كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَّيَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى قَالَ أَنْبَأَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ، فَقَالَ: «مَثْنَى مَثْنَى، فَإِنْ خَشِيَ الصُّبْحَ فَوَاحِدَةٌ»
کتاب
باب
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز سے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو دو رکعت ہے اور اگر صبح (کے طلوع ہونے) کا خدشہ ہو تو ایک رکعت پڑھ لے۔
تشریح :
(1) قیام اللیل کی ترغیب:
شریعت میں نماز کی بہت زیادہ ترغیب دلائی گئی ہے۔ فرض نماز کے بعد افضل ترین نماز قیام اللیل، نمازِ تہجد ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((أَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللّٰهِ الْمُحَرَّمُ، وَأَفْضَلُ الصَّلٰوةِ بَعْدَ الْفَرِیضَةِ صَلٰوةُ اللَّیْل))( صحیح مسلم، الصیام، باب فضل صوم المحرم : 1163۔)
’’رمضان المبارک کے بعد افضل ترین روزے اللہ تعالیٰ کے مہینے محرم الحرام کے ہیں اور فرض نمازوں کے بعد افضل ترین نماز رات کی نماز (تہجد) ہے۔‘‘
ایک دفعہ دوران سفر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
((اَلَا أَدُلُّکَ عَلٰی اَبْوَابِ الْخَیْرِ؟))
’’کیا میں تمہاری خیر کے دروازوں کی طرف رہنمائی نہ کروں ؟‘‘
پھر آپ نے ارشاد فرمایا:
((اَلصَّومُ جُنَّةٌ، وَالصَّدَقَةُ تُطْفِیئُ الْخَطِیْئَةَ کَمَا یُطْفِیئٌ الْمَآئُ النَّارَ، وَصَلَاۃُ الرَّجُلِ مِنْ جَوْفِ اللَّیْلِ))( سنن ترمذي، الایمان، باب ما جاء فی حرمة الصلاة : 2616، سنن ابن ماجة ، الفتن، باب کف اللسان فی الفتنة : 3973، امام ترمذی نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے۔)
’’روزہ (گناہوں سے بچاؤ کے لیے) ڈھال ہے اور صدقہ گناہوں کو اس طرح مٹا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھاتا ہے اور آدمی کا رات کے دوران میں نماز (تہجد) پڑھنا۔‘‘
نماز تہجد، قیام اللیل کا اہتمام کرنے والے میاں بیوی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی، سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحمت فرمائے جو رات کو اٹھا پھر نماز تہجد پڑھی اور اپنی بیوی کو بھی نماز کے لیے جگایا، اگر عورت نہ جاگی تو خاوند نے اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور اس عورت پر بھی اللہ رحمت فرمائے جو رات کو اٹھی، پھر نماز تہجد پڑھی اور اپنے خاوند کو نماز کے لیے جگایا، اگر خاوند، غلبہ نیند کی وجہ سے نہ جاگا تو بیوی نے اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔‘‘( سنن ابي داؤد، التطوع، باب قیام اللیل : 1308، سنن نسائي، قیام اللیل، باب الترغیب فی قیام اللیل : 1611، صحیح ابن خزیمة : 1148، صحیح ابن حبان : 646۔)
(2) قیام اللیل کا وقت:
نماز تہجد، قیام اللیل کا وقت نماز عشا کے بعد سے لے کر فجر کی اذان تک ہے۔ اس دوران رات کے کسی بھی حصہ میں نماز تہجد پڑھی جا سکتی ہے۔ تہجد کے لیے عشاء کے بعد سونا ضروری نہیں ۔
سیدناجابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ خَافَ أَنْ لَّا یَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ فَلْیُوتِرْ اَوَّلَهٗ، وَمَنْ طَمِعَ أَنْ یَقُومَ آخِرَهٗ فَلْیُوتِرْ آخِرَ اللَّیْلِ، فَإِنَّ صَلٰوةَ آخِرِ اللَّیْلِ مَشْهُودَةٌ وَذٰلِکَ أَفْضَلُ))( صحیح مسلم، صلاة المسافرین، باب من خاف أن لا یقوم … الخ : 1767۔)
’’جسے خدشہ ہو کہ رات کے آخر حصے میں نہیں جا گ سکے گا اسے رات کے پہلے حصے میں نماز وتر پڑھ لینی چاہیے اور جسے آخری حصے میں جاگ آنے کی امید ہو وہ آخری حصے میں نماز وتر ادا کرے۔ یقینا آخر رات کی نمازمیں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ سب سے افضل (نماز) ہے۔‘‘
(3) قیام اللیل کی کیفیت:
اکثر اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گیارہ رکعات قیام اللیل کا معمول رہا۔ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء سے فارغ ہونے کے بعد فجر تک گیارہ رکعات نمازپڑھتے تھے۔ ہر دو رکعات کے بعد سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر ادا کرتے تھے۔( صحیح مسلم، صلاة المسافرین، باب صلاة اللیل : 736۔)
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
((کَانَتْ صَلٰوۃُ رَسُولِ اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم مِنَ اللَّیْلِ عَشَرَ رَکَعَاتٍ، وَیُوتِرُ بِسَجْدَۃٍ، وَیَرْکَعُ رَکْعَتَیْ الْفَجْرِ فَتْلِکَ ثَلَاثَ عَشْرَۃَ رَکْعَة))( صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین وقصرها،باب صلاۃ اللیل : 738۔)
’’کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو دس رکعات پڑھتے اور ان کے بعد ایک وتر پڑھتے اور اس کے بعد فجر کی دو سنتیں ادا فرماتے تھے اور یہ سب ملا کر کل تیرہ رکعتیں ہوئیں ۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز دو دو رکعات ہوتی تھی اور آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی یہی تعلیم دی ہے۔
(4) وتروں کی تعداد:
وترکی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے جسے آپ نے کبھی بھی ترک نہیں کیا، لہٰذا اسے بلاعذر ترک کرنا درست نہیں ، ایک، تین، پانچ،سات، نو وتر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ۔ان میں سے کسی کو بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ بعض الناس کا یہ کہنا کہ تین رکعت سے کم یا زیادہ وتر پڑھنا درست نہیں ، بلا دلیل ہے۔
(5) ایک رکعت وتر:
وتر کی ایک رکعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً، فعلا ثابت ہے۔ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر عمل رہا۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَلْوِتْرُ رَکْعَةٌ مِّنْ آخِرِ اللَّیْلِ))( صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین وقصرها، باب صلاۃ اللیل مثنیٰ مثنیٰ … الخ : 752۔)
’’وتر رات کے آخر میں ایک رکعت ہے۔‘‘
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت وتر ادا کرتے تھے۔( صحیح مسلم، صلاة المسافرین وقصرها، باب صلاۃ اللیل : 736۔)
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے کہا گیا کہ امیر المؤمنین سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے صرف ایک رکعت نماز وتر پڑھی ہے تو انہوں نے کہا:
((اِنَّهٗ فِقِیْهٌ))( صحیح بخاري، فضائل اصحاب النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ، باب ذکر معاویة رضي اللّٰه عنه : 3765۔)
’’وہ (معاویہ رضی اللہ عنہ ) فقیہ انسان ہیں ۔‘‘
تخریج :
صحیح بخاري، الصلاة، باب الحلق والجلوس فی المسجد، رقم الحدیث : 472، صحیح مسلم، المساجد و مواضع الصلاة، باب صلاة اللیل مثنیٰ مثنیٰ والوتر رکعة من اٰخر اللیل، رقم الحدیث : 749، نافع عن ابن عمر۔
(1) قیام اللیل کی ترغیب:
شریعت میں نماز کی بہت زیادہ ترغیب دلائی گئی ہے۔ فرض نماز کے بعد افضل ترین نماز قیام اللیل، نمازِ تہجد ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((أَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللّٰهِ الْمُحَرَّمُ، وَأَفْضَلُ الصَّلٰوةِ بَعْدَ الْفَرِیضَةِ صَلٰوةُ اللَّیْل))( صحیح مسلم، الصیام، باب فضل صوم المحرم : 1163۔)
’’رمضان المبارک کے بعد افضل ترین روزے اللہ تعالیٰ کے مہینے محرم الحرام کے ہیں اور فرض نمازوں کے بعد افضل ترین نماز رات کی نماز (تہجد) ہے۔‘‘
ایک دفعہ دوران سفر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
((اَلَا أَدُلُّکَ عَلٰی اَبْوَابِ الْخَیْرِ؟))
’’کیا میں تمہاری خیر کے دروازوں کی طرف رہنمائی نہ کروں ؟‘‘
پھر آپ نے ارشاد فرمایا:
((اَلصَّومُ جُنَّةٌ، وَالصَّدَقَةُ تُطْفِیئُ الْخَطِیْئَةَ کَمَا یُطْفِیئٌ الْمَآئُ النَّارَ، وَصَلَاۃُ الرَّجُلِ مِنْ جَوْفِ اللَّیْلِ))( سنن ترمذي، الایمان، باب ما جاء فی حرمة الصلاة : 2616، سنن ابن ماجة ، الفتن، باب کف اللسان فی الفتنة : 3973، امام ترمذی نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے۔)
’’روزہ (گناہوں سے بچاؤ کے لیے) ڈھال ہے اور صدقہ گناہوں کو اس طرح مٹا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھاتا ہے اور آدمی کا رات کے دوران میں نماز (تہجد) پڑھنا۔‘‘
نماز تہجد، قیام اللیل کا اہتمام کرنے والے میاں بیوی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی، سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحمت فرمائے جو رات کو اٹھا پھر نماز تہجد پڑھی اور اپنی بیوی کو بھی نماز کے لیے جگایا، اگر عورت نہ جاگی تو خاوند نے اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور اس عورت پر بھی اللہ رحمت فرمائے جو رات کو اٹھی، پھر نماز تہجد پڑھی اور اپنے خاوند کو نماز کے لیے جگایا، اگر خاوند، غلبہ نیند کی وجہ سے نہ جاگا تو بیوی نے اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔‘‘( سنن ابي داؤد، التطوع، باب قیام اللیل : 1308، سنن نسائي، قیام اللیل، باب الترغیب فی قیام اللیل : 1611، صحیح ابن خزیمة : 1148، صحیح ابن حبان : 646۔)
(2) قیام اللیل کا وقت:
نماز تہجد، قیام اللیل کا وقت نماز عشا کے بعد سے لے کر فجر کی اذان تک ہے۔ اس دوران رات کے کسی بھی حصہ میں نماز تہجد پڑھی جا سکتی ہے۔ تہجد کے لیے عشاء کے بعد سونا ضروری نہیں ۔
سیدناجابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ خَافَ أَنْ لَّا یَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ فَلْیُوتِرْ اَوَّلَهٗ، وَمَنْ طَمِعَ أَنْ یَقُومَ آخِرَهٗ فَلْیُوتِرْ آخِرَ اللَّیْلِ، فَإِنَّ صَلٰوةَ آخِرِ اللَّیْلِ مَشْهُودَةٌ وَذٰلِکَ أَفْضَلُ))( صحیح مسلم، صلاة المسافرین، باب من خاف أن لا یقوم … الخ : 1767۔)
’’جسے خدشہ ہو کہ رات کے آخر حصے میں نہیں جا گ سکے گا اسے رات کے پہلے حصے میں نماز وتر پڑھ لینی چاہیے اور جسے آخری حصے میں جاگ آنے کی امید ہو وہ آخری حصے میں نماز وتر ادا کرے۔ یقینا آخر رات کی نمازمیں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ سب سے افضل (نماز) ہے۔‘‘
(3) قیام اللیل کی کیفیت:
اکثر اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گیارہ رکعات قیام اللیل کا معمول رہا۔ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء سے فارغ ہونے کے بعد فجر تک گیارہ رکعات نمازپڑھتے تھے۔ ہر دو رکعات کے بعد سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر ادا کرتے تھے۔( صحیح مسلم، صلاة المسافرین، باب صلاة اللیل : 736۔)
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
((کَانَتْ صَلٰوۃُ رَسُولِ اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم مِنَ اللَّیْلِ عَشَرَ رَکَعَاتٍ، وَیُوتِرُ بِسَجْدَۃٍ، وَیَرْکَعُ رَکْعَتَیْ الْفَجْرِ فَتْلِکَ ثَلَاثَ عَشْرَۃَ رَکْعَة))( صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین وقصرها،باب صلاۃ اللیل : 738۔)
’’کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو دس رکعات پڑھتے اور ان کے بعد ایک وتر پڑھتے اور اس کے بعد فجر کی دو سنتیں ادا فرماتے تھے اور یہ سب ملا کر کل تیرہ رکعتیں ہوئیں ۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز دو دو رکعات ہوتی تھی اور آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی یہی تعلیم دی ہے۔
(4) وتروں کی تعداد:
وترکی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے جسے آپ نے کبھی بھی ترک نہیں کیا، لہٰذا اسے بلاعذر ترک کرنا درست نہیں ، ایک، تین، پانچ،سات، نو وتر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ۔ان میں سے کسی کو بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ بعض الناس کا یہ کہنا کہ تین رکعت سے کم یا زیادہ وتر پڑھنا درست نہیں ، بلا دلیل ہے۔
(5) ایک رکعت وتر:
وتر کی ایک رکعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً، فعلا ثابت ہے۔ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر عمل رہا۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَلْوِتْرُ رَکْعَةٌ مِّنْ آخِرِ اللَّیْلِ))( صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین وقصرها، باب صلاۃ اللیل مثنیٰ مثنیٰ … الخ : 752۔)
’’وتر رات کے آخر میں ایک رکعت ہے۔‘‘
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت وتر ادا کرتے تھے۔( صحیح مسلم، صلاة المسافرین وقصرها، باب صلاۃ اللیل : 736۔)
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے کہا گیا کہ امیر المؤمنین سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے صرف ایک رکعت نماز وتر پڑھی ہے تو انہوں نے کہا:
((اِنَّهٗ فِقِیْهٌ))( صحیح بخاري، فضائل اصحاب النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ، باب ذکر معاویة رضي اللّٰه عنه : 3765۔)
’’وہ (معاویہ رضی اللہ عنہ ) فقیہ انسان ہیں ۔‘‘