كِتَابُ بَابٌ وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا إِلَّا كَلْبَ صَيْدٍ، أَوْ كَلْبَ مَاشِيَةٍ، أَوْ كَلْبَ مَخَافَةٍ، نَقَصَ مِنْ عَمَلِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطَانِ» ، قِيلَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، إِنَّا كُنَّا نَسْمَعُ: «قِيرَاطٌ» ، قَالَ: سَمِعَ أُذُنَايَ وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «قِيرَاطَانِ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِنَافِعٍ فَقَالَ: قَدْ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ: وَلَمْ أَسْمَعْهُ يَقُولُ: «كَلْبَ مَخَافَةٍ»
کتاب
باب
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے کتا پالا شکار کے کتے یا جانوروں کی رکھوالی کے یا دشمن کوڈرانے والے کتے کے علاوہ تو روزانہ اس کے (نیک) عمل سے دو قیراط کم ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (عبداللہ بن عمر سے) سوال ہوا، ابو عبد الرحمن! ہم تو ایک قیراط سنتے ہیں ، تو انہوں نے فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم! جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق ہیں ، میرے کانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ دو قیراط کہہ رہے تھے۔ محمد بن عبد الرحمن، ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں : میں نے یہ بات نافع رحمہ اللہ سے ذکر کی تو انہوں نے کہا: میں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، لیکن میں نے کلب مخافة (ڈرانے والے کتے) کے الفاظ ان سے نہیں سنے۔
تشریح :
(1) کتا رکھنا:
کھیتی، مویشیوں کی حفاظت اور شکار کے لیے کتا رکھنا جائز ہے۔ ان مقاصد کے علاوہ کتے کو پالنے یا گھر میں رکھنے کی شرعاً ممانعت ہے اور اس میں بہت سے مفاسد ہیں ۔
سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِکَةُ بَیْتًا فِیهِ کَلْبٌ وَلَا تَصَاوِیرُ))( صحیح بخاري، اللباس، باب التصاویر : 5949، صحیح مسلم، اللباس والزینة، باب تحریم تصویر صورة الانسان : 2106۔)
’’فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کتا اور تصاویر ہو۔‘‘
بلا ضرورت کتا رکھنے والے کے اجر و ثواب سے روزانہ ایک یا دو قیراط کم کر دئیے جاتے ہیں ۔ قیراط کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ الحدیث حافظ محمد امین رحمہ اللہ رقمطراز ہیں : ’’ایک قیراط سے مراد کیا ہے؟ اس میں تفصیل ہے اور وہ اس طرح کہ قیراط کا اطلاق دو طرح کے وزن پر ہوتا ہے، ایک انتہائی معمولی وزن اور دوسرا انتہائی غیر معمولی وزن پر، معمولی وزن پر اس طرح کہ ایک دینار بیس قیراط کا ہوتا ہے اور دینار ساڑھے چار ماشے یعنی 4.374 گرام کا ہوتا ہے گویا ایک قیراط کا وزن تقریباً 220 ملی گرام بنتا ہے۔ دوسری قسم کا قیراط وہ ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد پہاڑ کے برابر قرار دیا ہے۔ اس کی مقدار کو اللہ ہی جانتا ہے۔
یہاں اس حدیث میں قیراط سے مراد کون سا قیراط ہے؟ تو اس کی بابت اہل علم کی آراء مختلف ہیں ۔ بعض اہل علم نے اس سے معمولی وزن مراد لیا ہے جبکہ بعض نے غیر معمولی وزن، ہمارا رحجان پہلی رائے کی طرف ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ شریعت مطہرۃ کا مزاج نرمی کرنا ہے، سختی اور شدت نہیں اور نرمی پہلی صورت میں ہے نہ کہ دوسری میں ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقاً قیراط فرمایا ہے، کسی قسم کا تعین نہیں کیا، یہ تو معلوم بات ہے کہ اللہ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت،اس کے غصے اور سزا سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ اس لیے سزا میں تخفیف اور فضل میں تکثیر والے ضابطے کی بنیاد پر بھی یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے کہ قیراط سے مراد پہلی صورت ہے اور یہی ارحم الراحمین کے فضل و کرم اور اس کی رحمت و مہربانی کا تقاضا ہے۔
﴿ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ﴾ (الاعراف : 156)
اس سب کے باوجود حتمی اور یقینی طور پر صرف ایک بات کہی جا سکتی ہے کہ اللہ ہی کے علم میں ہے کہ اس حدیث میں قیراط سے مراد کون سا قیراط ہے؟ بہرحال ایک مؤمن شخص کو اس سے بھی بچنا چاہیے کہ وہ کسی ایسے کام کا مرتکب ہو کہ جس کی وجہ سے اس کے نیک اعمال میں سے ذرہ بھر کمی کر دی جائے۔ اعاذنا اللّٰه منه۔( سنن نسائی مترجم : 6/268، 267 ، دارالسلام۔)
(2) کتوں کو مارنے کا حکم:
آغاز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو مارنے کا حکم دیا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ہر قسم کے کتوں کو مارا جیسا کہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جبریل امین علیہ السلام نے عرض کیا: ہم کسی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو تو اس دن آپ نے صبح کے وقت کتے مارنے کا حکم ارشاد فرمایا حتی کہ آپ چھوٹے چھوٹے کتے مارنے کا بھی حکم دیتے تھے۔( سنن نسائی، الصید والذبائح، الامر بقتل الکلاب : 4281۔)
بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کالے کتے کے علاوہ دیگر کتوں کومارنے سے منع کر دیا۔ چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَوْلَا أَنَّ الْکِلَابَ أُمَّةٌ مِنَ الْأُمَمِ لَأَمَرْتُ بِقَتْلِهَا فَاقْتُلُوا مِنْهَا الْأَسْوَدَ الْبَهِیمَ))( سنن ابی داؤد، الصید، باب فی اتخاذ الکلب الصید وغیره : 2845، سنن ترمذي، الأحکام،باب ما جاء فی قتل الکلاب : 1486، امام ترمذ نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے۔)
’’اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے بھی ایک مخلوق ہیں تو میں ان سب کو مار دینے کا حکم دیتا، اب تم خالص سیاہ کتے کو قتل کرو۔‘‘
(3) صرف اللہ کے نام کی قسم اٹھانا:
اپنی بات میں تاکید و پختگی پیدا کرنے کے لیے قسم اٹھانا جائز ہے۔ بلاوجہ، فضول اور لغو قسموں کو شرعاً ناپسند کیا گیا ہے۔ اگر کہیں قسم اٹھانے کی نوبت آجائے تو صرف اللہ رب العزت کے اسماء و صفات کی قسم اٹھانی چاہیے۔ غیر اللہ کی قسم اٹھانا ممنوع ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوران سفر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے آکر ملے جبکہ وہ سواروں کی ایک جماعت میں محوسفر تھے اور اپنے باپ کی قسم کھا رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((أَلَا إِنَّ اللَّهَ یَنْهَاکُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِکُمْ فَمَنْ کَانَ حَالِفًا فَلْیَحْلِفْ بِاللَّهِ أَوْ لِیَصْمُتْ۔))( صحیح بخاري، الایمان والنذور، باب لا تحلفوا بآبائکم : 6646، صحیح مسلم، الأیمان، باب النهی عن الحلف بغیر اللّٰه تعالیٰ : 1646۔)
’’خبردار! بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہیں باپ دادوں کی قسم کھانے سے منع کیا ہے۔ جسے قسم کھانی ہے اسے چاہیے کہ اللہ ہی کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بات میں تاکید اور پختگی کے لیے ’’والذی لا اله الا هو‘‘ کہا۔
(4) کتاب و سنت کی تعلیم میں سامع کو جہاں شک گزرے اسے سوال کے ذریعے اپنی تسلی کر لینی چاہیے۔
(5) اہل علم و فضل سے دینی علوم میں رسوخ اور یقین کے لیے سوال کرنا طریقہ سلف ہے۔
(6) کسی بھی صاحب علم کو اپنی تسلی و تشفی کے لیے ٹوکنا یا اس سے سوال کرنا، توہین و بے ادبی نہیں ہے۔
(7) سلف باہمی علمی مذاکروں کا انعقاد کرتے تھے۔
تخریج :
صحیح بخاری، الذبائح والصید، باب من اقتنی کلباً لیس بکلب صید او ما شیة، رقم الحدیث : 548، صحیح مسلم، المساقاة، باب الامر بقتل الکلاب : 1574، عن عبد اللّٰه بن دینار عن ابن عمر، مؤطا امام مالک : 2/561، رقم الحدیث : 2778 عن نافع عن ابن عمر۔
(1) کتا رکھنا:
کھیتی، مویشیوں کی حفاظت اور شکار کے لیے کتا رکھنا جائز ہے۔ ان مقاصد کے علاوہ کتے کو پالنے یا گھر میں رکھنے کی شرعاً ممانعت ہے اور اس میں بہت سے مفاسد ہیں ۔
سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِکَةُ بَیْتًا فِیهِ کَلْبٌ وَلَا تَصَاوِیرُ))( صحیح بخاري، اللباس، باب التصاویر : 5949، صحیح مسلم، اللباس والزینة، باب تحریم تصویر صورة الانسان : 2106۔)
’’فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کتا اور تصاویر ہو۔‘‘
بلا ضرورت کتا رکھنے والے کے اجر و ثواب سے روزانہ ایک یا دو قیراط کم کر دئیے جاتے ہیں ۔ قیراط کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ الحدیث حافظ محمد امین رحمہ اللہ رقمطراز ہیں : ’’ایک قیراط سے مراد کیا ہے؟ اس میں تفصیل ہے اور وہ اس طرح کہ قیراط کا اطلاق دو طرح کے وزن پر ہوتا ہے، ایک انتہائی معمولی وزن اور دوسرا انتہائی غیر معمولی وزن پر، معمولی وزن پر اس طرح کہ ایک دینار بیس قیراط کا ہوتا ہے اور دینار ساڑھے چار ماشے یعنی 4.374 گرام کا ہوتا ہے گویا ایک قیراط کا وزن تقریباً 220 ملی گرام بنتا ہے۔ دوسری قسم کا قیراط وہ ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد پہاڑ کے برابر قرار دیا ہے۔ اس کی مقدار کو اللہ ہی جانتا ہے۔
یہاں اس حدیث میں قیراط سے مراد کون سا قیراط ہے؟ تو اس کی بابت اہل علم کی آراء مختلف ہیں ۔ بعض اہل علم نے اس سے معمولی وزن مراد لیا ہے جبکہ بعض نے غیر معمولی وزن، ہمارا رحجان پہلی رائے کی طرف ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ شریعت مطہرۃ کا مزاج نرمی کرنا ہے، سختی اور شدت نہیں اور نرمی پہلی صورت میں ہے نہ کہ دوسری میں ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقاً قیراط فرمایا ہے، کسی قسم کا تعین نہیں کیا، یہ تو معلوم بات ہے کہ اللہ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت،اس کے غصے اور سزا سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ اس لیے سزا میں تخفیف اور فضل میں تکثیر والے ضابطے کی بنیاد پر بھی یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے کہ قیراط سے مراد پہلی صورت ہے اور یہی ارحم الراحمین کے فضل و کرم اور اس کی رحمت و مہربانی کا تقاضا ہے۔
﴿ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ﴾ (الاعراف : 156)
اس سب کے باوجود حتمی اور یقینی طور پر صرف ایک بات کہی جا سکتی ہے کہ اللہ ہی کے علم میں ہے کہ اس حدیث میں قیراط سے مراد کون سا قیراط ہے؟ بہرحال ایک مؤمن شخص کو اس سے بھی بچنا چاہیے کہ وہ کسی ایسے کام کا مرتکب ہو کہ جس کی وجہ سے اس کے نیک اعمال میں سے ذرہ بھر کمی کر دی جائے۔ اعاذنا اللّٰه منه۔( سنن نسائی مترجم : 6/268، 267 ، دارالسلام۔)
(2) کتوں کو مارنے کا حکم:
آغاز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو مارنے کا حکم دیا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ہر قسم کے کتوں کو مارا جیسا کہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جبریل امین علیہ السلام نے عرض کیا: ہم کسی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو تو اس دن آپ نے صبح کے وقت کتے مارنے کا حکم ارشاد فرمایا حتی کہ آپ چھوٹے چھوٹے کتے مارنے کا بھی حکم دیتے تھے۔( سنن نسائی، الصید والذبائح، الامر بقتل الکلاب : 4281۔)
بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کالے کتے کے علاوہ دیگر کتوں کومارنے سے منع کر دیا۔ چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَوْلَا أَنَّ الْکِلَابَ أُمَّةٌ مِنَ الْأُمَمِ لَأَمَرْتُ بِقَتْلِهَا فَاقْتُلُوا مِنْهَا الْأَسْوَدَ الْبَهِیمَ))( سنن ابی داؤد، الصید، باب فی اتخاذ الکلب الصید وغیره : 2845، سنن ترمذي، الأحکام،باب ما جاء فی قتل الکلاب : 1486، امام ترمذ نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے۔)
’’اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے بھی ایک مخلوق ہیں تو میں ان سب کو مار دینے کا حکم دیتا، اب تم خالص سیاہ کتے کو قتل کرو۔‘‘
(3) صرف اللہ کے نام کی قسم اٹھانا:
اپنی بات میں تاکید و پختگی پیدا کرنے کے لیے قسم اٹھانا جائز ہے۔ بلاوجہ، فضول اور لغو قسموں کو شرعاً ناپسند کیا گیا ہے۔ اگر کہیں قسم اٹھانے کی نوبت آجائے تو صرف اللہ رب العزت کے اسماء و صفات کی قسم اٹھانی چاہیے۔ غیر اللہ کی قسم اٹھانا ممنوع ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوران سفر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے آکر ملے جبکہ وہ سواروں کی ایک جماعت میں محوسفر تھے اور اپنے باپ کی قسم کھا رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((أَلَا إِنَّ اللَّهَ یَنْهَاکُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِکُمْ فَمَنْ کَانَ حَالِفًا فَلْیَحْلِفْ بِاللَّهِ أَوْ لِیَصْمُتْ۔))( صحیح بخاري، الایمان والنذور، باب لا تحلفوا بآبائکم : 6646، صحیح مسلم، الأیمان، باب النهی عن الحلف بغیر اللّٰه تعالیٰ : 1646۔)
’’خبردار! بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہیں باپ دادوں کی قسم کھانے سے منع کیا ہے۔ جسے قسم کھانی ہے اسے چاہیے کہ اللہ ہی کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بات میں تاکید اور پختگی کے لیے ’’والذی لا اله الا هو‘‘ کہا۔
(4) کتاب و سنت کی تعلیم میں سامع کو جہاں شک گزرے اسے سوال کے ذریعے اپنی تسلی کر لینی چاہیے۔
(5) اہل علم و فضل سے دینی علوم میں رسوخ اور یقین کے لیے سوال کرنا طریقہ سلف ہے۔
(6) کسی بھی صاحب علم کو اپنی تسلی و تشفی کے لیے ٹوکنا یا اس سے سوال کرنا، توہین و بے ادبی نہیں ہے۔
(7) سلف باہمی علمی مذاکروں کا انعقاد کرتے تھے۔