مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 37

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَّيَةَ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَارِثُ بْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، رَأَى كَأَنَّ بِيَدِهِ خِرْقَةً مِنْ إِسْتَبْرَقٍ لَا يَسِيرُ بِهَا إِلَى شَيْءٍ مِنَ الْجَنَّةِ إِلَّا طَارَتْ إِلَيْهِ، فَقَصَّهَا عَلَى حَفْصَةَ، فَقَصَّتْهَا حَفْصَةُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ رَجُلٌ صَالِحٌ»

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 37

کتاب باب نافع رحمہ اللہ سے مروی ہے، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا گویا ان کے ہاتھ میں ریشم کا ایک ٹکڑا ہے اور وہ جنت کی جس چیز کی طرف جانا چاہتے ہیں وہ ان کو وہاں اڑا کر لے جاتا ہے۔انہوں نے یہ خواب ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو بیان کیا اور حفصہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک عبداللہ نیک آدمی ہے۔‘‘
تشریح : (1) خواب کی حقیقت: خواب ایک حقیقت ہے۔ خواب سچا بھی ہو سکتا ہے اور جھوٹابھی۔ سچا خواب اللہ کی طرف سے ہوتا ہے جبکہ جھوٹا خواب شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ انبیاء و رسل کے خواب وحی کی ایک قسم ہوتے ہیں ۔ ہمارے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتدائے نبوت میں رات کو خواب آتا جو حقیقی صورت میں پورا ہوتا دکھائی دیتا تھا یوں آپ کی نبوت و رسالت کی ابتدا خواب ہی سے ہوئی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : ((أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم مِنَ الْوَحْیِ الرُّؤْیَا الصَّالِحَةُ فِی النَّوْمِ فَکَانَ لَا یَرَي رُؤْیَا إِلَّا جَائَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ))( صحیح بخاري، باب کیف کان بدء الوحي الی رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم : 4، صحیح مسلم، الایمان، باب بدء الوحی : 160۔) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتداء سچے اور پاکیزہ خوابوں سے ہوئی، آپ جو خواب میں دیکھتے، وہ صبح کی روشنی کی طرح سچا ثابت ہوتا۔‘‘ قرآن میں سیدنا یوسف علیہ السلام اور ان کے جد امجد سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے خوابوں کا ذکر موجود ہے۔ نبوت و رسالت کا سلسلہ منقطع ہو جانے کے بعد مؤمن و مسلمان کا اچھا خواب باقی رہ گیا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَمْ یَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ، قَالُوا: وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ: الرُّؤْیَا الصَّالِحَةُ))( صحیح بخاري، التعبیر، باب المبشرات : 6990۔) ’’نبوت میں سے مبشرات (خوشخبریوں ) کے سوا کچھ باقی نہ رہا۔ صحابہ نے پوچھا: مبشرات کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اچھے خواب۔‘‘ (2) ام المؤمنین سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما : ام المؤمنین سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی بڑی بہن ہیں ۔ پہلے صحابی رسول خنیس بن حذافہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں ۔ ان کی وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں ۔ (3) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کو خاص نسبت تھی۔ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان کرنے والے مکثرین صحابہ میں سے ہیں ۔ زبان نبوت سے ان کے حق میں ’’رجل صالح‘‘ کا خطاب ایک بہت بڑا اعزاز و افتخار ہے ایں سعادت بزور بازونیست
تخریج : صحیح بخاري، التعبیر، باب الاستبرق ودخول الجنة في المنام، رقم الحدیث : 7015، 7016، صحیح مسلم، فضائل الصحابة، باب من فضائل عبد اللّٰه بن عمر رضي الله عنهما رقم الحديث :2478 (1) خواب کی حقیقت: خواب ایک حقیقت ہے۔ خواب سچا بھی ہو سکتا ہے اور جھوٹابھی۔ سچا خواب اللہ کی طرف سے ہوتا ہے جبکہ جھوٹا خواب شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ انبیاء و رسل کے خواب وحی کی ایک قسم ہوتے ہیں ۔ ہمارے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتدائے نبوت میں رات کو خواب آتا جو حقیقی صورت میں پورا ہوتا دکھائی دیتا تھا یوں آپ کی نبوت و رسالت کی ابتدا خواب ہی سے ہوئی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : ((أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم مِنَ الْوَحْیِ الرُّؤْیَا الصَّالِحَةُ فِی النَّوْمِ فَکَانَ لَا یَرَي رُؤْیَا إِلَّا جَائَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ))( صحیح بخاري، باب کیف کان بدء الوحي الی رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم : 4، صحیح مسلم، الایمان، باب بدء الوحی : 160۔) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتداء سچے اور پاکیزہ خوابوں سے ہوئی، آپ جو خواب میں دیکھتے، وہ صبح کی روشنی کی طرح سچا ثابت ہوتا۔‘‘ قرآن میں سیدنا یوسف علیہ السلام اور ان کے جد امجد سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے خوابوں کا ذکر موجود ہے۔ نبوت و رسالت کا سلسلہ منقطع ہو جانے کے بعد مؤمن و مسلمان کا اچھا خواب باقی رہ گیا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَمْ یَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ، قَالُوا: وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ: الرُّؤْیَا الصَّالِحَةُ))( صحیح بخاري، التعبیر، باب المبشرات : 6990۔) ’’نبوت میں سے مبشرات (خوشخبریوں ) کے سوا کچھ باقی نہ رہا۔ صحابہ نے پوچھا: مبشرات کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اچھے خواب۔‘‘ (2) ام المؤمنین سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما : ام المؤمنین سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی بڑی بہن ہیں ۔ پہلے صحابی رسول خنیس بن حذافہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں ۔ ان کی وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں ۔ (3) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کو خاص نسبت تھی۔ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان کرنے والے مکثرین صحابہ میں سے ہیں ۔ زبان نبوت سے ان کے حق میں ’’رجل صالح‘‘ کا خطاب ایک بہت بڑا اعزاز و افتخار ہے ایں سعادت بزور بازونیست