مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 35

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَّيَةَ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطَعَ فِي مِجَنٍّ ثَمَنُهُ ثَلَاثَةُ دَرَاهِمَ

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 35

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈھال (کی چوری) کی وجہ سے (چور کا) ہاتھ کاٹا جس کی قیمت تین درہم تھی۔
تشریح : (1) حدود: حدود، حد کی جمع ہے۔ شرعی اصطلاح میں اس سے مراد وہ سزا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے مقررہ کردہ مخصوص جرائم کے مرتکبین کو دی جاتی ہے۔ان سزاؤں سے مقصود معاشرے کو امن و سکون اور خیر وبرکات کا گہوارہ بنانا ہے۔ شرعی حدود میں سے ایک حد چوری کرنے والے پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ (2) چور کی سزا: کلمہ پڑھ لینے والے مسلمان کے جان و مال کی حفاظت کرنا اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ مسلمان کا مال حرمت و عزت والا ہے اس کی اجازت اور دلی رضامندی کے بغیر اس سے لینا کسی کے لیے بھی جائز نہیں اور اگرکوئی ایسا کرے گا تو اس پر شریعت کی حد کا نفاذ ہوگا۔ لہٰذاچوری کرنے والے مرد و عورت کی سزا بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾(المائدہ : 38) ’’اور جو چوری کرنے والا اور چوری کرنے والی ہے۔ دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، اس کی جزا کے لیے جو ان دونوں نے کمایا، اللہ کی طرف سے عبرت کے لیے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا تُقْطَعُ یَدُ السَّارِقِ إِلَّا فِی رُبْعِ دِینَارٍ فَصَاعِدًا))( صحیح مسلم، الحدود، باب حد السرقة ونصابها : 1684۔) ’’چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے مگر چوتھائی دینار یا زیادہ (کی مالیت) میں ۔‘‘ معلوم ہوا قابل حد چوری کا نصاب چوتھائی دینار ہے اور چوتھائی دینار عہد نبوی میں تین درہم کے برابر تھا۔
تخریج : صحیح بخاري، الحدود، باب قول اللّٰه تعالیٰ ’’والسارق والسارقة فاقطعوا ایدیهما‘‘ وفي کم یقطع؟ رقم الحدیث : 6795، 6796، 6798، صحیح مسلم، الحدود، باب حد السرقۃ ونصابہا، رقم الحدیث : 1686۔ (1) حدود: حدود، حد کی جمع ہے۔ شرعی اصطلاح میں اس سے مراد وہ سزا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے مقررہ کردہ مخصوص جرائم کے مرتکبین کو دی جاتی ہے۔ان سزاؤں سے مقصود معاشرے کو امن و سکون اور خیر وبرکات کا گہوارہ بنانا ہے۔ شرعی حدود میں سے ایک حد چوری کرنے والے پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ (2) چور کی سزا: کلمہ پڑھ لینے والے مسلمان کے جان و مال کی حفاظت کرنا اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ مسلمان کا مال حرمت و عزت والا ہے اس کی اجازت اور دلی رضامندی کے بغیر اس سے لینا کسی کے لیے بھی جائز نہیں اور اگرکوئی ایسا کرے گا تو اس پر شریعت کی حد کا نفاذ ہوگا۔ لہٰذاچوری کرنے والے مرد و عورت کی سزا بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾(المائدہ : 38) ’’اور جو چوری کرنے والا اور چوری کرنے والی ہے۔ دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، اس کی جزا کے لیے جو ان دونوں نے کمایا، اللہ کی طرف سے عبرت کے لیے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا تُقْطَعُ یَدُ السَّارِقِ إِلَّا فِی رُبْعِ دِینَارٍ فَصَاعِدًا))( صحیح مسلم، الحدود، باب حد السرقة ونصابها : 1684۔) ’’چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے مگر چوتھائی دینار یا زیادہ (کی مالیت) میں ۔‘‘ معلوم ہوا قابل حد چوری کا نصاب چوتھائی دینار ہے اور چوتھائی دینار عہد نبوی میں تین درہم کے برابر تھا۔