ہے اوامر الٰہی کی اتباع اور منہیات سے اجتناب لازم ہے۔ شرعی احکام کی اتباع پر جنت کی نوید سنائی گئی اور ان کی مخالفت پر جہنم کی وعید ہے۔
اگر انسان دنیا میں رہتے ہوئے گناہوں میں ایک حد سے تجاوز کر جائے اور اس کا عمل معاشرے کے لیے پریشانی کا باعث بن رہا ہو تو معاشرے کو اس کے مفاسد سے بچانے کے لیے اسلام نے قانون حدود وتعزیرات دیا تاکہ لوگ پر امن زندگی گزار سکیں اور ان کے مال و جان محفوظ رہیں ۔
حدود میں سے کسی بھی حد کا مرتکب پر نفاد اس کے لیے کفارہ بن جاتا ہے۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ آپ نے فرمایا: ’’مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، نہ چوری کرو گے اور نہ زنا کرو گے۔‘‘ پھر آپ نے (سورہ ممتحنہ) کی آیت ﴿ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ.......﴾الخ تلاوت کی اور فرمایا: ’’جس نے تم میں سے اس بیعت کو پورا کیا تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے اور جو کسی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا اور پھر اسے سزا دے دی گئی تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے اور جو مرتکب ہوا اور اللہ نے اس پر پردہ ڈال دیا تو اس کا معاملہ اللہ ہی کے سپرد ہے چاہے تو اسے معاف کر دے اور چاہے تو اسے سزا دے۔‘‘( صحیح بخاري، الایمان، باب : 18، 6784، صحیح مسلم، الحدود، باب الحدود کفارات لأهلها : 1709۔)
(2) حد کا نفاذ کون کرے؟:
حدود کو اسلامی ریاست کا حکمران یا اس کا متعین کردہ نمائندہ جاری کرے گا۔ یہ کام انفرادی طور پر یا ریاست میں رہنے والے باشندوں پر مشتمل گروہوں ، جماعتوں کے کرنے کا نہیں کیونکہ اس سے بگاڑ پیدا ہوگا اور حدود کے نفاذ سے حاصل ہونے والے مقاصد ختم ہوجائیں گے لہٰذا حاکم وقت یا اس کے نائب کے علاوہ کسی کو بھی حدود جاری کرنے کا اختیار نہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں خود حدیں جاری کرتے جیسا کہ حدیث بالا میں یہودی مرد و وزن کو رجم کرنے کا ذکر ہوا۔ بسا اوقات آپ اس کے لیے کسی صحابی کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیج دیتے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک زنا کا مقدمہ پیش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
((وَاغْدُ یَا أُنَیْسُ إِلَی امْرَأَةِ هَذَا فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا))( صحیح بخاري، الصلح، باب اذا اصطلحوا علی صلح جور … الخ : 2695، صحیح مسلم، الحدود، باب من اعتراف علی نفسه بالزني : 1697۔)
’’انیس! کل صبح اس کی بیوی کے پاس جانا اگر وہ اعتراف زنا کرلے تو اسے رجم کر دینا۔‘‘
(3) شادی شدہ زانی کی حد:
اگر کوئی شادی شدہ زنا کا ارتکاب کرے تو اس کو پتھروں سے سنگسار کردیا جائے گا حتی کہ وہ مر جائے۔یہودی مرد اور عورت کے علاوہ ماعز اسلمی اور غامدیہ خاتون کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے رجم کیا گیا۔
(4) غیر شدی شدہ زانی کی حد:
زنا کرنے والا غیر شادی شدہ آزاد مرد ہو تو اسے سوکوڑے مارے جائیں گے اور پھر ایک سال کے لیے شہر بدر کر دیا جائے گا۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ (النور : 2)
’’زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والا مرد دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور تمہیں ان سے متعلق اللہ کے دین میں کوئی نرمی نہ پکڑے، اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور لازم ہے کہ ان کی سزا کے وقت مومنوں کی ایک جماعت موجود ہو۔‘‘
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
((قَضَی فِیمَنْ زَنَی وَلَمْ یُحْصَنْ بِنَفْيِ عَامٍ بِإِقَامَةِ الْحَدِّ عَلَیْهِ))( صحیح بخاري، الحدود، باب البکران یجلدان وینفیان : 6833۔)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر شادی شدہ زانی سے متعلق یہ فیصلہ فرمایا کہ اسے ایک سال کے لیے شہر بدر کر دیا جائے اور اس پر حد لگائی جائے۔‘‘
(5):… مفسرین لکھتے ہیں : ’’امت مسلمہ میں کچھ لوگوں نے رجم کا انکار کیا، بعض نے کوڑوں اوررجم بلکہ تمام حدود ہی کو وحشیانہ سزائیں قرار دے کر ان کا انکار کر دیا۔ ایسے لوگوں کو امت مسلمہ بدترین منافق ہی کے طور پر پہچانتی ہے کہ جب وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کو وحشیانہ قرار دیتے ہیں تو ظاہر ہے کہ اسلام کا لبادہ انہوں نے مسلمانوں میں شامل رہ کر کفر کی نمائندگی کے لیے اوڑھ رکھا ہے۔ اس لیے ان کے نفاق کا علم عام ہونے کی وجہ سے یہ لوگ اسلام کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکے، بلکہ مسلمان ہمیشہ اس انتظار میں ہیں اور دعائیں کرتے ہیں کہ کب وہ مبارک وقت آئے جب عہد نبوی اور خلافت راشدہ کی طرح اللہ کی حدود قائم ہوں گی اور معاشرے میں امن و امان اور عفت و پاکدامنی کا دور رورہ ہوگا۔
مزید لکھتے ہیں : اللہ کی حدود کو اصل نقصان ان لوگوں نے پہنچایا اور انہی کے ہم نواؤں کے برسر اقتدار ہونے کی وجہ سے اللہ کی حدود معطل ہوئیں ۔ جنہوں نے اگرچہ حدود اللہ کا انکار نہیں کیا، کنوارے زانی کے لیے کوڑوں کی حد کا اور نہ شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی حد کا، مگر انہوں نے ایسے حیلے ایجاد کر لیے جن سے کسی زانی پر (کنوارا ہو یا شادی شدہ) حد نافذ کرنا تقریباً ناممکن ہے اور لطف یہ ہے کہ ان لوگوں کوموجودہ ہم نوا ان فقہی قوانین کو اللہ کا حکم قرار دینے پر اور انہیں بطور اسلام ملک میں نافذ کرنے پر مصر ہیں ۔ ہم ان میں چند شقیں یہاں نقل کرتے ہیں :
1: اجرت پر لائی ہوئی عورت سے زنا کرے تو اس پر حد نہیں ۔
2: دارالحرب اور دارالبغی میں زنا کرے تو اس پر حد نہیں ۔
3: جن عورتوں سے نکاح حرام ہے۔ (ماں ، بہن ، بیٹی،خالہ، پھوپھی ،بھانجی اور بھتیجی وغیرہ) ان سے نکاح کر کے زنا کرے تو اس پرحد نہیں خواہ اسے معلوم ہو کہ یہ حرام ہے۔
4: جس حکمران کے اوپر کوئی حکمران نہ ہو وہ زنا کرے تو اس پر حد نہیں ۔
5: اگر زانی دعویٰ کر دے کہ وہ اس کی بیوی ہے تو حد ساقط ہو جائے گی، خواہ وہ کسی اور کی بیوی ہو اور وہ کوئی دلیل بھی پیش نہ کرے۔
یہ ہیں ان کے چند حیلے تو فرمائیے! وہ کون سا زانی ہوگا جو جھوٹا دعویٰ کر کے حد سے جان نہیں بچائے گا۔( تفسیر القرآن الکریم : 3/75۔)
تخریج :
سنن ترمذي، الحدود، باب ما جاء في رجم أهل الکتاب، رقم الحدیث : 1436، صحیح بخاري، رقم الحدیث : 1329، صحیح مسلم، رقم الحدیث : 1699، امام ترمذی نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے۔
(1) حدود کے نفاذ کا مقصد:
اللہ رب العزت نے ہمیں اپنی عبادت و اطاعت کا حکم دیا ہے اوامر الٰہی کی اتباع اور منہیات سے اجتناب لازم ہے۔ شرعی احکام کی اتباع پر جنت کی نوید سنائی گئی اور ان کی مخالفت پر جہنم کی وعید ہے۔
اگر انسان دنیا میں رہتے ہوئے گناہوں میں ایک حد سے تجاوز کر جائے اور اس کا عمل معاشرے کے لیے پریشانی کا باعث بن رہا ہو تو معاشرے کو اس کے مفاسد سے بچانے کے لیے اسلام نے قانون حدود وتعزیرات دیا تاکہ لوگ پر امن زندگی گزار سکیں اور ان کے مال و جان محفوظ رہیں ۔
حدود میں سے کسی بھی حد کا مرتکب پر نفاد اس کے لیے کفارہ بن جاتا ہے۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ آپ نے فرمایا: ’’مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، نہ چوری کرو گے اور نہ زنا کرو گے۔‘‘ پھر آپ نے (سورہ ممتحنہ) کی آیت ﴿ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ.......﴾الخ تلاوت کی اور فرمایا: ’’جس نے تم میں سے اس بیعت کو پورا کیا تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے اور جو کسی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا اور پھر اسے سزا دے دی گئی تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے اور جو مرتکب ہوا اور اللہ نے اس پر پردہ ڈال دیا تو اس کا معاملہ اللہ ہی کے سپرد ہے چاہے تو اسے معاف کر دے اور چاہے تو اسے سزا دے۔‘‘( صحیح بخاري، الایمان، باب : 18، 6784، صحیح مسلم، الحدود، باب الحدود کفارات لأهلها : 1709۔)
(2) حد کا نفاذ کون کرے؟:
حدود کو اسلامی ریاست کا حکمران یا اس کا متعین کردہ نمائندہ جاری کرے گا۔ یہ کام انفرادی طور پر یا ریاست میں رہنے والے باشندوں پر مشتمل گروہوں ، جماعتوں کے کرنے کا نہیں کیونکہ اس سے بگاڑ پیدا ہوگا اور حدود کے نفاذ سے حاصل ہونے والے مقاصد ختم ہوجائیں گے لہٰذا حاکم وقت یا اس کے نائب کے علاوہ کسی کو بھی حدود جاری کرنے کا اختیار نہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں خود حدیں جاری کرتے جیسا کہ حدیث بالا میں یہودی مرد و وزن کو رجم کرنے کا ذکر ہوا۔ بسا اوقات آپ اس کے لیے کسی صحابی کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیج دیتے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک زنا کا مقدمہ پیش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
((وَاغْدُ یَا أُنَیْسُ إِلَی امْرَأَةِ هَذَا فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا))( صحیح بخاري، الصلح، باب اذا اصطلحوا علی صلح جور … الخ : 2695، صحیح مسلم، الحدود، باب من اعتراف علی نفسه بالزني : 1697۔)
’’انیس! کل صبح اس کی بیوی کے پاس جانا اگر وہ اعتراف زنا کرلے تو اسے رجم کر دینا۔‘‘
(3) شادی شدہ زانی کی حد:
اگر کوئی شادی شدہ زنا کا ارتکاب کرے تو اس کو پتھروں سے سنگسار کردیا جائے گا حتی کہ وہ مر جائے۔یہودی مرد اور عورت کے علاوہ ماعز اسلمی اور غامدیہ خاتون کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے رجم کیا گیا۔
(4) غیر شدی شدہ زانی کی حد:
زنا کرنے والا غیر شادی شدہ آزاد مرد ہو تو اسے سوکوڑے مارے جائیں گے اور پھر ایک سال کے لیے شہر بدر کر دیا جائے گا۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ (النور : 2)
’’زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والا مرد دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور تمہیں ان سے متعلق اللہ کے دین میں کوئی نرمی نہ پکڑے، اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور لازم ہے کہ ان کی سزا کے وقت مومنوں کی ایک جماعت موجود ہو۔‘‘
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
((قَضَی فِیمَنْ زَنَی وَلَمْ یُحْصَنْ بِنَفْيِ عَامٍ بِإِقَامَةِ الْحَدِّ عَلَیْهِ))( صحیح بخاري، الحدود، باب البکران یجلدان وینفیان : 6833۔)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر شادی شدہ زانی سے متعلق یہ فیصلہ فرمایا کہ اسے ایک سال کے لیے شہر بدر کر دیا جائے اور اس پر حد لگائی جائے۔‘‘
(5):… مفسرین لکھتے ہیں : ’’امت مسلمہ میں کچھ لوگوں نے رجم کا انکار کیا، بعض نے کوڑوں اوررجم بلکہ تمام حدود ہی کو وحشیانہ سزائیں قرار دے کر ان کا انکار کر دیا۔ ایسے لوگوں کو امت مسلمہ بدترین منافق ہی کے طور پر پہچانتی ہے کہ جب وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کو وحشیانہ قرار دیتے ہیں تو ظاہر ہے کہ اسلام کا لبادہ انہوں نے مسلمانوں میں شامل رہ کر کفر کی نمائندگی کے لیے اوڑھ رکھا ہے۔ اس لیے ان کے نفاق کا علم عام ہونے کی وجہ سے یہ لوگ اسلام کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکے، بلکہ مسلمان ہمیشہ اس انتظار میں ہیں اور دعائیں کرتے ہیں کہ کب وہ مبارک وقت آئے جب عہد نبوی اور خلافت راشدہ کی طرح اللہ کی حدود قائم ہوں گی اور معاشرے میں امن و امان اور عفت و پاکدامنی کا دور رورہ ہوگا۔
مزید لکھتے ہیں : اللہ کی حدود کو اصل نقصان ان لوگوں نے پہنچایا اور انہی کے ہم نواؤں کے برسر اقتدار ہونے کی وجہ سے اللہ کی حدود معطل ہوئیں ۔ جنہوں نے اگرچہ حدود اللہ کا انکار نہیں کیا، کنوارے زانی کے لیے کوڑوں کی حد کا اور نہ شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی حد کا، مگر انہوں نے ایسے حیلے ایجاد کر لیے جن سے کسی زانی پر (کنوارا ہو یا شادی شدہ) حد نافذ کرنا تقریباً ناممکن ہے اور لطف یہ ہے کہ ان لوگوں کوموجودہ ہم نوا ان فقہی قوانین کو اللہ کا حکم قرار دینے پر اور انہیں بطور اسلام ملک میں نافذ کرنے پر مصر ہیں ۔ ہم ان میں چند شقیں یہاں نقل کرتے ہیں :
1: اجرت پر لائی ہوئی عورت سے زنا کرے تو اس پر حد نہیں ۔
2: دارالحرب اور دارالبغی میں زنا کرے تو اس پر حد نہیں ۔
3: جن عورتوں سے نکاح حرام ہے۔ (ماں ، بہن ، بیٹی،خالہ، پھوپھی ،بھانجی اور بھتیجی وغیرہ) ان سے نکاح کر کے زنا کرے تو اس پرحد نہیں خواہ اسے معلوم ہو کہ یہ حرام ہے۔
4: جس حکمران کے اوپر کوئی حکمران نہ ہو وہ زنا کرے تو اس پر حد نہیں ۔
5: اگر زانی دعویٰ کر دے کہ وہ اس کی بیوی ہے تو حد ساقط ہو جائے گی، خواہ وہ کسی اور کی بیوی ہو اور وہ کوئی دلیل بھی پیش نہ کرے۔
یہ ہیں ان کے چند حیلے تو فرمائیے! وہ کون سا زانی ہوگا جو جھوٹا دعویٰ کر کے حد سے جان نہیں بچائے گا۔( تفسیر القرآن الکریم : 3/75۔)