مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 48

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَطْرَافِ الْمَدِينَةِ أَنْ نَقْتُلَ الْكِلَابَ، فَلَقَدْ رَأَيْتُنَا نَقْتُلُ الْكَلْبَ لِلْمُرَيَّةِ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 48

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے اطراف میں کتوں کو مارنے کا حکم دیا۔ ہم نے خود کو دیکھا کہ ہم دیہات سے آنے والی عورت کے کتے کو بھی قتل کر دیتے تھے۔
تشریح : (1) کتا پالنا: انسان کو اللہ رب العزت نے احسن انداز سے تخلیق فرمایا، پھر انسانی فائدے کی اشیاء کو اس کے لیے حلال اور جائز قرار دیا اور نقصان دہ چیزوں کو حرام ٹھہرایا۔ جانور بھی اللہ رب العزت کی تخلیق کا شاہکار ہیں ۔ جانوروں میں سے بعض انسان دوست، انسان کے لیے مفید اور بعض نقصان دہ اور موذی ہیں جو جانور موذی اور نقصان دہ ہیں ان کو حرام ٹھہرایا گیا اور جب ان کی اذیت وتکلیف حد بڑھ جائے تو انہیں قتل کرنے کا حکم صادر ہوا۔ کتا ان جانوروں میں سے ہے جن میں انسان کے لیے فوائد موجود ہیں ، اگر کتا حصول فوائد مثلاً شکار، جانوروں کی حفاظت، کھیتی کی رکھوالی وغیرہ کے لیے رکھا جائے تو شرعاً جائز ہے جبکہ بلامقصد محض شوق کے لیے کتے پالنا ممنوع ہے اور ایسا کرنے والے کے اجر و ثواب میں روزانہ کمی واقع ہوتی ہے۔ سیدنا عبدللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَوْلَا أَنَّ الْکِلَابَ أُمَّةٌ مِنَ الْأُٔمَمِ لَأَمَرْتُ بِقَتْلِهَا فَاقْتُلُوا مِنْهَا الْأَسْوَدَ الْبَهِیمَ وَمَا مِنْ قَوْمٍ اِتَّخَذُوْا کَلْبًا اِلَّا کَلْبَا مَاشِیَةٍ أَوْ کَلْبَ صَیْدٍ اَوْ کَلْبَ حَرْثِ اِلَّا نَقَصَ مِنْ اُجُوْرِهِمْ کُلَّ یَوْمٍ قِیْرَاطَانِ)) (سنن ابن ماجة ، الصید، باب النهي عن اقتنار الکلب … الخ : 3205، سنن ابي داؤد، الصید، باب اتخاذ الکلب للصید وغیره : 2745 ، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) ’’اگر کتے امتوں میں سے ایک امت (اللہ کی مخلوق) نہ ہوتے تو میں انہیں قتل (سب کو ختم) کرنے کا حکم دیتا البتہ تم سیاہ کتے کو قتل کر دیا کرو اور جولوگ مویشیوں ، شکار یا کھیتی کے کتے کے علاوہ کوئی کتا رکھتے ہیں ان کے ثواب میں سے روزانہ دو قیراط کم ہوجاتے ہیں ۔‘‘ (2) کتوں کو قتل کرنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہر قسم کے کتوں کو مارنے کا حکم ارشاد فرمایا پھر کالے سیاہ کتے کے علاوہ باقی کتوں کو مارنے سے روک دیا۔لہٰذا جو کتا نقصان دہ نہ ہو اس کو بلاوجہ نہیں مارنا چاہیے۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کتوں کو مارنے کا حکم دیا حتی کہ کوئی عورت مدینہ کے اردگرد کی آبادیوں سے اپنے کتے کے ساتھ آتی تو ہم اس کو بھی مار ڈالتے تھے۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان کو مارنے سے منع کر دیا اور فرمایا: ’’تم (آنکھوں کے اوپر) دو نقطوں والے سیاہ کتے کو نہ چھوڑو بلاشبہ وہ شیطان ہے۔‘‘( صحیح مسلم، المساقاة، باب الامر بقتل الکلاب وبیان … الخ : 1572۔) (3) کتوں کی خرید و فروخت: اگرچہ بعض کتوں کو رکھنا اور پالنا شرعاً جائز ہے تاہم اس کی ہر قسم کی خریدو فروخت ممنوع ہے۔ سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، زانیہ کی اجرت اور کاہن کی شیرینی لینے سے منع فرمایا۔( صحیح بخاري،البیوع، باب ثمن الکلب : 2237، صحیح مسلم، المساقاة، باب تحریم ثمن الکلب و حلوان … الخ : 1567۔) سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: ((نَهَی رَسُولُ اللهِ صلي اللّٰه عليه وسلم عَنْ ثَمَنِ الْکَلْبِ وَإِنْ جَائَ یَطْلُبُ ثَمَنَ الْکَلْبِ فَامْلَأْ کَفَّهُ تُرَابًا))( سنن ابي داؤد، الاجارة، باب في اثمان الکلب : 3482، محدث البانی نے اسے ’’صحیح الإسناد‘‘ کہا ہے۔) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت سے منع فرمایا ہے اور اگر کوئی کتے کی قیمت مانگنے آئے تو اس کی مٹھی میں مٹی بھر دو۔‘‘
تخریج : صحیح مسلم، المساقاة، باب الأمر بقتل الکلاب ویبان نسخه … الخ، رقم الحدیث : 1570۔ (1) کتا پالنا: انسان کو اللہ رب العزت نے احسن انداز سے تخلیق فرمایا، پھر انسانی فائدے کی اشیاء کو اس کے لیے حلال اور جائز قرار دیا اور نقصان دہ چیزوں کو حرام ٹھہرایا۔ جانور بھی اللہ رب العزت کی تخلیق کا شاہکار ہیں ۔ جانوروں میں سے بعض انسان دوست، انسان کے لیے مفید اور بعض نقصان دہ اور موذی ہیں جو جانور موذی اور نقصان دہ ہیں ان کو حرام ٹھہرایا گیا اور جب ان کی اذیت وتکلیف حد بڑھ جائے تو انہیں قتل کرنے کا حکم صادر ہوا۔ کتا ان جانوروں میں سے ہے جن میں انسان کے لیے فوائد موجود ہیں ، اگر کتا حصول فوائد مثلاً شکار، جانوروں کی حفاظت، کھیتی کی رکھوالی وغیرہ کے لیے رکھا جائے تو شرعاً جائز ہے جبکہ بلامقصد محض شوق کے لیے کتے پالنا ممنوع ہے اور ایسا کرنے والے کے اجر و ثواب میں روزانہ کمی واقع ہوتی ہے۔ سیدنا عبدللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَوْلَا أَنَّ الْکِلَابَ أُمَّةٌ مِنَ الْأُٔمَمِ لَأَمَرْتُ بِقَتْلِهَا فَاقْتُلُوا مِنْهَا الْأَسْوَدَ الْبَهِیمَ وَمَا مِنْ قَوْمٍ اِتَّخَذُوْا کَلْبًا اِلَّا کَلْبَا مَاشِیَةٍ أَوْ کَلْبَ صَیْدٍ اَوْ کَلْبَ حَرْثِ اِلَّا نَقَصَ مِنْ اُجُوْرِهِمْ کُلَّ یَوْمٍ قِیْرَاطَانِ)) (سنن ابن ماجة ، الصید، باب النهي عن اقتنار الکلب … الخ : 3205، سنن ابي داؤد، الصید، باب اتخاذ الکلب للصید وغیره : 2745 ، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) ’’اگر کتے امتوں میں سے ایک امت (اللہ کی مخلوق) نہ ہوتے تو میں انہیں قتل (سب کو ختم) کرنے کا حکم دیتا البتہ تم سیاہ کتے کو قتل کر دیا کرو اور جولوگ مویشیوں ، شکار یا کھیتی کے کتے کے علاوہ کوئی کتا رکھتے ہیں ان کے ثواب میں سے روزانہ دو قیراط کم ہوجاتے ہیں ۔‘‘ (2) کتوں کو قتل کرنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہر قسم کے کتوں کو مارنے کا حکم ارشاد فرمایا پھر کالے سیاہ کتے کے علاوہ باقی کتوں کو مارنے سے روک دیا۔لہٰذا جو کتا نقصان دہ نہ ہو اس کو بلاوجہ نہیں مارنا چاہیے۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کتوں کو مارنے کا حکم دیا حتی کہ کوئی عورت مدینہ کے اردگرد کی آبادیوں سے اپنے کتے کے ساتھ آتی تو ہم اس کو بھی مار ڈالتے تھے۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان کو مارنے سے منع کر دیا اور فرمایا: ’’تم (آنکھوں کے اوپر) دو نقطوں والے سیاہ کتے کو نہ چھوڑو بلاشبہ وہ شیطان ہے۔‘‘( صحیح مسلم، المساقاة، باب الامر بقتل الکلاب وبیان … الخ : 1572۔) (3) کتوں کی خرید و فروخت: اگرچہ بعض کتوں کو رکھنا اور پالنا شرعاً جائز ہے تاہم اس کی ہر قسم کی خریدو فروخت ممنوع ہے۔ سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، زانیہ کی اجرت اور کاہن کی شیرینی لینے سے منع فرمایا۔( صحیح بخاري،البیوع، باب ثمن الکلب : 2237، صحیح مسلم، المساقاة، باب تحریم ثمن الکلب و حلوان … الخ : 1567۔) سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: ((نَهَی رَسُولُ اللهِ صلي اللّٰه عليه وسلم عَنْ ثَمَنِ الْکَلْبِ وَإِنْ جَائَ یَطْلُبُ ثَمَنَ الْکَلْبِ فَامْلَأْ کَفَّهُ تُرَابًا))( سنن ابي داؤد، الاجارة، باب في اثمان الکلب : 3482، محدث البانی نے اسے ’’صحیح الإسناد‘‘ کہا ہے۔) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت سے منع فرمایا ہے اور اگر کوئی کتے کی قیمت مانگنے آئے تو اس کی مٹھی میں مٹی بھر دو۔‘‘