مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 30

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَّيَةَ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ قُدَامَةَ بْنِ مُوسَى قَالَ: أَخْبَرَنِي رَجُلٌ، مِنْ بَنِي حَنْظَلَةَ، عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ، عَنْ يَسَارِ بْنِ نُمَيْرٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: رَآنِي ابْنُ عُمَرَ وَأَنَا أُصَلِّي هَذِهِ الصَّلَاةَ بَعْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ فَقَالَ: يَا يَسَارُ، كَمْ صَلَّيْتَ؟ فَقُلْتُ: لَا أَدْرِي، قَالَ: لَا دَرَيْتَ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلَيْنَا وَنَحْنُ نُصَلِّي هَذِهِ الصَّلَاةَ فَتَغَيَّظَ عَلَيْنَا وَقَالَ: «لِيُبَلِّغْ شَاهِدُكُمْ غَائِبَكُمْ، لَا صَلَاةَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ إِلَّا رَكْعَتَيْنِ»

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 30

کتاب باب یسار بن نمیر مولی ابن عمر کہتے ہیں ، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے نماز فجر کے بعد نماز پڑھتے دیکھا تو پوچھا: اے یسار! کتنی رکعات پڑھیں ؟ میں نے عرض کیا: مجھے معلوم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: آپ کو معلوم ہی نہیں ہے۔ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم یہ نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ نے ہم پر ناراضگی کااظہار کیا اور فرمایا: ’’تم میں سے جو موجود تمہارے غیر حاضر کو پہنچا دے۔ بے شک طلوع فجر کے بعد دو رکعات (سنت فجر) کے علاوہ (نفل) نماز نہیں ہے۔‘‘
تشریح : (1) نماز فجر کا وقت: اللہ رب العزت نے اہل ایمان پر پانچ نمازیں فرض کیں اور ان کے اوقات کا بھی تعین فرما دیا ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا ﴾ (النساء : 103) ’’بلاشبہ نماز مومنوں پر اس کے مقررہ وقت پر فرض کی گئی ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تمام نمازوں کے ابتدائی اور انتہائی اوقات سے آگاہ کیا اور فرمایا: ان دونوں اوقات کے درمیان کا وقت نماز کا وقت ہے۔( صحیح مسلم، المساجد، باب اوقات الصلوٰت الخمس : 614۔) نماز فجر کا وقت طلوع فجر سے لے کر طلوع آفتاب تک ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَوَقْتُ صَلَاةِ الصُّبْحِ مِنْ طُلُوعِ الْفَجْرِ مَا لَمْ تَطْلُعْ الشَّمْسُ))( صحیح مسلم، المساجد، باب اوقات الصلوة الخمس : 612۔) ’’اور نماز فجر کا وقت طلوع فجر سے لے کر طلوع آفتاب تک ہے۔‘‘ (2) سنت فجر کی اہمیت و فضیلت اور وقت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت فجر پر مداومت اختیارکی چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : ((لَمْ یَکُنِ النَّبِیُّ صلي اللّٰه عليه وسلم عَلَی شَیْئٍ مِنَ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مِنْهُ تَعَاهُدًا عَلَی رَکْعَتَیِ الْفَجْرِ))( صحیح بخاري، التهجد، باب تعاهد رکعتي الفجر ومن سماها تطوعا : 1169، صحیح مسلم، المساجد، باب استحباب رکعتي سُنة الفجر : 724۔) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نوافل میں سے سب سے زیادہ اہتمام فجر کی دو سنتوں کا فرماتے تھے۔‘‘ اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی دو سنتوں کو کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔( صحیح بخاري،ا لتهجد، باب المداومة علی رکعتي الفجر : 1159۔) سنت فجر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((رَکْعَتَا الْفَجْرِ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیهَا))( صحیح مسلم، المساجد، باب استحباب رکعتی سنة الفجر : 725۔) ’’فجر کی دو رکعتیں دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس سے بہتر و افضل ہیں ۔‘‘ فجر کی سنتوں کا وقت طلوع فجر کے بعد فجر کے فرائض سے پہلے ہے۔ لیکن اگرکوئی شخص پہلے سنتیں نہ پڑھ سکے اور فرائض کی جماعت کھڑی ہو جائے تو فرضوں کے بعد ان سنتوں کو پڑھنا درست ہے۔ سیدنا قیس بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں : ’’ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے اور اقامت ہو چکی تھی۔ میں نے آپ کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی، پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ختم کی تو مجھے دیکھا کہ میں نماز پڑھنے لگا ہوں تو پوچھا: ’’اے قیس! کیا دو نمازیں اکٹھی پڑھنے لگے ہو؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے فجر کی سنتیں نہیں پڑھی تھیں (اب وہ پڑھنے لگا ہوں ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر کوئی حرج نہیں ۔‘‘( سنن ترمذي، الصلاة، باب ما جاء فیمن تفوته الرکعتان … الخ : 422، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فجر کی جماعت کھڑی ہوجانے پر صحابہ کرام سنت فجر نہیں پڑھتے تھے۔ بلکہ وہ سنتیں رہ جانے پر انہیں فرضوں کے بعد ادا کر لیتے۔ (3) نماز کے ممنوعہ اوقات: وہ اوقات جن میں نماز پرھنا ممنوع ہے، تین ہیں ۔ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں تین اوقات میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنے اور مردوں کو دفن کرنے سے منع کیا، جب سورج طلوع ہو رہا ہو یہاں تک کہ مکمل طلوع ہو جائے، جب دوپہر کے وقت سورج سیدھا سر پر ہو حتی کہ زوال ہو جائے اور جب سورج غروب ہونے لگے یہاں تک کہ مکمل غروب ہو جائے۔( صحیح مسلم، صلاة المسافرین، باب الاوقات التي نهي عن الصلاة فیها : 831۔) جبکہ طلوع فجر کے بعد نماز فجر کے علاوہ نوافل پڑھنے اور عصر کے بعد سورج کے زردی مائل ہونے کے بعد نوافل وغیرہ پڑھنے کی بھی ممانعت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے فرمایاتھا: ((صَلِّ صَلٰوةَ الصُّبْحِ ثُمَّ أَقْصِرْ عَنِ الصَّلٰوةِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ حَتّٰی تَرْتَفِعَ))( صحیح مسلم، صلاة المسافرین، باب اسلام عمرو بن عبسة : 832۔) ’’صبح کی نماز پڑھ، پھر سورج کے طلوع ہوکر بلند ہونے تک نماز سے رک جا۔‘‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ((نَهٰی رَسُوْلُ اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم عَنْ صَلَاةٍِ بَعْدَ الْعَصْرِ اِلَّا اَنْ تَکُوْنَ الشَّمْسُ بَیْضَائَ نَقِیَّةٌ مُرْتَفِعَةً))( سنن نسائي، المواقیت، باب الرخصة في الصلوة بعد العصر : 573، سنن ابي داؤد، الصلاة، باب من رخص فیهما اذا کانت الشمس مرتفعة : 1274۔) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا سوائے اس کے کہ سورج سفید، صاف اور بلند ہو۔‘‘ (4)… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’غائبکم‘‘ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اس وقت اس مجلس میں موجود نہ تھا بلکہ کسی دوسری جگہ تھے۔ اسی طرح وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اس زمانہ میں نہ تھے بلکہ بعد میں آئے۔ اس سے تبلیغ دین کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے کیونکہ اسی ذریعہ سے پہلوں کا علم و عمل بعد والوں میں منتقل ہوتا ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ارشادات نبویہ تابعین رحمہم اللہ کو اور انہوں نے تبع تابعین کو سنائے۔ اسی طرح یہ سلسلہ قیامت تک قائم رہے گا اور دین اسلام کے اساسی اصول، اسلام کے پیروکار قیام قیامت تک رہیں گے۔ (5)… خلاف شرع امور پر اظہار ناراضگی ایمانی غیرت کا تقاضا ہے اوریہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے۔ (6):… عہد صحابہ میں خیر غالب تھی۔ صحابہ کرام جب بھی کوئی ایسا امر دیکھتے جو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہوتا، کرنے والے کو فوراً روکتے اور سنت کی تعلیم دیتے تھے۔
تخریج : سنن ابي داؤد، التطوع، باب من رخص فیها اذا کانت الشمس مرتفعة، رقم الحدیث : 1278، سنن ترمذي ، الصلاة، باب ما جاء لا صلاة بعد طلوع الفجر الا رکعتین، رقم الحدیث : 419، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘ـ‘ کہا ہے۔ (1) نماز فجر کا وقت: اللہ رب العزت نے اہل ایمان پر پانچ نمازیں فرض کیں اور ان کے اوقات کا بھی تعین فرما دیا ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا ﴾ (النساء : 103) ’’بلاشبہ نماز مومنوں پر اس کے مقررہ وقت پر فرض کی گئی ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تمام نمازوں کے ابتدائی اور انتہائی اوقات سے آگاہ کیا اور فرمایا: ان دونوں اوقات کے درمیان کا وقت نماز کا وقت ہے۔( صحیح مسلم، المساجد، باب اوقات الصلوٰت الخمس : 614۔) نماز فجر کا وقت طلوع فجر سے لے کر طلوع آفتاب تک ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَوَقْتُ صَلَاةِ الصُّبْحِ مِنْ طُلُوعِ الْفَجْرِ مَا لَمْ تَطْلُعْ الشَّمْسُ))( صحیح مسلم، المساجد، باب اوقات الصلوة الخمس : 612۔) ’’اور نماز فجر کا وقت طلوع فجر سے لے کر طلوع آفتاب تک ہے۔‘‘ (2) سنت فجر کی اہمیت و فضیلت اور وقت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت فجر پر مداومت اختیارکی چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : ((لَمْ یَکُنِ النَّبِیُّ صلي اللّٰه عليه وسلم عَلَی شَیْئٍ مِنَ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مِنْهُ تَعَاهُدًا عَلَی رَکْعَتَیِ الْفَجْرِ))( صحیح بخاري، التهجد، باب تعاهد رکعتي الفجر ومن سماها تطوعا : 1169، صحیح مسلم، المساجد، باب استحباب رکعتي سُنة الفجر : 724۔) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نوافل میں سے سب سے زیادہ اہتمام فجر کی دو سنتوں کا فرماتے تھے۔‘‘ اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی دو سنتوں کو کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔( صحیح بخاري،ا لتهجد، باب المداومة علی رکعتي الفجر : 1159۔) سنت فجر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((رَکْعَتَا الْفَجْرِ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیهَا))( صحیح مسلم، المساجد، باب استحباب رکعتی سنة الفجر : 725۔) ’’فجر کی دو رکعتیں دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس سے بہتر و افضل ہیں ۔‘‘ فجر کی سنتوں کا وقت طلوع فجر کے بعد فجر کے فرائض سے پہلے ہے۔ لیکن اگرکوئی شخص پہلے سنتیں نہ پڑھ سکے اور فرائض کی جماعت کھڑی ہو جائے تو فرضوں کے بعد ان سنتوں کو پڑھنا درست ہے۔ سیدنا قیس بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں : ’’ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے اور اقامت ہو چکی تھی۔ میں نے آپ کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی، پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ختم کی تو مجھے دیکھا کہ میں نماز پڑھنے لگا ہوں تو پوچھا: ’’اے قیس! کیا دو نمازیں اکٹھی پڑھنے لگے ہو؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے فجر کی سنتیں نہیں پڑھی تھیں (اب وہ پڑھنے لگا ہوں ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر کوئی حرج نہیں ۔‘‘( سنن ترمذي، الصلاة، باب ما جاء فیمن تفوته الرکعتان … الخ : 422، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فجر کی جماعت کھڑی ہوجانے پر صحابہ کرام سنت فجر نہیں پڑھتے تھے۔ بلکہ وہ سنتیں رہ جانے پر انہیں فرضوں کے بعد ادا کر لیتے۔ (3) نماز کے ممنوعہ اوقات: وہ اوقات جن میں نماز پرھنا ممنوع ہے، تین ہیں ۔ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں تین اوقات میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنے اور مردوں کو دفن کرنے سے منع کیا، جب سورج طلوع ہو رہا ہو یہاں تک کہ مکمل طلوع ہو جائے، جب دوپہر کے وقت سورج سیدھا سر پر ہو حتی کہ زوال ہو جائے اور جب سورج غروب ہونے لگے یہاں تک کہ مکمل غروب ہو جائے۔( صحیح مسلم، صلاة المسافرین، باب الاوقات التي نهي عن الصلاة فیها : 831۔) جبکہ طلوع فجر کے بعد نماز فجر کے علاوہ نوافل پڑھنے اور عصر کے بعد سورج کے زردی مائل ہونے کے بعد نوافل وغیرہ پڑھنے کی بھی ممانعت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے فرمایاتھا: ((صَلِّ صَلٰوةَ الصُّبْحِ ثُمَّ أَقْصِرْ عَنِ الصَّلٰوةِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ حَتّٰی تَرْتَفِعَ))( صحیح مسلم، صلاة المسافرین، باب اسلام عمرو بن عبسة : 832۔) ’’صبح کی نماز پڑھ، پھر سورج کے طلوع ہوکر بلند ہونے تک نماز سے رک جا۔‘‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ((نَهٰی رَسُوْلُ اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم عَنْ صَلَاةٍِ بَعْدَ الْعَصْرِ اِلَّا اَنْ تَکُوْنَ الشَّمْسُ بَیْضَائَ نَقِیَّةٌ مُرْتَفِعَةً))( سنن نسائي، المواقیت، باب الرخصة في الصلوة بعد العصر : 573، سنن ابي داؤد، الصلاة، باب من رخص فیهما اذا کانت الشمس مرتفعة : 1274۔) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا سوائے اس کے کہ سورج سفید، صاف اور بلند ہو۔‘‘ (4)… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’غائبکم‘‘ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اس وقت اس مجلس میں موجود نہ تھا بلکہ کسی دوسری جگہ تھے۔ اسی طرح وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اس زمانہ میں نہ تھے بلکہ بعد میں آئے۔ اس سے تبلیغ دین کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے کیونکہ اسی ذریعہ سے پہلوں کا علم و عمل بعد والوں میں منتقل ہوتا ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ارشادات نبویہ تابعین رحمہم اللہ کو اور انہوں نے تبع تابعین کو سنائے۔ اسی طرح یہ سلسلہ قیامت تک قائم رہے گا اور دین اسلام کے اساسی اصول، اسلام کے پیروکار قیام قیامت تک رہیں گے۔ (5)… خلاف شرع امور پر اظہار ناراضگی ایمانی غیرت کا تقاضا ہے اوریہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے۔ (6):… عہد صحابہ میں خیر غالب تھی۔ صحابہ کرام جب بھی کوئی ایسا امر دیکھتے جو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہوتا، کرنے والے کو فوراً روکتے اور سنت کی تعلیم دیتے تھے۔