مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 46

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ زِيَادٍ سَبَلَانُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّا، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَادِرُوا الصُّبْحَ بِالْوِتْرِ»

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 46

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو۔‘‘
تشریح : (1) نماز وتر کا حکم: وتر کی نماز فرض یا واجب نہیں تاہم اس کی ادائیگی کی شریعت اسلامیہ نے بہت زیادہ تاکید فرمائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر و حضرمیں وتر کی پابندی فرماتے تھے۔ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((الْوِتْرُ حَقٌّ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یُوتِرَ بِخَمْسٍ فَلْیَفْعَلْ وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یُوتِرَ بِثَلَاثٍ فَلْیَفْعَلْ وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یُوتِرَ بِوَاحِدَةٍ فَلْیَفْعَلْ))( سنن ابي داؤد، الصلاة، باب کم الوتر : 1422، سنن ابن ماجة ، الصلاة، باب ما جاء في الوتر … الخ : 1190، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) ’’وتر اداکرنا ہر مسلمان پر لازم ہے جو پانچ وتر پڑھنا پسندکرتا ہے وہ پانچ پڑھ لے جو تین وتر پڑھنا پسندکرتا ہے وہ تین پڑھ لے اور جو ایک وتر پڑھنا پسند کرتا ہے وہ ایک پڑھ لے۔‘‘ سیدناعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ((الْوِتْرُ لَیْسَ بِحَتْمٍ کَصَلَاتِکُمْ الْمَکْتُوبَةِ وَلَکِنْ سَنَّ رَسُولُ اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم ۔))( سنن نسائي، قیام اللیل باب الامر بالوتر : 1677، سنن ترمذي، الوتر،باب ما جاء ان الوتر لیس بحتم : 454، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) ’’وتر فرض نماز کی طرح لازم و ضروری نہیں بلکہ یہ سنت ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیا۔‘‘ (2) نماز وتر کا وقت: وتر کا وقت نماز عشا کے بعد سے لے کر طلوع فجر تک ساری رات ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے سبھی اوقات میں نماز وتر ادا کی، رات کی آخری گھڑیوں میں وتر پڑھنا افضل و بہتر ہے لیکن جسے اندیشہ ہو کہ پچھلی رات نہیں اٹھ سکے گا۔ تو اس کے لیے مستحب یہ ہے کہ اول رات میں وتر پڑھ کر سو جائے۔ سیدنا خارجہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((الْوِتْرُ جَعَلَهُ اللهُ لَکُمْ فِیمَا بَیْنَ صَلَاةِ الْعِشَائِ إِلَی أَنْ یَطْلُعَ الْفَجْرُ))( سنن ترمذي،الوتر، باب ماجاء في فضل الوتر : 452، سنن ابن ماجة ، الصلاة، باب ما جاء في الوتر : 1168، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) ’’اللہ نے تمہارے لیے نماز وتر کا وقت نماز عشاء سے طلوع فجر تک مقرر کیاہے۔‘‘ تہجد پڑھنے والے کو چاہیے، نما ز وتر سب سے آخر میں ادا کرے، اگر کسی مجبوری، سوئے رہنے وغیرہ کی وجہ سے طلوع فجر سے قبل وتر نہ پڑھے جا سکیں تو نماز فجر سے پہلے اور بعد میں بھی پڑھے جا سکتے ہیں ۔ محمد بن المنتشر بیان کرتے ہیں کہ وہ عمرو بن شرحبیل کی مسجد میں تھے۔ اتنے میں اقامت ہوگئی اور لوگ ان کا انتظار کرنے لگے وہ آئے اور کہا میں وتر پڑھ رہا تھا اور کہا: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: کیا اذان کے بعد وتر ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: ہاں ، اوراقامت کے بعد بھی ہے اورا نہوں نے بیان کیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے سوئے رہ گئے حتی کہ سورج نکل آیا، پھر آپ نے (بیدار ہوکر) نماز پڑھی۔‘‘( سنن نسائي، قیام اللیل، باب الوتر بعد الاذان : 1685، محدث البانی نے اسے ’’صحیح الإسناد‘‘ کہا ہے۔)
تخریج : صحیح مسلم، صلاة المسافرین، باب صلاة اللیل مثنیٰ مثنیٰ والوتر رکعة من آخر اللیل، رقم الحدیث : 750۔ (1) نماز وتر کا حکم: وتر کی نماز فرض یا واجب نہیں تاہم اس کی ادائیگی کی شریعت اسلامیہ نے بہت زیادہ تاکید فرمائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر و حضرمیں وتر کی پابندی فرماتے تھے۔ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((الْوِتْرُ حَقٌّ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یُوتِرَ بِخَمْسٍ فَلْیَفْعَلْ وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یُوتِرَ بِثَلَاثٍ فَلْیَفْعَلْ وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یُوتِرَ بِوَاحِدَةٍ فَلْیَفْعَلْ))( سنن ابي داؤد، الصلاة، باب کم الوتر : 1422، سنن ابن ماجة ، الصلاة، باب ما جاء في الوتر … الخ : 1190، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) ’’وتر اداکرنا ہر مسلمان پر لازم ہے جو پانچ وتر پڑھنا پسندکرتا ہے وہ پانچ پڑھ لے جو تین وتر پڑھنا پسندکرتا ہے وہ تین پڑھ لے اور جو ایک وتر پڑھنا پسند کرتا ہے وہ ایک پڑھ لے۔‘‘ سیدناعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ((الْوِتْرُ لَیْسَ بِحَتْمٍ کَصَلَاتِکُمْ الْمَکْتُوبَةِ وَلَکِنْ سَنَّ رَسُولُ اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم ۔))( سنن نسائي، قیام اللیل باب الامر بالوتر : 1677، سنن ترمذي، الوتر،باب ما جاء ان الوتر لیس بحتم : 454، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) ’’وتر فرض نماز کی طرح لازم و ضروری نہیں بلکہ یہ سنت ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیا۔‘‘ (2) نماز وتر کا وقت: وتر کا وقت نماز عشا کے بعد سے لے کر طلوع فجر تک ساری رات ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے سبھی اوقات میں نماز وتر ادا کی، رات کی آخری گھڑیوں میں وتر پڑھنا افضل و بہتر ہے لیکن جسے اندیشہ ہو کہ پچھلی رات نہیں اٹھ سکے گا۔ تو اس کے لیے مستحب یہ ہے کہ اول رات میں وتر پڑھ کر سو جائے۔ سیدنا خارجہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((الْوِتْرُ جَعَلَهُ اللهُ لَکُمْ فِیمَا بَیْنَ صَلَاةِ الْعِشَائِ إِلَی أَنْ یَطْلُعَ الْفَجْرُ))( سنن ترمذي،الوتر، باب ماجاء في فضل الوتر : 452، سنن ابن ماجة ، الصلاة، باب ما جاء في الوتر : 1168، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) ’’اللہ نے تمہارے لیے نماز وتر کا وقت نماز عشاء سے طلوع فجر تک مقرر کیاہے۔‘‘ تہجد پڑھنے والے کو چاہیے، نما ز وتر سب سے آخر میں ادا کرے، اگر کسی مجبوری، سوئے رہنے وغیرہ کی وجہ سے طلوع فجر سے قبل وتر نہ پڑھے جا سکیں تو نماز فجر سے پہلے اور بعد میں بھی پڑھے جا سکتے ہیں ۔ محمد بن المنتشر بیان کرتے ہیں کہ وہ عمرو بن شرحبیل کی مسجد میں تھے۔ اتنے میں اقامت ہوگئی اور لوگ ان کا انتظار کرنے لگے وہ آئے اور کہا میں وتر پڑھ رہا تھا اور کہا: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: کیا اذان کے بعد وتر ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: ہاں ، اوراقامت کے بعد بھی ہے اورا نہوں نے بیان کیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے سوئے رہ گئے حتی کہ سورج نکل آیا، پھر آپ نے (بیدار ہوکر) نماز پڑھی۔‘‘( سنن نسائي، قیام اللیل، باب الوتر بعد الاذان : 1685، محدث البانی نے اسے ’’صحیح الإسناد‘‘ کہا ہے۔)