كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ نَافِعٍ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شَيْءٌ يُوصِي فِيهِ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ إِلَّا وَعِنْدَهُ وَصِيَّةٌ»
کتاب
باب
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمانوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس کے پاس کوئی چیز ہو جس سے متعلق وہ وصیت کرنا چاہتا ہو کہ وہ دو راتیں بھی اس حال میں گزار دے کہ اس کی وصیت اس کے پاس (لکھی ہوئی نہ) ہو۔‘‘
تشریح :
(1) وصیت کا حکم:
اگر کسی کے پاس کوئی ایسا مال ہو جس سے متعلق ورثان کو آگاہ کرنا ضروری ہے اور آگاہ نہ کرنے کی صورت میں کسی کی حق تلفی کا خدشہ ہو تو وصیت میں بالکل دیر نہیں کرنی چاہیے۔ ایسی صورت میں وصیت لازم و ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴾ (البقرہ : 180)
’’تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کس کو موت آپہنچے، اگر اس نے کوئی چیز چھوڑی ہو، اچھے طریقے کے ساتھ ماں ، باپ اور رشتہ داروں کے لیے وصیت کرنا متقی لوگوں پر یہ لازم ہے۔‘‘
چونکہ موت کسی بھی وقت آ سکتی ہے لہٰذا وصیت میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔
حدیث بالا میں بھی اس کی تاکید ہوئی کہ اگر کوئی ایسی چیز کسی کے پاس ہو جس میں وصیت کرنا لازم ہو تو آدمی کو دیر نہیں کرنی چاہیے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سننے کے بعد ایک رات بھی نہ گزری تھی کہ میں نے اپنی وصیت لکھ کر اپنے پاس رکھ لی۔( صحیح مسلم، الوصیۃ، باب وصیۃ الرجل مکتوبۃ عندہ : 1627۔)
(2) وصیت سے متعلقہ چند ہدایت:
(i):… وصیت کو پورا کرنے سے پہلے میت کے ذمہ واجب الادا قرض کی ادائیگی لازم و ضروری ہے۔
(ii):… خلاف شرع،کسی کونقصان پہنچانے، اللہ اور رسول کی نافرمانی کے امور میں وصیت پر عمل کرنا ناجائز ہے اور ایسی وصیت بھی ممنوع ہے۔
(iii):… شرعاً جائز وصیت میں رد وبدل کرنا ممنوع ہے۔
(iv):… میت کا وارث بننے والوں کے حق میں مال کی تقسیم سے متعلق وصیت کرنا جائز نہیں لہٰذا اگر کوئی مرنے والا اپنی شرعی ورثاء سے متعلق مال کی تقسیم کی وصیت کرے گا تو وہ پوری نہیں کی جائے گی بلکہ ورثاء میں سے ہر ایک کو متعین شرعی حق وراثت ہی ملے گا۔
(v) :… ثلث (تہائی) مال کی وصیت ہو سکتی ہے۔ اس سے زیادہ کی وصیت جائز نہیں ۔
تخریج :
صحیح بخاري، الوصایا، باب الوصایا، رقم الحدیث : 2738، صحیح مسلم، الوصیة، باب وصیة الرجل مکتوبة عنده، رقم الحدیث : 1627۔
(1) وصیت کا حکم:
اگر کسی کے پاس کوئی ایسا مال ہو جس سے متعلق ورثان کو آگاہ کرنا ضروری ہے اور آگاہ نہ کرنے کی صورت میں کسی کی حق تلفی کا خدشہ ہو تو وصیت میں بالکل دیر نہیں کرنی چاہیے۔ ایسی صورت میں وصیت لازم و ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴾ (البقرہ : 180)
’’تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کس کو موت آپہنچے، اگر اس نے کوئی چیز چھوڑی ہو، اچھے طریقے کے ساتھ ماں ، باپ اور رشتہ داروں کے لیے وصیت کرنا متقی لوگوں پر یہ لازم ہے۔‘‘
چونکہ موت کسی بھی وقت آ سکتی ہے لہٰذا وصیت میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔
حدیث بالا میں بھی اس کی تاکید ہوئی کہ اگر کوئی ایسی چیز کسی کے پاس ہو جس میں وصیت کرنا لازم ہو تو آدمی کو دیر نہیں کرنی چاہیے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سننے کے بعد ایک رات بھی نہ گزری تھی کہ میں نے اپنی وصیت لکھ کر اپنے پاس رکھ لی۔( صحیح مسلم، الوصیۃ، باب وصیۃ الرجل مکتوبۃ عندہ : 1627۔)
(2) وصیت سے متعلقہ چند ہدایت:
(i):… وصیت کو پورا کرنے سے پہلے میت کے ذمہ واجب الادا قرض کی ادائیگی لازم و ضروری ہے۔
(ii):… خلاف شرع،کسی کونقصان پہنچانے، اللہ اور رسول کی نافرمانی کے امور میں وصیت پر عمل کرنا ناجائز ہے اور ایسی وصیت بھی ممنوع ہے۔
(iii):… شرعاً جائز وصیت میں رد وبدل کرنا ممنوع ہے۔
(iv):… میت کا وارث بننے والوں کے حق میں مال کی تقسیم سے متعلق وصیت کرنا جائز نہیں لہٰذا اگر کوئی مرنے والا اپنی شرعی ورثاء سے متعلق مال کی تقسیم کی وصیت کرے گا تو وہ پوری نہیں کی جائے گی بلکہ ورثاء میں سے ہر ایک کو متعین شرعی حق وراثت ہی ملے گا۔
(v) :… ثلث (تہائی) مال کی وصیت ہو سکتی ہے۔ اس سے زیادہ کی وصیت جائز نہیں ۔