مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 32

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَّيَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: جَلَسْتُ إِلَى ابْنِ عُمَرَ وَأَبِي سَعِيدٍ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «يَبْلُغُ الْعَرَقُ مِنْ بَنِي آدَمَ» ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: «إِلَى شَحْمَةِ أُذُنِهِ» ، وَقَالَ الْآخَرُ: «يُلْجِمُهُ»

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 32

کتاب باب جعفر کہتے ہیں میں عبد اللہ بن عمر اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا تھا کہ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان کرتے ہوئے سنا: ’’قیامت کے دن بنی آدم کو پسینہ آئے گا۔‘‘ ان میں سے ایک نے کہا کانوں کی لو تک اور دوسرے نے کہا: منہ تک پہنچ کر لگا م کی طرح ہوگا۔‘‘
تشریح : (1) یوم آخرت پر ایمان: عقیدہ ٔ آخرت ایمان کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ یہ عقیدہ انسان کو جوابدہی کا احساس دلاتا ہے۔ جس سے انسان میں اعلیٰ اخلاقی اقدار پیدا ہوتی ہیں ۔ نتیجتاً معاشرہ امن و سلامتی کا گہوارہ بنتا ہے، لوگ باہم شیر و شکر ہوتے ہیں ۔ یوم آخرت پر پختہ ایمان انسان کو قدم قدم پر صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے روکتا ہے۔ اسے ظالم، غاصب اور سرکش نہیں بننے دیتا۔ اس کی خلوت و جلوت کو پاک کر دیتا ہے۔ اسی لیے مکی زندگی میں عقیدہ آخرت کی مضبوطی پر خوب زور دیا گیا اور اس سلسلہ میں منکرین آخرت کی طرف سے پیش کیے گئے تمام اعتراضات کا جواب دیا گیا تاکہ اسلام کے پیروکار صاف ستھری اور اجلی زندگی گزاریں ، جس میں دوسروں کی خیر خواہی احساس مندی اور جذبہ ہمدردی ہو اور ایک مسلمان دنیا کے بعد آخرت میں بھی سرخرو ہو سکے۔ مزید دیکھئے فوائد حدیث نمبر 9۔ (2) میدان محشر کی ہولناکیاں : حشر کا میدان ایک ہولناک منظر پیش کرے گا۔ اس دن کی سختی موت اور قبر کی سختی سے کہیں بڑھ کر ہے۔ حشر کی گرمی، لوگوں کو نڈھال کر دے گی۔ سورج ایک میل کے فاصلے پر ہوگا اور لوگ اپنے اپنے اعمال کے مطابق پسینے میں ڈوبے ہوں گے۔ بعض لوگوں کا پسینہ ایڑیوں تک، بعض کا نصف پنڈلیوں تک، بعض لوگوں کا گھٹنوں تک، بعض لوگوں کا پیٹھ تک، بعض لوگوں کا کمر تھا، بعض لوگوں کا کندھوں تک، بعض لوگوں کا منہ تک اور بعض لوگ پسینے میں غوطے کھا رہے ہوں گے اور بعض لوگوں کا پسینہ منہ سے اوپر نصف کانوں تک ہوگا جس میں وہ ڈوبے ہوں گے۔ ’’اللهم انا نسئلک العافیة‘‘
تخریج : مسند ابی یعلی : 10/73، رقم الحدیث : 5711، مستدرک الحاکم : 4/615، رقم الحدیث : 8705، مجمع الزوائد : 10/335، رقم الحدیث : 18334، علامہ ہیثمی، حاکم اور شیخ حسین سلیم اسد نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ (1) یوم آخرت پر ایمان: عقیدہ ٔ آخرت ایمان کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ یہ عقیدہ انسان کو جوابدہی کا احساس دلاتا ہے۔ جس سے انسان میں اعلیٰ اخلاقی اقدار پیدا ہوتی ہیں ۔ نتیجتاً معاشرہ امن و سلامتی کا گہوارہ بنتا ہے، لوگ باہم شیر و شکر ہوتے ہیں ۔ یوم آخرت پر پختہ ایمان انسان کو قدم قدم پر صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے روکتا ہے۔ اسے ظالم، غاصب اور سرکش نہیں بننے دیتا۔ اس کی خلوت و جلوت کو پاک کر دیتا ہے۔ اسی لیے مکی زندگی میں عقیدہ آخرت کی مضبوطی پر خوب زور دیا گیا اور اس سلسلہ میں منکرین آخرت کی طرف سے پیش کیے گئے تمام اعتراضات کا جواب دیا گیا تاکہ اسلام کے پیروکار صاف ستھری اور اجلی زندگی گزاریں ، جس میں دوسروں کی خیر خواہی احساس مندی اور جذبہ ہمدردی ہو اور ایک مسلمان دنیا کے بعد آخرت میں بھی سرخرو ہو سکے۔ مزید دیکھئے فوائد حدیث نمبر 9۔ (2) میدان محشر کی ہولناکیاں : حشر کا میدان ایک ہولناک منظر پیش کرے گا۔ اس دن کی سختی موت اور قبر کی سختی سے کہیں بڑھ کر ہے۔ حشر کی گرمی، لوگوں کو نڈھال کر دے گی۔ سورج ایک میل کے فاصلے پر ہوگا اور لوگ اپنے اپنے اعمال کے مطابق پسینے میں ڈوبے ہوں گے۔ بعض لوگوں کا پسینہ ایڑیوں تک، بعض کا نصف پنڈلیوں تک، بعض لوگوں کا گھٹنوں تک، بعض لوگوں کا پیٹھ تک، بعض لوگوں کا کمر تھا، بعض لوگوں کا کندھوں تک، بعض لوگوں کا منہ تک اور بعض لوگ پسینے میں غوطے کھا رہے ہوں گے اور بعض لوگوں کا پسینہ منہ سے اوپر نصف کانوں تک ہوگا جس میں وہ ڈوبے ہوں گے۔ ’’اللهم انا نسئلک العافیة‘‘