مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 41

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي جَبِيرَةَ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَقَدْ كَفَرَ بِاللَّهِ»

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 41

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے کسی مؤمن کو جان بوجھ کر قتل کیا یقینا اس نے اللہ کے ساتھ کفر کیا۔‘‘
تشریح : (1) قتل ایک سنگین جرم: انسانی جان کو عند اللہ عزت و حرمت حاصل ہے اور اس کا احترام لازم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ‎﴿٢٩﴾‏ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا﴾ (النساء : 29۔ 30) ’’اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو بے شک اللہ تعالیٰ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے اور جو شخص سرکشی اور ظلم سے ایسے کام کرے تو ہم اسے جلد آگ میں ڈالیں گے اور یہ اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔‘‘ مسلمان کی جان کا تقدس عام لوگوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا﴾ (النساء : 93) ’’اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا جہنم ہے وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہوگی اوراللہ نے اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَوَّلُ مَا یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِی الدِّمَآئِ))( صحیح بخاري، الرقاق، باب القصاص یوم القیامۃ : 6533، صحیح مسلم، القسامۃ والمحاربین، باب المجازاۃ بالدماء فی الأخرۃ… الخ : 1678۔) ’’لوگوں کے درمیان قیامت کے دن سب سے پہلے جس معاملے کا فیصلہ کیاجائے گا وہ خون ہوں گے۔‘‘ (2) کفر سے مراد: جس شخص نے کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھ لیا وہ مسلم ہے اور دائرہ اسلام میں داخل ہے۔ اسے کسی پختہ دلیل کے بغیر کافر قرار نہیں دیاجا سکتا۔ اگر وہ ضروریات دین کا انکار کرے۔ اس میں شرائط کفر پائی جائیں تو وہ کافر ہوگا۔ کفر کی دو بڑی قسمیں ہیں : (1) کفر اکبر ( 2) کفر اصغر کفر اکبرکا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کا انکار کرنے والا، قرآن پر ایمان نہ لانے والا وغیرہ، جبکہ کفر اصغر کے ارتکاب سے مرتکب دائرہ اسلام سے خارج نہ ہوگا۔ مثلاً کاہن و نجومی وغیرہ کے پاس جانا، بیوی کی دبر میں جماع کرنا وغیرہ کفر اصغر کی مثالیں ہیں ۔ مؤمن کو ارادۃً قتل کرنا انتہائی سنگین جرم ہے۔ جس کی شریعت میں شدید ترین وعیدیں سنائی گئیں لیکن اس جرم کے مرتکب کو خارج عن الأسلام نہیں کہا جا سکتا ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔
تخریج : الکامل لابن عدي : 4/155، تفسیر ابن کثیر : 2/334، حافظ ابن کثیر نے کہا کہ یہ حدیث ’’منکر‘‘ ہے اس کی سند میں کلام ہے۔ (1) قتل ایک سنگین جرم: انسانی جان کو عند اللہ عزت و حرمت حاصل ہے اور اس کا احترام لازم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ‎﴿٢٩﴾‏ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا﴾ (النساء : 29۔ 30) ’’اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو بے شک اللہ تعالیٰ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے اور جو شخص سرکشی اور ظلم سے ایسے کام کرے تو ہم اسے جلد آگ میں ڈالیں گے اور یہ اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔‘‘ مسلمان کی جان کا تقدس عام لوگوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا﴾ (النساء : 93) ’’اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا جہنم ہے وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہوگی اوراللہ نے اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَوَّلُ مَا یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِی الدِّمَآئِ))( صحیح بخاري، الرقاق، باب القصاص یوم القیامۃ : 6533، صحیح مسلم، القسامۃ والمحاربین، باب المجازاۃ بالدماء فی الأخرۃ… الخ : 1678۔) ’’لوگوں کے درمیان قیامت کے دن سب سے پہلے جس معاملے کا فیصلہ کیاجائے گا وہ خون ہوں گے۔‘‘ (2) کفر سے مراد: جس شخص نے کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھ لیا وہ مسلم ہے اور دائرہ اسلام میں داخل ہے۔ اسے کسی پختہ دلیل کے بغیر کافر قرار نہیں دیاجا سکتا۔ اگر وہ ضروریات دین کا انکار کرے۔ اس میں شرائط کفر پائی جائیں تو وہ کافر ہوگا۔ کفر کی دو بڑی قسمیں ہیں : (1) کفر اکبر ( 2) کفر اصغر کفر اکبرکا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کا انکار کرنے والا، قرآن پر ایمان نہ لانے والا وغیرہ، جبکہ کفر اصغر کے ارتکاب سے مرتکب دائرہ اسلام سے خارج نہ ہوگا۔ مثلاً کاہن و نجومی وغیرہ کے پاس جانا، بیوی کی دبر میں جماع کرنا وغیرہ کفر اصغر کی مثالیں ہیں ۔ مؤمن کو ارادۃً قتل کرنا انتہائی سنگین جرم ہے۔ جس کی شریعت میں شدید ترین وعیدیں سنائی گئیں لیکن اس جرم کے مرتکب کو خارج عن الأسلام نہیں کہا جا سکتا ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔