مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 55

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ نَافِعٍ قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ: كَانَ يَوْمًا يُعَظِّمُهُ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 55

کتاب باب نافع رحمہ اللہ نے بیان کیا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یوم عاشوراء کے روزے سے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: زمانہ جاہلیت کے لوگ اس دن کی تعظیم کرتے تھے۔
تشریح : (1) رمضان کے روزہ کی فرضیت اور نفلی روزہ کی فضیلت کے لیے دیکھئے فوائد حدیث نمبر 31۔ (2) یوم عاشورا کا روزہ: عاشورہ سے مراد محرم الحرام کی دسویں تاریخ ہے۔ زمانۂ جاہلیت کے لوگ اس دن روزہ رکھتے اس دن کی تعظیم کرتے تھے۔ ہمارے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس دن کے روزے کا اہتمام کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے مدینہ کے یہود کو بھی اس دن کا روزہ رکھتے دیکھا، شروع اسلام میں عاشورہ کا روزہ فرض تھا، جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو اس کی فرضیت ختم کر دی گئی۔ اب عاشورا کا روزہ مسنون ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : ((کَانَ یَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَیْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَصُومُهُ فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِینَةَ صَامَهُ وَأَمَرَ بِصِیَامِهِ فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تَرَكَ یَوْمَ عَاشُورَاءَ فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ وَمَنْ شَاءَ تَرَکَهُ))( صحیح بخاري، الصوم، باب صوم عاشوراء : 2002، صحیح مسلم، الصیام باب صوم یوم عاشوراء : 1125۔) ’’زمانۂ جاہلیت میں عاشورہ کے دن قریش روزہ رکھتے تھے اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب آپ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا، جب رمضان کی فرضیت نازل ہوئی تو آپ نے عاشورہ کے دن کا روزہ چھوڑ دیا، لہٰذا جس نے چاہا روزہ رکھ لیا اور جس نے چاہا روزہ چھوڑ دیا۔‘‘ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہود کو عاشورا کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا، یہودیوں سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا: اس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ نصیب کیا،لہٰذا ہم اس کی تعظیم میں روزہ رکھتے ہیں (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’نحن اولیٰ بموسی منکم‘‘ ہم تمہاری نسبت موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ قریب ہیں ۔‘‘ پھر آپ علیہ السلام نے اس دن کے روزہ کا حکم دیا۔( صحیح بخاري، مناقب الانصار، باب اتیان الیهود النبي صلي اللّٰه عليه وسلم ، حین قدم المدینة : 3943، صحیح مسلم، الصیام، باب صوم یوم عاشوراء : 1130۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس محرم کا روزہ رکھا اور نو محرم کے روزہ کا ارادہ فرمایا جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَئِنْ بَقِیتُ اِلٰی قَابِلٍ لَأَصُومَنَّ التَّاسِعَ))( صحیح مسلم، الصیام، باب أي یوم یصام في عاشورا : 1134۔) ’’اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو ضرور نو محرم کا روزہ رکھوں گا۔‘‘ لیکن آئندہ سال نو محرم کا دن آنے سے قبل ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور آپ نو محرم کا روزہ نہ رکھ سکے۔ عاشورہ کے روزے کی فضیلت: سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((صِیَامُ یَوْمِ عَرَفَهَ اَحْتَسِبُ عَلَی اللّٰهِ اَنْ یُّکَفِرَ السُّنَةَ الَّتِي قَبْلَهٗ وَالسَّنَةَ الَّتِيْ بَعْدَهٗ وَصِیَام ُیَوْمِ عَاشُوْرَآءَ اَحْتَسِبُ عَلَی اللّٰه اَنْ یُّکَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِيْ قَبْلَهٗ))( صحیح مسلم، الصیام، باب استحباب صیام ثلاثة ایام من کل … الخ : 1162۔) ’’یوم عرفہ کے روزے سے متعلق مجھے اللہ سے امید ہے کہ یہ ایک سال اپنے سے پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کے لیے کفارہ ہوگا اور عاشورہ کے دن کے روزے سے متعلق مجھے اللہ سے امید ہے کہ پچھلے سال کے گناہوں کے لیے کفارہ ہوگا۔‘‘
تخریج : صحیح بخاري، التفسیر، باب یایها الذین اٰمنوا کتب علیکم… الخ، رقم الحدیث : 4501، صحیح مسلم، الصیام، باب صوم یوم عاشورا، رقم الحدیث : 1126، بلفظ ’’یصومه اهل الجاهلیة‘‘ (1) رمضان کے روزہ کی فرضیت اور نفلی روزہ کی فضیلت کے لیے دیکھئے فوائد حدیث نمبر 31۔ (2) یوم عاشورا کا روزہ: عاشورہ سے مراد محرم الحرام کی دسویں تاریخ ہے۔ زمانۂ جاہلیت کے لوگ اس دن روزہ رکھتے اس دن کی تعظیم کرتے تھے۔ ہمارے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس دن کے روزے کا اہتمام کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے مدینہ کے یہود کو بھی اس دن کا روزہ رکھتے دیکھا، شروع اسلام میں عاشورہ کا روزہ فرض تھا، جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو اس کی فرضیت ختم کر دی گئی۔ اب عاشورا کا روزہ مسنون ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : ((کَانَ یَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَیْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَصُومُهُ فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِینَةَ صَامَهُ وَأَمَرَ بِصِیَامِهِ فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تَرَكَ یَوْمَ عَاشُورَاءَ فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ وَمَنْ شَاءَ تَرَکَهُ))( صحیح بخاري، الصوم، باب صوم عاشوراء : 2002، صحیح مسلم، الصیام باب صوم یوم عاشوراء : 1125۔) ’’زمانۂ جاہلیت میں عاشورہ کے دن قریش روزہ رکھتے تھے اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب آپ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا، جب رمضان کی فرضیت نازل ہوئی تو آپ نے عاشورہ کے دن کا روزہ چھوڑ دیا، لہٰذا جس نے چاہا روزہ رکھ لیا اور جس نے چاہا روزہ چھوڑ دیا۔‘‘ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہود کو عاشورا کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا، یہودیوں سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا: اس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ نصیب کیا،لہٰذا ہم اس کی تعظیم میں روزہ رکھتے ہیں (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’نحن اولیٰ بموسی منکم‘‘ ہم تمہاری نسبت موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ قریب ہیں ۔‘‘ پھر آپ علیہ السلام نے اس دن کے روزہ کا حکم دیا۔( صحیح بخاري، مناقب الانصار، باب اتیان الیهود النبي صلي اللّٰه عليه وسلم ، حین قدم المدینة : 3943، صحیح مسلم، الصیام، باب صوم یوم عاشوراء : 1130۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس محرم کا روزہ رکھا اور نو محرم کے روزہ کا ارادہ فرمایا جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَئِنْ بَقِیتُ اِلٰی قَابِلٍ لَأَصُومَنَّ التَّاسِعَ))( صحیح مسلم، الصیام، باب أي یوم یصام في عاشورا : 1134۔) ’’اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو ضرور نو محرم کا روزہ رکھوں گا۔‘‘ لیکن آئندہ سال نو محرم کا دن آنے سے قبل ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور آپ نو محرم کا روزہ نہ رکھ سکے۔ عاشورہ کے روزے کی فضیلت: سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((صِیَامُ یَوْمِ عَرَفَهَ اَحْتَسِبُ عَلَی اللّٰهِ اَنْ یُّکَفِرَ السُّنَةَ الَّتِي قَبْلَهٗ وَالسَّنَةَ الَّتِيْ بَعْدَهٗ وَصِیَام ُیَوْمِ عَاشُوْرَآءَ اَحْتَسِبُ عَلَی اللّٰه اَنْ یُّکَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِيْ قَبْلَهٗ))( صحیح مسلم، الصیام، باب استحباب صیام ثلاثة ایام من کل … الخ : 1162۔) ’’یوم عرفہ کے روزے سے متعلق مجھے اللہ سے امید ہے کہ یہ ایک سال اپنے سے پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کے لیے کفارہ ہوگا اور عاشورہ کے دن کے روزے سے متعلق مجھے اللہ سے امید ہے کہ پچھلے سال کے گناہوں کے لیے کفارہ ہوگا۔‘‘