كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَّيَةَ، حَدَّثَنَا مُعَلَّى الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الْمُزَابَنَةِ: أَنْ يَبِيعَ الرَّجُلُ ثَمَرَ أَرْضِهِ بِكَيْلٍ إِنْ زَادَ فَلَا، وَإِنْ نَقَصَ فَعَلَى قَالَ: وَقَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا بِخَرْصِهَا
کتاب
باب
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ یہ کہ آدمی اپنی زمین کی پیداوار کو معلوم وزن کے عوض اس شرط پر بیچ دے کہ اگر پیداوار زیادہ ہوئی تو اس کو مزید کچھ نہیں ملے گا اور اگر پیداوار وزن سے کم ہوئی تو وہ نقصان کا ذمہ دار ہوگا اسے منع کیا۔
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت پر لگی کھجور کی (اندازے کے ساتھ خشک یا تازی کھجور کے عوض) بیع کی رخصت دی۔‘‘
تشریح :
(1):… تجارت کی اہمیت کے لیے دیکھئے فوائد، حدیث نمبر 34۔
(2) بیع مزابنۃ:
درختوں پر لگے ہوئے پھل کو اسی جنس کے اتارے ہوئے خشک پھل کے عوض فروخت کرنا بیع مزابنہ ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((وَالْمُزَابَنَةُ بَیْعُ الثَّمَرِ عَلَی رُؤسِ النَّخْلِ بِالتَّمْرِ))( سنن ترمذي، البیوع، باب ما جاء فی النهی عن المحاقلة والمزابنة، تحت رقم الحدیث : 1224۔)
’’مزابنہ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ کھجور کے درختوں پر لگی تر کھجوروں کو خشک کھجوروں کے عوض فروخت کرنا۔‘‘
چونکہ اس بیع میں صحیح تعداد کا علم نہیں ہو سکتا کہ تر میوہ خشک ہو کر کتنا رہ جائے گا،زیادتی اور کمی دونوں کے امکانات ہیں جس کی وجہ سے فریقین میں سے کسی ایک کو نقصان ہو سکتا ہے۔ اس لیے شریعت نے اس سے منع کیا۔
(3) بیع العرایاء:
درخت پر لگے پھلوں کو اسی جنس کے خشک پھل کے عوض صورت ’’عرایا‘‘ میں بیچنا جائز ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ عرایاکی تفسیر میں فرماتے ہیں :
((وَقَالَ مَالِکٌ: الْعَرِیَّةُ أَنْ یُعْرِیَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ النَّخْلَةَ ثُمَّ یَتَأَذَّی بِدُخُولِهِ عَلَیْهِ فَرَخَّصَ لَهُ أَنْ یَشْتَرِیَهَا مِنْهُ بِتَمْرٍ، وَقَالَ ابْنُ إِدْرِیسَ: الْعَرِیَّةُ لَا تَکُونُ إِلَّا بِالْکَیْلِ مِنَ التَّمْرِ یَدًا بِیَدٍ لَا یَکُونُ بِالْجِزَافِ))
’’امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں : عریہ یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے کو اپنے باغ کا درخت عاریتاً دے پھر اس شخص کا باغ میں آناجانا ناگوار معلوم ہو تو ایسی صورت میں عاریتاً دینے والا خشک کھجور کے عوض اپنا درخت خرید لے تو اس کے لیے جائز ہے۔‘‘
’’اور امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : عریہ کے لیے ضروری ہے کہ خشک کھجور کا وزن کر کے دست بدست دی جائے۔ دونوں طرف سے اندازہ درست نہیں ۔‘‘( صحیح بخاري، البیوع، باب تفسیر العرایا، قبل الحدیث : 2192۔)
اہل عرایا کے لیے پانچ وسق یا اس سے کم مقدار کا فروخت کرنا جائزہے اور اگر اس سے وزن زیادہ ہو تو یہ بیع درست نہیں ۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ وسق یا اس سے کم میں بیع عرایا کی اجازت دی ہے۔( صحیح بخاري، البیوع، باب بیع الثمر علی رؤس النخل بالذهب والفضة : 2190، صحیح مسلم، البیوع، باب تحریم بیع الرطب بالتمر الا في العرایا : 1541۔عمر رضي اللّٰه عنه ،رقم الحدیث : 2478۔)
ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور ایک صاع تقریباً اڑھائی کلووزن کے برابر ہے۔
(4) اندازہ و تخمینہ لگانا:
اس حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ شرعاً اندازہ و تخمینہ لگانا جائز ہے۔ بشرطیکہ اندازہ کرنے والا امانت دار ہو اور اپنے فن میں مہارت رکھتا ہو۔
تخریج :
صحیح بخاري، البیوع، باب بیع الزبیب بالزبیب والطعام بالطعام، رقم الحدیث : 2172، 2173، صحیح مسلم، البیوع، باب تحریم بیع الرطب بالتمر الا فی العرایا، رقم الحدیث : 1542۔
(1):… تجارت کی اہمیت کے لیے دیکھئے فوائد، حدیث نمبر 34۔
(2) بیع مزابنۃ:
درختوں پر لگے ہوئے پھل کو اسی جنس کے اتارے ہوئے خشک پھل کے عوض فروخت کرنا بیع مزابنہ ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((وَالْمُزَابَنَةُ بَیْعُ الثَّمَرِ عَلَی رُؤسِ النَّخْلِ بِالتَّمْرِ))( سنن ترمذي، البیوع، باب ما جاء فی النهی عن المحاقلة والمزابنة، تحت رقم الحدیث : 1224۔)
’’مزابنہ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ کھجور کے درختوں پر لگی تر کھجوروں کو خشک کھجوروں کے عوض فروخت کرنا۔‘‘
چونکہ اس بیع میں صحیح تعداد کا علم نہیں ہو سکتا کہ تر میوہ خشک ہو کر کتنا رہ جائے گا،زیادتی اور کمی دونوں کے امکانات ہیں جس کی وجہ سے فریقین میں سے کسی ایک کو نقصان ہو سکتا ہے۔ اس لیے شریعت نے اس سے منع کیا۔
(3) بیع العرایاء:
درخت پر لگے پھلوں کو اسی جنس کے خشک پھل کے عوض صورت ’’عرایا‘‘ میں بیچنا جائز ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ عرایاکی تفسیر میں فرماتے ہیں :
((وَقَالَ مَالِکٌ: الْعَرِیَّةُ أَنْ یُعْرِیَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ النَّخْلَةَ ثُمَّ یَتَأَذَّی بِدُخُولِهِ عَلَیْهِ فَرَخَّصَ لَهُ أَنْ یَشْتَرِیَهَا مِنْهُ بِتَمْرٍ، وَقَالَ ابْنُ إِدْرِیسَ: الْعَرِیَّةُ لَا تَکُونُ إِلَّا بِالْکَیْلِ مِنَ التَّمْرِ یَدًا بِیَدٍ لَا یَکُونُ بِالْجِزَافِ))
’’امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں : عریہ یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے کو اپنے باغ کا درخت عاریتاً دے پھر اس شخص کا باغ میں آناجانا ناگوار معلوم ہو تو ایسی صورت میں عاریتاً دینے والا خشک کھجور کے عوض اپنا درخت خرید لے تو اس کے لیے جائز ہے۔‘‘
’’اور امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : عریہ کے لیے ضروری ہے کہ خشک کھجور کا وزن کر کے دست بدست دی جائے۔ دونوں طرف سے اندازہ درست نہیں ۔‘‘( صحیح بخاري، البیوع، باب تفسیر العرایا، قبل الحدیث : 2192۔)
اہل عرایا کے لیے پانچ وسق یا اس سے کم مقدار کا فروخت کرنا جائزہے اور اگر اس سے وزن زیادہ ہو تو یہ بیع درست نہیں ۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ وسق یا اس سے کم میں بیع عرایا کی اجازت دی ہے۔( صحیح بخاري، البیوع، باب بیع الثمر علی رؤس النخل بالذهب والفضة : 2190، صحیح مسلم، البیوع، باب تحریم بیع الرطب بالتمر الا في العرایا : 1541۔عمر رضي اللّٰه عنه ،رقم الحدیث : 2478۔)
ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور ایک صاع تقریباً اڑھائی کلووزن کے برابر ہے۔
(4) اندازہ و تخمینہ لگانا:
اس حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ شرعاً اندازہ و تخمینہ لگانا جائز ہے۔ بشرطیکہ اندازہ کرنے والا امانت دار ہو اور اپنے فن میں مہارت رکھتا ہو۔