مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 52

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَتْ فِي كُلِّ أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ فَشَاتَانِ إِلَى مِائَتَيْنِ، فَإِذَا زَادَتْ فَثَلَاثٌ إِلَى ثَلَاثِمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ فَفِي كُلِّ مِائَةٍ شَاةٌ، لَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ، وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُفْتَرِقٍ، وَكُلُّ خَلِيطَيْنِ يَتَرَادَّانِ بِالسَّوِيَّةِ، وَلَيْسَ لِلْمُصَدِّقِ هَرِمَةٌ وَلَا تَيْسٌ وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ الْمُصَدِّقُ

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 52

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: ہر چالیس بکریوں پر ایک سو بیس تک ایک بکری زکاۃ ہے۔ جب تعداد بڑھ جائے تو ہر دو سو تک دو بکریاں ہیں ۔ جب تعدا د (اس سے بھی) بڑھ جائے توتین سو تک تین بکریاں ہیں ۔ جب تعداد اس سے بھی بڑھ جائے تو ہر سو پر ایک بکری زکاۃ ہے۔ (زکاۃ کے ڈر سے) اکٹھے ریوڑ کو علیحدہ علیحدہ نہ کیاجائے اور الگ الگ ریوڑ کو اکٹھا نہ کیاجائے اور ہر دو حصے دار برابری کے ساتھ ایک دوسرے سے حساب کر لیں اور زکاۃ وصول کرنے والے عامل کو بوڑھا، سانڈ، عیب والا نہ دیاجائے الا یہ کہ زکاۃ دینے والا چاہے۔
تشریح : (1) بکریوں کی زکاۃ: حیوانات کی زکاۃ اونٹ، گائے اور بکریوں سے ادا کی جاتی ہے۔ بکریوں کی تعداد اگر چالیس ہوجائے تو ان کی زکاۃ ایک بکری ہے اور ایک سو بیس تک ایک ہی بکری واجب الادا ہے۔ جب ایک سو بیس سے ایک بکری بھی زیادہ ہو جائے تو دو سو تک، دو بکریاں زکاۃ ہوگی۔ دو سو سے ایک بکری بھی بڑھ جائے تو تین سو تک تین بکریاں واجب الادا ہیں ۔ پھر ہر سو پر ایک بکری زکاۃ ہے۔ اگر بکریاں تین صد ننانوے (399) ہوں تو ان پر تین بکریاں زکاۃ ہے اور اگر یہ تعداد چار سو تک پہنچ جائے تو پھر چار بکریاں زکاۃ ہوگی۔ (2) زکاۃ سے بچنے کے لیے حیلہ کرنا: زکاۃ اسلام کا بنیادی رکن ہے ہر صاحب نصاب مسلمان کو خوش دلی کے ساتھ زکاۃ ادا کرنی چاہیے۔ زکاۃ سے بچنے کے لیے حیلے و بہانے کرنا درست نہیں ۔ حدیث بالا میں چند حیلے بیان ہوئے جن کی بالکل گنجائش نہیں ۔ (i) اکٹھے جانوروں کو علیحدہ کرنا مثلاً دو آدمیوں کی دو سو ایک بکریاں ہوں تو ان پر تین بکریاں زکاۃ ہے، اگر وہ ان کو علیحدہ علیحدہ کر لیں تو ہر ایک کو ایک ایک بکری زکاۃ دینی پڑے گی لہٰذاایسا کرنا جائز نہیں ۔ (ii) علیحدہ علیحدہ مال کواکٹھا کرنا بھی جائز نہیں مثلاً دو آدمی ہیں جن میں سے ہر ایک کے پاس چالیس چالیس بکریاں ہیں ۔ اب اگر وہ اپنی اپنی بکریاں علیحدہ علیحدہ رکھیں تو ہر ایک کو ایک بکری دینا ہوگی لیکن اگر بکریاں اکٹھی کر لیتے ہیں تو دونوں پر ایک بکری زکاۃ واجب الادا ہوگی۔ ایسا کرنا بھی شرعاً ناجائز ہے۔ (3) اکٹھے جانوروں کا حساب: جن لوگوں کے جانور اکٹھے ہوں اور وہ نصاب کو پہنچ جائیں تو حصہ داروں کو زکاۃ کا حساب برابر برابر تقسیم کر لینا ہوگا۔ مثلاً تین حصہ داروں کی ایک سو بیس بکریاں ہیں ۔ جن پرایک بکری زکاۃ لازم ہوئی تو سب اس کا حساب لگا کر جس کے مال سے وہ بکری ادا ہوئی اسے دو حصے رقم دے دیں ۔ (4) زکاۃمیں ناقابل قبول جانور: زکاۃ میں بعض جانور ناقابل قبول ہیں ۔ لہٰذا ان جانوروں کے علاوہ دیگر جانوروں سے زکاۃ ادا ہونی چاہیے۔زکاۃ میں بوڑھا، بھینگا، عیب دار،عمر میں چھوٹا، افزائش نسل کے لیے مخصوص جانور، گوشت کے لیے پالا گیا پالتو جانور، دودھ کے لیے مخصوص اور حاملہ وغیرہ کو زکوۃ میں وصول نہیں کیا جائے گا۔
تخریج : تخریج پچھلی حدیث نمبر : 51 کی دیکھیں ۔ (1) بکریوں کی زکاۃ: حیوانات کی زکاۃ اونٹ، گائے اور بکریوں سے ادا کی جاتی ہے۔ بکریوں کی تعداد اگر چالیس ہوجائے تو ان کی زکاۃ ایک بکری ہے اور ایک سو بیس تک ایک ہی بکری واجب الادا ہے۔ جب ایک سو بیس سے ایک بکری بھی زیادہ ہو جائے تو دو سو تک، دو بکریاں زکاۃ ہوگی۔ دو سو سے ایک بکری بھی بڑھ جائے تو تین سو تک تین بکریاں واجب الادا ہیں ۔ پھر ہر سو پر ایک بکری زکاۃ ہے۔ اگر بکریاں تین صد ننانوے (399) ہوں تو ان پر تین بکریاں زکاۃ ہے اور اگر یہ تعداد چار سو تک پہنچ جائے تو پھر چار بکریاں زکاۃ ہوگی۔ (2) زکاۃ سے بچنے کے لیے حیلہ کرنا: زکاۃ اسلام کا بنیادی رکن ہے ہر صاحب نصاب مسلمان کو خوش دلی کے ساتھ زکاۃ ادا کرنی چاہیے۔ زکاۃ سے بچنے کے لیے حیلے و بہانے کرنا درست نہیں ۔ حدیث بالا میں چند حیلے بیان ہوئے جن کی بالکل گنجائش نہیں ۔ (i) اکٹھے جانوروں کو علیحدہ کرنا مثلاً دو آدمیوں کی دو سو ایک بکریاں ہوں تو ان پر تین بکریاں زکاۃ ہے، اگر وہ ان کو علیحدہ علیحدہ کر لیں تو ہر ایک کو ایک ایک بکری زکاۃ دینی پڑے گی لہٰذاایسا کرنا جائز نہیں ۔ (ii) علیحدہ علیحدہ مال کواکٹھا کرنا بھی جائز نہیں مثلاً دو آدمی ہیں جن میں سے ہر ایک کے پاس چالیس چالیس بکریاں ہیں ۔ اب اگر وہ اپنی اپنی بکریاں علیحدہ علیحدہ رکھیں تو ہر ایک کو ایک بکری دینا ہوگی لیکن اگر بکریاں اکٹھی کر لیتے ہیں تو دونوں پر ایک بکری زکاۃ واجب الادا ہوگی۔ ایسا کرنا بھی شرعاً ناجائز ہے۔ (3) اکٹھے جانوروں کا حساب: جن لوگوں کے جانور اکٹھے ہوں اور وہ نصاب کو پہنچ جائیں تو حصہ داروں کو زکاۃ کا حساب برابر برابر تقسیم کر لینا ہوگا۔ مثلاً تین حصہ داروں کی ایک سو بیس بکریاں ہیں ۔ جن پرایک بکری زکاۃ لازم ہوئی تو سب اس کا حساب لگا کر جس کے مال سے وہ بکری ادا ہوئی اسے دو حصے رقم دے دیں ۔ (4) زکاۃمیں ناقابل قبول جانور: زکاۃ میں بعض جانور ناقابل قبول ہیں ۔ لہٰذا ان جانوروں کے علاوہ دیگر جانوروں سے زکاۃ ادا ہونی چاہیے۔زکاۃ میں بوڑھا، بھینگا، عیب دار،عمر میں چھوٹا، افزائش نسل کے لیے مخصوص جانور، گوشت کے لیے پالا گیا پالتو جانور، دودھ کے لیے مخصوص اور حاملہ وغیرہ کو زکوۃ میں وصول نہیں کیا جائے گا۔