مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 28

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَّيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ، عَنْ سِنَانِ بْنِ هَارُونَ، عَنْ كُلَيْبٍ قَالَ مَرَّةً: ابْنِ وَائِلٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِتْنَةً، وَمَرَّ رَجُلٌ مُقَنَّعٌ قَالَ: «يُقْتَلُ هَذَا مَظْلُومًا» ، فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَحِمَهُ اللَّهُ

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 28

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنے کا تذکرہ کیا تو ایک آدمی چہرے کو ڈھانپے وہاں سے گزرا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس سے متعلق) فرمایا: ’’یہ مظلوم قتل کیا جائے گا۔‘‘ میں نے انہیں دیکھا تو وہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے۔
تشریح : (1) فتنوں سے متعلق خبردار کرنے کی حکمتیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بہت سارے فرامین میں آئندہ وقوع پذیر ہونے والے فتنوں کی نشاندہی فرمائی۔جن کا آپ کی پیش گوئیوں کے عین مطابق ظہور ہوا۔ ان فتنوں سے متعلق خبردار کرنے کی بہت ساری حکمتیں ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں : (i) ان فتنوں کی خبر دے کر آپ نے اپنی امت کو خبردار کیا تاکہ وہ ان کا ارتکاب نہ کریں ۔ (ii) ان فتنوں کی خبر دی گئی تاکہ خیر و شر کی معرفت حاصل ہو سکے۔ (iii) فتنوں کی خبر دے کر ان سے احسن انداز سے نمٹنے کی تیاری کا موقع دیا گیا تاکہ اہل ایمان اور اہل نفاق کا امتیاز ہو سکے۔ (iv) مستقبل میں پیش آنے والے حوادث و واقعات کی نشاندہی پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کے دلائل وبراہین میں سے ہے۔ جن صحابہ نے ان کا مشاہدہ کیا ان کا ایمان مزید پختہ ہوا۔ اسی طرح ہر دورمیں ہر مومن کے ایمان میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ جو ان فتنوں اور حوادث کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کے مطابق مشاہدہ کرے گا۔ (v) فتنوں کے ظہور سے متعلق امت محمدیہ علی صاحبہا الصلٰوۃ والسلام کو خبردار کر کے یہ بات سمجھائی گئی کہ اقوام وملل کے درمیان فتنوں کا رونما ہونا سنن الٰہیہ اور قانون فطرت ہے۔ درج بالا حکم کے علاوہ اور بھی بہت ساری حکمتیں اہل علم نے بیان کی ہیں ، جن کی تفصیل متعلقہ کتب میں دیکھی جا سکتی ہے۔ (2) فتنہ شہادت عثمان رضی اللہ عنہ : سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ قریباً بارہ سال تک امیر المؤمنین رہے اور آغاز میں آپ کی خلافت و امارت انتہائی مستحکم تھی اور آپ پر کسی کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ عہد عثمانی کے نصف ثانی یعنی آخری چھ سالوں میں بہت جگہوں پر ایسی شورشیں بپا ہونا شروع ہوگئیں جو فتنۂ شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کا باعث ٹھہریں ۔ اللہ رب العزت نے اس فتنہ کے موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنی خاص رحمت سے محفوظ رکھا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والے سبھی فسادی تھے۔ ان میں کوئی بھی صحابی شریک نہ تھا۔ شریک ہونا تو کجا کسی صحابی نے اس قتل کی تحسین و تائید بھی نہ کی چنانچہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’وَاَمَّا مَا یَذْکُرُهٗ بَعْضُ النَّاسِ مِنْ أَنَّ بَعْضَ الصَّحَابَةِ اَسْلَمَهٗ وَرَضِیَ بِقَتْلِهٖ فَهَذَا لَا یَصِحُّ عَنْ اَحَدٍ مِّنَ الصَّحَابَةِ أَنَّهٗ رَضِیَ بِقَتْلِ عُثْمَانَ رضي اللّٰه عنه ، بَلْ کُلُّهُمْ کَرِهَهٗ وَمَقَتَهٗ وَسَبَّ مَنْ فَعَلَهٗ۔‘‘( البدایة والنهاية : 7/198۔) ’’بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ بعض صحابہ نے عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کو تسلیم کیا اور وہ ان کے قتل میں راضی تھے تو کسی ایک صحابی سے بھی یہ ثابت نہیں کہ وہ ان کے قتل پر خوش ہو بلکہ سب صحابہ نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور اس فعل کی مذمت کی اور یہ کام کرنے والوں کومعلون قرار دیا۔‘‘ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے متعلق مشہور ہے کہ وہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ میں سے تھے جبکہ یہ بات غلط ہے۔ پایا ثبوت کو نہیں پہنچتی، بلکہ انصاف پسند مؤرخین نے اس بات کی نفی کی ہے۔ (3) فضیلت عثمان رضی اللہ عنہ : سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا تعلق بنو امیہ سے تھا، آپ کی کنیت ابو عبد اللہ تھی جبکہ ذوالنورین کے لقب سے شہرت پائی۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سابقون الاولون صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہیں ۔ ہجرت حبشہ کا اعزاز بھی پایا اور مہاجر مدینہ بھی بنے۔ یکے بعد دیگرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں آپ کے نکاح میں آئیں ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ قبل از اسلام قریش اور اہل مکہ میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد آپ کے اوصاف حمیدہ میں مزید نکھار آیا۔ زبان نبوت سے ان کی شان و عظمت میں بے شمار فرمودات جاری ہوئے۔ آپ کو متعدد بار جنت کی بشارت سنائی گئی۔ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بعد صحابہ کرام میں سب سے زیادہ لائق احترام اور قابل عظمت سمجھے جاتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد بار ان کوشہادت کی بشارت سنائی، جو حکم الٰہی سے پوری ہوئی اور عثمان رضی اللہ عنہ دنیا سے رخصتی کے وقت بھی حسن خاتمہ کی عظیم ترین نشانی شہادت جیسی موت پا کر اللہ کی جنت کو سدھار گئے۔ یہ رتبہ ملا جسے مل گیا ہر مدعی کے واسطے یہ دار و سن کہاں (4) مظلومانہ شہادت: تاریخ اسلام میں بہت سارے کرب ناک واقعات ہیں جن کو پڑھنے یا سننے کے بعد مؤمن و مسلمان کا دل پسیج جاتا ہے انہیں واقعات میں سے ایک واقعہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کا ہے۔ کئی روز تک گھر میں محصور رہے۔ ضروریات زندگی تک رسائی ناممکن بنا دی گئی، مدینہ اور اہل مدینہ کو فسادیوں اور فتنہ پرور لوگوں نے یرغمال بنا لیا، معمولات زندگی منقطع ہو گئے تھے۔ مدینہ پر باغیوں کا قبضہ تھا۔ بدامنی کی وجہ سے کوئی بھی گھر سے نکلنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔ بالآخر ان لوگوں نے 18 ذی الحجہ 35ھ کو خلیفہ ثالث، دامادِ رسول کو شہید کردیا۔
تخریج : سنن ترمذي، المناقب، باب قولهم: کنا نقول : ابوبكر و عمر و عثمان، رقم الحدیث : 3708، مسند احمد : 10/169، رقم الحدیث : 5953، محدث البانی نے اسے ’’حسن الإسناد‘‘ قرار دیا ہے۔ (1) فتنوں سے متعلق خبردار کرنے کی حکمتیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بہت سارے فرامین میں آئندہ وقوع پذیر ہونے والے فتنوں کی نشاندہی فرمائی۔جن کا آپ کی پیش گوئیوں کے عین مطابق ظہور ہوا۔ ان فتنوں سے متعلق خبردار کرنے کی بہت ساری حکمتیں ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں : (i) ان فتنوں کی خبر دے کر آپ نے اپنی امت کو خبردار کیا تاکہ وہ ان کا ارتکاب نہ کریں ۔ (ii) ان فتنوں کی خبر دی گئی تاکہ خیر و شر کی معرفت حاصل ہو سکے۔ (iii) فتنوں کی خبر دے کر ان سے احسن انداز سے نمٹنے کی تیاری کا موقع دیا گیا تاکہ اہل ایمان اور اہل نفاق کا امتیاز ہو سکے۔ (iv) مستقبل میں پیش آنے والے حوادث و واقعات کی نشاندہی پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کے دلائل وبراہین میں سے ہے۔ جن صحابہ نے ان کا مشاہدہ کیا ان کا ایمان مزید پختہ ہوا۔ اسی طرح ہر دورمیں ہر مومن کے ایمان میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ جو ان فتنوں اور حوادث کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کے مطابق مشاہدہ کرے گا۔ (v) فتنوں کے ظہور سے متعلق امت محمدیہ علی صاحبہا الصلٰوۃ والسلام کو خبردار کر کے یہ بات سمجھائی گئی کہ اقوام وملل کے درمیان فتنوں کا رونما ہونا سنن الٰہیہ اور قانون فطرت ہے۔ درج بالا حکم کے علاوہ اور بھی بہت ساری حکمتیں اہل علم نے بیان کی ہیں ، جن کی تفصیل متعلقہ کتب میں دیکھی جا سکتی ہے۔ (2) فتنہ شہادت عثمان رضی اللہ عنہ : سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ قریباً بارہ سال تک امیر المؤمنین رہے اور آغاز میں آپ کی خلافت و امارت انتہائی مستحکم تھی اور آپ پر کسی کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ عہد عثمانی کے نصف ثانی یعنی آخری چھ سالوں میں بہت جگہوں پر ایسی شورشیں بپا ہونا شروع ہوگئیں جو فتنۂ شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کا باعث ٹھہریں ۔ اللہ رب العزت نے اس فتنہ کے موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنی خاص رحمت سے محفوظ رکھا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والے سبھی فسادی تھے۔ ان میں کوئی بھی صحابی شریک نہ تھا۔ شریک ہونا تو کجا کسی صحابی نے اس قتل کی تحسین و تائید بھی نہ کی چنانچہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’وَاَمَّا مَا یَذْکُرُهٗ بَعْضُ النَّاسِ مِنْ أَنَّ بَعْضَ الصَّحَابَةِ اَسْلَمَهٗ وَرَضِیَ بِقَتْلِهٖ فَهَذَا لَا یَصِحُّ عَنْ اَحَدٍ مِّنَ الصَّحَابَةِ أَنَّهٗ رَضِیَ بِقَتْلِ عُثْمَانَ رضي اللّٰه عنه ، بَلْ کُلُّهُمْ کَرِهَهٗ وَمَقَتَهٗ وَسَبَّ مَنْ فَعَلَهٗ۔‘‘( البدایة والنهاية : 7/198۔) ’’بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ بعض صحابہ نے عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کو تسلیم کیا اور وہ ان کے قتل میں راضی تھے تو کسی ایک صحابی سے بھی یہ ثابت نہیں کہ وہ ان کے قتل پر خوش ہو بلکہ سب صحابہ نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور اس فعل کی مذمت کی اور یہ کام کرنے والوں کومعلون قرار دیا۔‘‘ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے متعلق مشہور ہے کہ وہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ میں سے تھے جبکہ یہ بات غلط ہے۔ پایا ثبوت کو نہیں پہنچتی، بلکہ انصاف پسند مؤرخین نے اس بات کی نفی کی ہے۔ (3) فضیلت عثمان رضی اللہ عنہ : سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا تعلق بنو امیہ سے تھا، آپ کی کنیت ابو عبد اللہ تھی جبکہ ذوالنورین کے لقب سے شہرت پائی۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سابقون الاولون صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہیں ۔ ہجرت حبشہ کا اعزاز بھی پایا اور مہاجر مدینہ بھی بنے۔ یکے بعد دیگرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں آپ کے نکاح میں آئیں ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ قبل از اسلام قریش اور اہل مکہ میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد آپ کے اوصاف حمیدہ میں مزید نکھار آیا۔ زبان نبوت سے ان کی شان و عظمت میں بے شمار فرمودات جاری ہوئے۔ آپ کو متعدد بار جنت کی بشارت سنائی گئی۔ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بعد صحابہ کرام میں سب سے زیادہ لائق احترام اور قابل عظمت سمجھے جاتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد بار ان کوشہادت کی بشارت سنائی، جو حکم الٰہی سے پوری ہوئی اور عثمان رضی اللہ عنہ دنیا سے رخصتی کے وقت بھی حسن خاتمہ کی عظیم ترین نشانی شہادت جیسی موت پا کر اللہ کی جنت کو سدھار گئے۔ یہ رتبہ ملا جسے مل گیا ہر مدعی کے واسطے یہ دار و سن کہاں (4) مظلومانہ شہادت: تاریخ اسلام میں بہت سارے کرب ناک واقعات ہیں جن کو پڑھنے یا سننے کے بعد مؤمن و مسلمان کا دل پسیج جاتا ہے انہیں واقعات میں سے ایک واقعہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کا ہے۔ کئی روز تک گھر میں محصور رہے۔ ضروریات زندگی تک رسائی ناممکن بنا دی گئی، مدینہ اور اہل مدینہ کو فسادیوں اور فتنہ پرور لوگوں نے یرغمال بنا لیا، معمولات زندگی منقطع ہو گئے تھے۔ مدینہ پر باغیوں کا قبضہ تھا۔ بدامنی کی وجہ سے کوئی بھی گھر سے نکلنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔ بالآخر ان لوگوں نے 18 ذی الحجہ 35ھ کو خلیفہ ثالث، دامادِ رسول کو شہید کردیا۔