كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ حَدَّثَنَا ابْنُ سَابِقٍ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ نَافِعٍ قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا كَانَ فِي السَّفَرِ فِي اللَّيْلَةِ الْبَارِدَةِ أَوِ اللَّيْلَةِ الْمَطِيرَةِ، فَيُنَادِي بِالصَّلَاةِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ، ثُمَّ يُنَادِي: أَلَا صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ، فَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِي اللَّيْلَةِ الْبَارِدَةِ وَاللَّيْلَةِ الْمَطِيرَةِ
کتاب
باب
نافع رحمہ اللہ نے بیان کیا، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب سردی یا بارش کی رات سفر میں ہوتے اور نماز عشاء کے لیے اذان دیتے تو کہتے اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔‘‘ یقینا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سردی اور بارش کی رات میں اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔
تشریح :
نماز باجماعت کی رخصت:
شریعت اسلامیہ نے فرض نماز باجماعت ادا کرنے کی تاکید فرمائی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ﴾ (البقرہ : 43)
’’اور نماز قائم کرو اور زکاۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘
احادیث میں باجماعت نماز کی فضیلت بیان ہوئی اور جماعت کے بغیر نماز پڑھنے والوں ، جماعت سے پیچھے رہ جانے والوں کو سخت وعیدیں سنائی گئیں ۔ اس کے باوجود بعض مخصوص حالات میں نماز باجماعت سے رخصت دی گئی۔ سخت سردی اور بارش کے وقت نماز کو گھروں یا پڑاؤ کے مقامات پر ادا کرنے کی رخصت دی گئی اور اسی کیفیت میں ’’الاصلوا في رحالکم‘‘ کے ساتھ مؤذن عہد نبوی میں نماز باجماعت کے لیے حاضر نہ ہونے کی تاکید بھی کرتاتھا۔
جب کھانا پک کر آ چکا ہو اور دسترخوان پر لگا ہو تو باجماعت نماز سے رہ جانے کی رخصت ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی کھانے پر ہو تو جلدی نہ کرے حتی کہ کھانا کھا لے، اگرچہ نماز کھڑی ہو چکی ہو۔‘‘( صحیح البخاري، الاذان، باب اذا حضر الطعام واقیمت الصلاة : 674۔)
جب انسان کو اچانک بول و براز کی حاجت ہو تو اسے باجماعت نماز میں شرکت کی بجائے قضائے حاجت کے بعد نماز ادا کرنی چاہیے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھانا حاضر ہو تو نماز نہیں ہے اور اس وقت بھی نہیں جبکہ بندہ دونجاستوں (پیشاب یا پاخانہ) کو روکے ہوئے ہو۔( صحیح مسلم، المساجد، باب کراهة الصلاة بحضرة الطعام : 560۔)
تخریج :
صحیح بخاري، الأذان، باب الاذان للمسافرین اذا کانوا جماعة والاقامة… الخ، رقم الحدیث : 632، صحیح مسلم، صلاة المسافرین، باب الصلاة في الرحال في المطر، رقم الحدیث : 697۔
نماز باجماعت کی رخصت:
شریعت اسلامیہ نے فرض نماز باجماعت ادا کرنے کی تاکید فرمائی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ﴾ (البقرہ : 43)
’’اور نماز قائم کرو اور زکاۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘
احادیث میں باجماعت نماز کی فضیلت بیان ہوئی اور جماعت کے بغیر نماز پڑھنے والوں ، جماعت سے پیچھے رہ جانے والوں کو سخت وعیدیں سنائی گئیں ۔ اس کے باوجود بعض مخصوص حالات میں نماز باجماعت سے رخصت دی گئی۔ سخت سردی اور بارش کے وقت نماز کو گھروں یا پڑاؤ کے مقامات پر ادا کرنے کی رخصت دی گئی اور اسی کیفیت میں ’’الاصلوا في رحالکم‘‘ کے ساتھ مؤذن عہد نبوی میں نماز باجماعت کے لیے حاضر نہ ہونے کی تاکید بھی کرتاتھا۔
جب کھانا پک کر آ چکا ہو اور دسترخوان پر لگا ہو تو باجماعت نماز سے رہ جانے کی رخصت ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی کھانے پر ہو تو جلدی نہ کرے حتی کہ کھانا کھا لے، اگرچہ نماز کھڑی ہو چکی ہو۔‘‘( صحیح البخاري، الاذان، باب اذا حضر الطعام واقیمت الصلاة : 674۔)
جب انسان کو اچانک بول و براز کی حاجت ہو تو اسے باجماعت نماز میں شرکت کی بجائے قضائے حاجت کے بعد نماز ادا کرنی چاہیے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھانا حاضر ہو تو نماز نہیں ہے اور اس وقت بھی نہیں جبکہ بندہ دونجاستوں (پیشاب یا پاخانہ) کو روکے ہوئے ہو۔( صحیح مسلم، المساجد، باب کراهة الصلاة بحضرة الطعام : 560۔)