مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 44

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ شُقَيْرٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَعْيَنَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الرَّجُلَ لَيَكُونُ مِنْ أَهْلِ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ وَالصِّيَامِ وَالْجِهَادِ، حَتَّى ذَكَرَ سِهَامَ الْخَيْرِ، وَمَا يُجْزَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا بِقَدْرِ عَقْلِهِ»

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 44

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک آدمی نمازی، زکاۃ دینے والا، حج اور عمرہ کرنے والا، روزے رکھنے والا اور جہاد کرنے والا ہوتا ہے حتی کہ بہت سے امورخیر کا ذکر کیا اور وہ قیامت کے دن اجر و ثواب اپنی نیت کے مطابق حاصل کرتا ہے۔‘‘
تشریح : (1) باری تعالیٰ کی عدالت میں حاضری: دنیا دارالعمل ہے اور اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بامقصد زندگی گزارنے کی تاکید کی۔ اس دنیا میں کئے گئے تمام اعمال کی عند اللہ جواب طلبی ہوگی، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَوَرَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ‎﴿٩٢﴾‏ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ (الحجر : 92، 93) ’’پس تیرے رب کی قسم! ہم ان سے ضرور بالضرور پوچھیں گے، اس سے متعلق جو وہ کرتے رہے۔‘‘ یہ جواب طلبی ہر نیک و بد سے ہوگی۔ دنیا میں کیے اعمال و افعال سے متعلق پوچھا جائے گا۔ اللہ رب العزت ہم سب کے لیے آسانیاں پیدا فرمائیں ۔ (2) نعمتوں کا حساب: اللہ رب العزت نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نواز رکھا ہے جن کو نہ تو گنا جا سکتاہے اور نہ ہی ان کا شمار ممکن ہے۔ اللہ کی جنتی بھی مخلوقات ہیں وہ انسان کے فائدہ کے لیے ہیں اور انسان سے اپنی بندگی کا مطالبہ کیا ہے۔ انعامات الٰہیہ کا تقاضا ہے بندہ اللہ کا شکر گزار بن کر زندگی گزارے، روز قیامت انسان سے اللہ کی نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ ﴾ (التکاثر : 8) ’’پھر ضرور تم نعمتوں کے بارے میں پوچھے جاؤ گے۔‘‘ جس انسان نے اللہ کی نعمتوں کو بروئے کار لاکر معرفت الٰہی حاصل کی وہ سرخرو ہو جائے گا اور جس نے عقل و فکر،سمع و بصر سے اپنے خالق و مالک کو نہ پہچانا وہ ناکام و نامراد رہے گا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یُؤْتَي بِالْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فَیَقُولُ اللّٰهُ لَهُ أَلَمْ أَجْعَلْ لَكَ سَمْعًا وَبَصَرًا وَمَالًا وَوَلَدًا وَسَخَّرْتُ لَكَ الْأَنْعَامَ وَالْحَرْثَ وَتَرَکْتُكَ تَرْأَسُ وَتَرْبَعُ فَکُنْتَ تَظُنُّ أَنَّكَ مُلَاقِي یَوْمَكَ هَذَا قَالَ: فَیَقُولُ، لَا: فَیَقُولُ لَهُ: الْیَوْمَ أَنْسَاكَ کَمَا نَسِیتَنِي))( سنن ترمذي، صفة القیامة، باب سوال الرب عبده عما… الخ : 2428، امام ترمذی نے اس ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) ’’روز قیامت آدمی کو لایا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے: کیا میں نے تجھے کان، آنکھیں ، مال اوراولاد نہیں دی تھیں ۔ تیرے لیے مویشی اور کھیت مسخر نہیں کیے تھے اور تجھے قوم کا سردار بنایا تھا اور تو ان سے خدمت لیتا تھا، کیا تجھے آج (قیامت) کے دن کی ملاقات کا یقین تھا؟ وہ کہے گا: نہیں تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: آج ہم تجھے اسی طرح بھلا دیتے ہیں جس طرح تو نے ہمیں بھلا دیا تھا۔‘‘ مال و دولت، اولاد، بیوی، گھر بار، عہدہ ومنصب،ناک، کان، آنکھ، دماغ، صحت، جوانی وغیرہ سبھی اللہ کی عطا کردہ نعمتیں ہمارے پاس امانت ہیں ۔ ان کا صحیح استعمال لازم ہے اور ایک سمجھدار آدمی ان سے متعلق جواب طلبی کی فکر میں رہتا ہے اور اس سے اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی روشنی میں مستفید ہوتا ہے۔ اس لیے شارع نے اس انسان کو عقلمند قرار دیا جو آخرت کی فکر میں زندگی گزارتا ہے۔
تخریج : المعجم الاوسط للطبراني : 3/251، رقم الحدیث : 3057، شعب الایمان للبیهقي : 6/351، رقم الحدیث : 4316، مجمع الزوائد : 8/28، رقم الحدیث : 12719، السلسلة الضعیفة : 12/101، رقم الحدیث : 5557، اس کی سند منصور بن صقیر الجزری ہے، اسی وجہ سے ہیثمی اور محدث البانی نے اسے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔ (1) باری تعالیٰ کی عدالت میں حاضری: دنیا دارالعمل ہے اور اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بامقصد زندگی گزارنے کی تاکید کی۔ اس دنیا میں کئے گئے تمام اعمال کی عند اللہ جواب طلبی ہوگی، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَوَرَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ‎﴿٩٢﴾‏ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ (الحجر : 92، 93) ’’پس تیرے رب کی قسم! ہم ان سے ضرور بالضرور پوچھیں گے، اس سے متعلق جو وہ کرتے رہے۔‘‘ یہ جواب طلبی ہر نیک و بد سے ہوگی۔ دنیا میں کیے اعمال و افعال سے متعلق پوچھا جائے گا۔ اللہ رب العزت ہم سب کے لیے آسانیاں پیدا فرمائیں ۔ (2) نعمتوں کا حساب: اللہ رب العزت نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نواز رکھا ہے جن کو نہ تو گنا جا سکتاہے اور نہ ہی ان کا شمار ممکن ہے۔ اللہ کی جنتی بھی مخلوقات ہیں وہ انسان کے فائدہ کے لیے ہیں اور انسان سے اپنی بندگی کا مطالبہ کیا ہے۔ انعامات الٰہیہ کا تقاضا ہے بندہ اللہ کا شکر گزار بن کر زندگی گزارے، روز قیامت انسان سے اللہ کی نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ ﴾ (التکاثر : 8) ’’پھر ضرور تم نعمتوں کے بارے میں پوچھے جاؤ گے۔‘‘ جس انسان نے اللہ کی نعمتوں کو بروئے کار لاکر معرفت الٰہی حاصل کی وہ سرخرو ہو جائے گا اور جس نے عقل و فکر،سمع و بصر سے اپنے خالق و مالک کو نہ پہچانا وہ ناکام و نامراد رہے گا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یُؤْتَي بِالْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فَیَقُولُ اللّٰهُ لَهُ أَلَمْ أَجْعَلْ لَكَ سَمْعًا وَبَصَرًا وَمَالًا وَوَلَدًا وَسَخَّرْتُ لَكَ الْأَنْعَامَ وَالْحَرْثَ وَتَرَکْتُكَ تَرْأَسُ وَتَرْبَعُ فَکُنْتَ تَظُنُّ أَنَّكَ مُلَاقِي یَوْمَكَ هَذَا قَالَ: فَیَقُولُ، لَا: فَیَقُولُ لَهُ: الْیَوْمَ أَنْسَاكَ کَمَا نَسِیتَنِي))( سنن ترمذي، صفة القیامة، باب سوال الرب عبده عما… الخ : 2428، امام ترمذی نے اس ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) ’’روز قیامت آدمی کو لایا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے: کیا میں نے تجھے کان، آنکھیں ، مال اوراولاد نہیں دی تھیں ۔ تیرے لیے مویشی اور کھیت مسخر نہیں کیے تھے اور تجھے قوم کا سردار بنایا تھا اور تو ان سے خدمت لیتا تھا، کیا تجھے آج (قیامت) کے دن کی ملاقات کا یقین تھا؟ وہ کہے گا: نہیں تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: آج ہم تجھے اسی طرح بھلا دیتے ہیں جس طرح تو نے ہمیں بھلا دیا تھا۔‘‘ مال و دولت، اولاد، بیوی، گھر بار، عہدہ ومنصب،ناک، کان، آنکھ، دماغ، صحت، جوانی وغیرہ سبھی اللہ کی عطا کردہ نعمتیں ہمارے پاس امانت ہیں ۔ ان کا صحیح استعمال لازم ہے اور ایک سمجھدار آدمی ان سے متعلق جواب طلبی کی فکر میں رہتا ہے اور اس سے اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی روشنی میں مستفید ہوتا ہے۔ اس لیے شارع نے اس انسان کو عقلمند قرار دیا جو آخرت کی فکر میں زندگی گزارتا ہے۔