كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّالَاتِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ الصَّايِغِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «فِي أَرْبَعٍ وَعِشْرِينَ مِنَ الْإِبِلِ خَمْسُ شِيَاهٍ إِلَى أَنْ تَبْلُغَ خَمْسًا وَعِشْرِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا وَعِشْرِينَ فَفِيهَا ابْنَةُ مَخَاضٍ، فَإِنْ لَمْ يَكُنِ ابْنَةُ مَخَاضٍ فَابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ إِلَى خَمْسٍ وَثَلَاثِينَ، ثُمَّ وَصَفَ مِثْلَ مَا يَصِفُ غَيْرُهُ مِنَ الْأَسْنَانِ إِلَى أَنْ تَبْلُغَ عِشْرِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا زَادَتْ فَفِي كُلِّ خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ ابْنُ لَبُونٍ، وَفِي كُلِّ سِتِّينَ حِقَّةٌ»
کتاب
باب
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چوبیس اونٹوں میں پانچ بکریاں زکاۃ ہے حتی کہ پچیس ہو جائیں ۔ جب (ان کی تعداد) پچیس ہو جائے تو ان میں ایک بنت مخاض ہے۔ اگر بنت مخاض نہ ہو تو پینتیس تک ابن لبون ہے۔ پھر زکاۃ کے اونٹوں کی عمر کے حساب سے وہی صورت بیان کی جو دیگر افراد بیان کرتے ہیں ۔ یہاں تک کہ اونٹوں کی تعداد ایک سو بیس ہو جائے۔ جب تعداد ایک سو بیس سے بڑھ جائے تو ہر پینتالیس پر ایک ابن لبون اور ہر ساٹھ پر ایک حقہ زکاۃ ہے۔‘‘
تشریح :
(1) زکوٰۃ کی فرضیت:
اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے شہادتین اور نماز کے بعد تیسرا رکن زکاۃ ہے۔ قرآن اور حدیث میں بے شمار دلائل کے ساتھ اس کی فرضیت بیان ہوئی اور زکاۃ نہ دینے والوں کو شریعت اسلامیہ نے سخت بھی سنائی ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ﴾ (البقرہ : 43)
’’اور نماز قائم کرو اور زکاۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾ (التوبہ : 103)
’’آپ ان کے مالوں سے صدقہ (زکوٰۃ) لیجئے تاکہ آپ اس کے ذریعے سے انہیں پاک کریں اور ان کا تزکیہ کریں اوران کے لیے دعا کریں ، بے شک آپ کی دعا ان کے لیے سکون کا باعث ہے اور اللہ خوب سننے والااور خوب جاننے والا ہے۔‘‘
سورہ فصلت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ﴾ (حم السجدہ : 7)
’’جوزکاۃ نہیں دیتے اور وہ آخرت کے بھی منکر ہیں ۔‘‘
زکوۃ کی فرضیت کے باوجود ادائیگی نہ کرنے والے دنیا و آخرت میں رسوا ہوں گے۔ مسلم ریاست کے وہ باشندے جو زکاۃ ادا نہ کریں ۔ ان سے بزور شمشیر زکاۃ وصول کی جائے گی۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْهَدُوا أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلَ اللّٰهِ، وَیُقِیْمُوْا الصَّلَاةَ، وَیُؤْتُوْا الزَّکَاةَ، فَإِذَا فَعَلُوا ذٰلِكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَآئَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّ الْاِسْلَامِ وَحِسَابُهُمْ عَلَی اللّٰهِ))( صحیح بخاري، الایمان، باب ’’فان تابوا اقاموا الصلوة… الخ : 25، صحیح مسلم، الایمان، باب الامر بقتال الناس حتی یقولوا … الخ : 22۔)
’’مجھے لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔ حتی کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اورزکاۃ ادا کریں ، جب وہ یہ کام کریں گے تو مجھ سے اپنے خون اور مال محفوظ کر لیں گے مگر اسلام کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔‘‘
زکوۃ ہر اس آزاد مسلمان پر فرض و واجب ہے جو صاحب نصاب ہے اور اس نصاب پر ایک سال گزرجائے البتہ نباتات کی زکوۃ اس وقت اد اکرنا ہوگی جب ان کو کاٹ لیا جائے اور ان کی مقدار نصاب کو پہنچ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ﴾ (الانعام : 141)
’’اور ان کی کٹائی کے دن اس (اللہ) کا حق دے دیا کرو۔‘‘
(2) حیوانات کی زکوۃ:
جن اموال پر زکاۃ فرض کی گئی ان میں سے حیوانات بھی ہیں ۔ اس حدیث میں اونٹوں کی زکاۃ اور ان کا مختصر نصاب مذکور ہے۔
جب اونٹ پانچ ہوں تو ان پر ایک بکری زکاۃ ہے،اس سے کم تعداد میں زکاۃ نہیں ۔ اس کے بعد ہر پانچ پر ایک بکری ہے حتی کہ یہ تعداد پچیس تک پہنچ جائے۔ جب یہ پچیس ہوجائیں تو ایک بنت مخاض (ایک سالہ اونٹنی جو دوسرے سال میں داخل ہوچکی ہو) یا ایک ابن لبون (دو سالہ اونٹ جو تیسرے سال میں داخل ہو چکا ہو) ہے۔ چھتیس میں ایک بنت لبون اور چھیالیس سال میں ایک حقہ (تین سالہ اونٹنی جو چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہو) ہے اور اکسٹھ میں ایک جزعہ (چار سالہ اونٹنی جو پانچویں میں داخل ہو چکی ہو) اور چھہتر سے نوے تک دو بنت لبون اور اکانوے سے ایک سو بیس تک دو حقے ہیں اور جب یہ تعداد ایک سو بیس سے تجاوز کر جائے تو ہر چالیس پر ایک بنت لبون اور ہر پچاس پر ایک حقہ زکاۃ ہے۔
تخریج :
سنن ترمذي،الزکاة، باب ما جاء في زکاة الابل والغنم، رقم الحدیث : 621، سنن ابي داؤد، الزکاة، باب في زکاة السائمة، رقم الحدیث : 1568، سنن ابن ماجة ،الزکاة، باب صدقة الابل، رقم الحدیث : 1798، عن سالم عن ابیہ، امام ترمذی نے اسے ’’حسن‘‘ اور محدث البانی نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
(1) زکوٰۃ کی فرضیت:
اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے شہادتین اور نماز کے بعد تیسرا رکن زکاۃ ہے۔ قرآن اور حدیث میں بے شمار دلائل کے ساتھ اس کی فرضیت بیان ہوئی اور زکاۃ نہ دینے والوں کو شریعت اسلامیہ نے سخت بھی سنائی ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ﴾ (البقرہ : 43)
’’اور نماز قائم کرو اور زکاۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾ (التوبہ : 103)
’’آپ ان کے مالوں سے صدقہ (زکوٰۃ) لیجئے تاکہ آپ اس کے ذریعے سے انہیں پاک کریں اور ان کا تزکیہ کریں اوران کے لیے دعا کریں ، بے شک آپ کی دعا ان کے لیے سکون کا باعث ہے اور اللہ خوب سننے والااور خوب جاننے والا ہے۔‘‘
سورہ فصلت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ﴾ (حم السجدہ : 7)
’’جوزکاۃ نہیں دیتے اور وہ آخرت کے بھی منکر ہیں ۔‘‘
زکوۃ کی فرضیت کے باوجود ادائیگی نہ کرنے والے دنیا و آخرت میں رسوا ہوں گے۔ مسلم ریاست کے وہ باشندے جو زکاۃ ادا نہ کریں ۔ ان سے بزور شمشیر زکاۃ وصول کی جائے گی۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْهَدُوا أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلَ اللّٰهِ، وَیُقِیْمُوْا الصَّلَاةَ، وَیُؤْتُوْا الزَّکَاةَ، فَإِذَا فَعَلُوا ذٰلِكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَآئَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّ الْاِسْلَامِ وَحِسَابُهُمْ عَلَی اللّٰهِ))( صحیح بخاري، الایمان، باب ’’فان تابوا اقاموا الصلوة… الخ : 25، صحیح مسلم، الایمان، باب الامر بقتال الناس حتی یقولوا … الخ : 22۔)
’’مجھے لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔ حتی کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اورزکاۃ ادا کریں ، جب وہ یہ کام کریں گے تو مجھ سے اپنے خون اور مال محفوظ کر لیں گے مگر اسلام کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔‘‘
زکوۃ ہر اس آزاد مسلمان پر فرض و واجب ہے جو صاحب نصاب ہے اور اس نصاب پر ایک سال گزرجائے البتہ نباتات کی زکوۃ اس وقت اد اکرنا ہوگی جب ان کو کاٹ لیا جائے اور ان کی مقدار نصاب کو پہنچ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ﴾ (الانعام : 141)
’’اور ان کی کٹائی کے دن اس (اللہ) کا حق دے دیا کرو۔‘‘
(2) حیوانات کی زکوۃ:
جن اموال پر زکاۃ فرض کی گئی ان میں سے حیوانات بھی ہیں ۔ اس حدیث میں اونٹوں کی زکاۃ اور ان کا مختصر نصاب مذکور ہے۔
جب اونٹ پانچ ہوں تو ان پر ایک بکری زکاۃ ہے،اس سے کم تعداد میں زکاۃ نہیں ۔ اس کے بعد ہر پانچ پر ایک بکری ہے حتی کہ یہ تعداد پچیس تک پہنچ جائے۔ جب یہ پچیس ہوجائیں تو ایک بنت مخاض (ایک سالہ اونٹنی جو دوسرے سال میں داخل ہوچکی ہو) یا ایک ابن لبون (دو سالہ اونٹ جو تیسرے سال میں داخل ہو چکا ہو) ہے۔ چھتیس میں ایک بنت لبون اور چھیالیس سال میں ایک حقہ (تین سالہ اونٹنی جو چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہو) ہے اور اکسٹھ میں ایک جزعہ (چار سالہ اونٹنی جو پانچویں میں داخل ہو چکی ہو) اور چھہتر سے نوے تک دو بنت لبون اور اکانوے سے ایک سو بیس تک دو حقے ہیں اور جب یہ تعداد ایک سو بیس سے تجاوز کر جائے تو ہر چالیس پر ایک بنت لبون اور ہر پچاس پر ایک حقہ زکاۃ ہے۔