مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 34

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَّيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنِ ابْتَاعَ نَخْلًا قَدْ أُبِّرَتْ - سَأَلْتُهُ، فَقَالَ: لُقِّحَتْ - فَثَمَرُهُ لِلْبَائِعِ، إِلَّا أَنَّهُ يَشْتَرِطُ الْمُبْتَاعُ "

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 34

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے پیوندکاری کے بعد کھجور کا درخت بیچا۔‘‘ تو اس کا (اس سال کا) پھل بیچنے والے کا ہے سوائے اس کے کہ خریدار شرط لگا لے۔‘‘
تشریح : (1) تجارت کی اہمیت: دین اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ جو انفرادی و اجتماعی زندگی کے ہر شعبہ میں راہنمائی کرتا ہے۔ خریدو فروخت ہمیشہ سے انسان کی زندگی کا لازمی حصہ رہی ہے۔ انسان اپنی حاجات و ضروریات کے لیے ہر وقت دوسروں کا محتاج ہے۔ جب ہر شخص کی ضرورتیں دوسروں کے ساتھ بندھی ہوئی ہیں تو خرید و فروخت اور لین دین کے معاملات ناگزیر ہیں ۔ لہٰذا ان ناگزیر معاملات کے لیے شریعت اسلامیہ نے اصول و ضوابط متعین کیے، حدود و قیود طے کیں جن میں رہ کر تجارت کی جا سکتی ہے۔ تجارت شرعاً حلال ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اکثر و پیشتر تجارت پیشہ تھے اور ان کی تمام تر کاروباری سرگرمیاں شریعت کے تابع تھیں ۔ انہوں نے کاروباری میدان میں خوب نام کمایا، ان کو مالی وسعت حاصل ہوئی ان کی مالی وسعت، آسودگی سے یہ سبق ملتا ہے کہ شریعت کی حدود میں رہ کر معاشی ترقی کی منازل کو آسانی سے طے کیا جا سکتا ہے۔ لین دین و تجارت کے لیے اسلام کے وضع کردہ اصول معاشی ترقی،معاشرتی آسودگی اور حکومتی خوشحالی کے ضامن ہیں ان کی خلاف ورزی مختلف بحرانوں کو جنم دیتی ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو شرعی اصول و ضوابط کی روشنی میں اسلام کی حدود میں رہ کر تجارت کرنا چاہیے اور تجارت کے سلسلہ میں اسلام کی دی ہوئی ہدایات کو سمجھنا اور یاد رکھنا چاہیے۔ اسلامی ریاست میں خریدو فروخت سے متعلق اسلامی احکام سے ناواقف انسان کو کاروبار کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ((لَا یَبِعْ فِی سُوقِنَا إِلَّا مَنْ قَدْ تَفَقَّهَ فِی الدِّینِ))( سنن ترمذي، الوتر، باب ماجاء في فضل الصلوة علی النبی صلي اللّٰه عليه وسلم : 487، محدث البانی نے اسے ’’حسن الإسناد‘‘ قرار دیا ہے۔) ’’ہمارے بازاروں میں وہی خرید و فروخت کرے جسے دین (کے کاروباری احکام) کی سمجھ ہو۔‘‘ (2) بائع و مشتری کی رضامندی: صحت تجارت کے لیے بیچنے والے اور خریدار دونوں کی رضامندی ضروری ہے۔یہ رضامندی کسی دباؤ کے تحت، مصنوعی، یادھوکہ دہی کی بنا پر نہ ہو۔ جس سودے میں فریقین یکساں طور پر رضامند نہ ہوں ،ناجائزہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴾ (النساء : 29) ’’اے ایمان والو! اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے نہ کھاؤ مگر یہ کہ تمہاری آپس کی رضامندی سے تجارت کی کوئی صورت ہو اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بے شک اللہ تم پر ہمیشہ سے بے حد مہربان ہے۔‘‘ اس آیت کے الفاظ ’’عن تراض‘‘ سے متعلق مفسرین لکھتے ہیں : ’’یعنی وہ تجارت اور لین دین (صنعت و حرفت وغیرہ) جس میں حقیقی باہمی رضامندی ہو، اس کے ذریعے سے کماؤ اور کھاؤ۔ آپس کی رضامندی میں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ شرع کے خلاف نہ ہو کیونکہ وہ حقیقی رضامندی ہوتی ہی نہیں ۔ مجبوری کی رضامندی ہوتی ہے۔ مثلاً رشوت اور سود میں بظاہر رضامندی ہے مگر حقیقی نہیں ، کیونکہ ایک فریق دوسرے کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اسی طرح جوئے اور لاٹری وغیرہ کا معاملہ ہے کہ یہ دونوں فریق نفع کی موہوم امید کے فریب میں آکر یہ کام کر رہے ہیں ۔ اس فریب کو حقیقی رضامندی نہیں کہا جا سکتا۔ پورے طور پر باہمی رضامندی میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ جب تک بیچنے والا اور خریدنے والا مجلس بیع سے الگ نہ ہوں اس وقت تک دونوں کو ایک دوسرے کی بیع رد کرنے کا حق ہے۔( تفسیر القرآن الکریم : 1/358۔)
تخریج : صحیح بخاري، البیوع، باب من باع نخلا قد أبرت… رقم الحدیث : 2204، 2206، صحیح مسلم، البیوع، باب من باع نخلا علیها تمر، رقم الحدیث : 1543۔ (1) تجارت کی اہمیت: دین اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ جو انفرادی و اجتماعی زندگی کے ہر شعبہ میں راہنمائی کرتا ہے۔ خریدو فروخت ہمیشہ سے انسان کی زندگی کا لازمی حصہ رہی ہے۔ انسان اپنی حاجات و ضروریات کے لیے ہر وقت دوسروں کا محتاج ہے۔ جب ہر شخص کی ضرورتیں دوسروں کے ساتھ بندھی ہوئی ہیں تو خرید و فروخت اور لین دین کے معاملات ناگزیر ہیں ۔ لہٰذا ان ناگزیر معاملات کے لیے شریعت اسلامیہ نے اصول و ضوابط متعین کیے، حدود و قیود طے کیں جن میں رہ کر تجارت کی جا سکتی ہے۔ تجارت شرعاً حلال ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اکثر و پیشتر تجارت پیشہ تھے اور ان کی تمام تر کاروباری سرگرمیاں شریعت کے تابع تھیں ۔ انہوں نے کاروباری میدان میں خوب نام کمایا، ان کو مالی وسعت حاصل ہوئی ان کی مالی وسعت، آسودگی سے یہ سبق ملتا ہے کہ شریعت کی حدود میں رہ کر معاشی ترقی کی منازل کو آسانی سے طے کیا جا سکتا ہے۔ لین دین و تجارت کے لیے اسلام کے وضع کردہ اصول معاشی ترقی،معاشرتی آسودگی اور حکومتی خوشحالی کے ضامن ہیں ان کی خلاف ورزی مختلف بحرانوں کو جنم دیتی ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو شرعی اصول و ضوابط کی روشنی میں اسلام کی حدود میں رہ کر تجارت کرنا چاہیے اور تجارت کے سلسلہ میں اسلام کی دی ہوئی ہدایات کو سمجھنا اور یاد رکھنا چاہیے۔ اسلامی ریاست میں خریدو فروخت سے متعلق اسلامی احکام سے ناواقف انسان کو کاروبار کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ((لَا یَبِعْ فِی سُوقِنَا إِلَّا مَنْ قَدْ تَفَقَّهَ فِی الدِّینِ))( سنن ترمذي، الوتر، باب ماجاء في فضل الصلوة علی النبی صلي اللّٰه عليه وسلم : 487، محدث البانی نے اسے ’’حسن الإسناد‘‘ قرار دیا ہے۔) ’’ہمارے بازاروں میں وہی خرید و فروخت کرے جسے دین (کے کاروباری احکام) کی سمجھ ہو۔‘‘ (2) بائع و مشتری کی رضامندی: صحت تجارت کے لیے بیچنے والے اور خریدار دونوں کی رضامندی ضروری ہے۔یہ رضامندی کسی دباؤ کے تحت، مصنوعی، یادھوکہ دہی کی بنا پر نہ ہو۔ جس سودے میں فریقین یکساں طور پر رضامند نہ ہوں ،ناجائزہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴾ (النساء : 29) ’’اے ایمان والو! اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے نہ کھاؤ مگر یہ کہ تمہاری آپس کی رضامندی سے تجارت کی کوئی صورت ہو اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بے شک اللہ تم پر ہمیشہ سے بے حد مہربان ہے۔‘‘ اس آیت کے الفاظ ’’عن تراض‘‘ سے متعلق مفسرین لکھتے ہیں : ’’یعنی وہ تجارت اور لین دین (صنعت و حرفت وغیرہ) جس میں حقیقی باہمی رضامندی ہو، اس کے ذریعے سے کماؤ اور کھاؤ۔ آپس کی رضامندی میں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ شرع کے خلاف نہ ہو کیونکہ وہ حقیقی رضامندی ہوتی ہی نہیں ۔ مجبوری کی رضامندی ہوتی ہے۔ مثلاً رشوت اور سود میں بظاہر رضامندی ہے مگر حقیقی نہیں ، کیونکہ ایک فریق دوسرے کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اسی طرح جوئے اور لاٹری وغیرہ کا معاملہ ہے کہ یہ دونوں فریق نفع کی موہوم امید کے فریب میں آکر یہ کام کر رہے ہیں ۔ اس فریب کو حقیقی رضامندی نہیں کہا جا سکتا۔ پورے طور پر باہمی رضامندی میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ جب تک بیچنے والا اور خریدنے والا مجلس بیع سے الگ نہ ہوں اس وقت تک دونوں کو ایک دوسرے کی بیع رد کرنے کا حق ہے۔( تفسیر القرآن الکریم : 1/358۔)