مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 27

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَّيَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ أَبِي يَزِيدَ، حَدَّثَنَا الْهَيَّاجُ بْنُ بِسْطَامٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشْتَرِ فَقَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَعِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطِيعٍ حِينَ هَاجَ هَيْجَةَ النَّاسِ مَعَ ابْنِ الزُّبَيْرِ عَلَى يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ إِذْ دَخَلَ عَلَيْهِ ابْنُ عُمَرَ فَأَمَرَ بِوِسَادَةٍ فَبُسِطَتْ لَهُ، فَقَالَ: إِنِّي لَمْ آتِكَ لِأَجْلِسَ، وَلَكِنِّي أَرَدْتُ أَنْ أُحَدِّثَكَ عَمَّا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ خَلَعَ الطَّاعَةَ لَقِيَ اللَّهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ لَا طَاعَةَ عَلَيْهِ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً» ، قَالَ ثُمَّ انْصَرَفَ

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 27

کتاب باب عبد اللہ بن اشتر کہتے ہیں : اللہ کی قسم! میں عبد اللہ بن مطیع کے پاس تھا جب عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ وہ یزید بن معاویہ پر حملہ آور ہوئے کہ ان کے پاس عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے انہوں نے تکیہ منگوایا جو ان کو پیش کیا گیا، تو انہوں نے فرمایا: میں آپ کے پاس بیٹھنے کے لیے نہیں آیا، بلکہ میں نے آپ کو ایک حدیث سنانے کا ارادہ کیا، جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی۔ میں گواہی دیتا ہوں یقینا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ’’جس نے (حکمران کی) اطاعت کو چھوڑ دیا وہ اللہ سے قیامت کے دن ملے گا تو اس کے پاس (نجات کی) دلیل نہ ہوگی اور جو کسی کی اطاعت کے بغیر فوت ہوا وہ جاہلیت کی موت فوت ہوا۔‘‘ وہ (عبد اللہ بن عمر) پھر واپس تشریف لے گئے۔
تشریح : (1) عبد اللہ بن مطیع رضی اللہ عنہ : عبداللہ بن مطیع بن اسود قریشی کی کنیت ابو سلیمان تھی۔ عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں پیدا ہوئے۔ یہ قریش کے بہادر وشجاع لوگوں میں سے تھے۔ واقعہ حرہ میں یہ قریش کے گروہ کے مسلم بن عقبہ کے مقابلہ میں سپہ سالار تھے۔ جبکہ عبد اللہ بن حنظلہ غسیل الملائکۃ گروہ انصار کے قائد تھے۔ عبداللہ بن مطیع نے 73ھ کو مکہ میں وفات پائی۔ (2) واقعہ حرہ: اسلامی تاریخ کے تاریک واقعات میں ایک واقعہ حرہ ہے۔ یزید بن معاویہ کے دور حکومت کے آخری دنوں میں 63ھ کو سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد یہ واقعہ پیش آیا۔ اس واقعہ کا پس منظر یوں ہے کہ اہل مدینہ کو جب یزید سے متعلق بعض غیر شرعی امور کے ارتکاب کی اطلاع ملی تو انہوں نے اس کی بیعت فسخ کرنے کا اعلان کر دیا اور اس کے گورنر کو مدینہ سے نکال دیا۔ نتیجتاً یزید نے مسلم بن عقبہ کی قیادت میں دس سے پندرہ ہزار افراد پر مشتمل ایک لشکر مدینہ کی طرف روانہ کیا اور اہل مدینہ کو دوبارہ بیعت کرنے کا کہا لیکن انہوں نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا۔ یزید کے لشکر اور اہل مدینہ کے درمیان خون زیر لڑائی ہوئی جس میں کئی انصار و مہاجرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی شہید ہوئے اور اہل مدینہ کا بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا۔ کبار تابعی سیدنا سعید بن المسیب رحمہ اللہ سے مروی ہے، فتنہ اولیٰ یعنی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے سانحہ نے اصحاب بدر میں سے کسی کو نہیں چھوڑا اور فتنۂ ثانیہ یعنی واقعہ حرہ نے صلح حدیبیہ والوں میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا۔( صحیح بخاري، کتاب المغازي، باب شهود الملائکة بدرا : 4024۔) (3) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور یزید بن معاویہ کی بیعت: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ خلافت اور امور خلافت سے ہمیشہ دور رہے۔ ان کی زندگی میں اس سلسلہ میں جتنے ہی فتنے رونما ہوئے۔ آپ ہمیشہ غیر جانبدار رہے۔ آپ ولاۃ الامور (مسلم حکمرانوں ) کے خلاف خروج کو انتہائی ناپسند کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے یزید بن معاویہ کی بیعت کی اور اس کو توڑنے سے انکار کر دیا۔ سیدنا نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : ((لَمَّا خَلَعَ أَهْلُ الْمَدِینَةِ یَزِیدَ بْنَ مُعَاوِیَةَ جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ حَشَمَهُ وَوَلَدَهُ فَقَالَ: إِنِّی سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: یُنْصَبُ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَائٌ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَإِنَّا قَدْ بَایَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ عَلَی بَیْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّی لَا أَعْلَمُ غَدْرًا أَعْظَمَ مِنْ أَنْ یُبَایَعَ رَجُلٌ عَلَی بَیْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ یُنْصَبُ لَهُ الْقِتَالُ، وَإِنِّی لَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِنْکُمْ خَلَعَهُ وَلَا بَایَعَ فِی هَذَا الْأَمْرِ إِلَّا کَانَتِ الْفَیْصَلَ بَیْنِی وَبَیْنَهُ))۔ ’’جب اہل مدینہ نے یزید بن معاویہ کی بیعت کو توڑا تو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے خادموں اور بچوں کو جمع کیااور کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ’’ہر دھوکہ دینے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا۔‘‘ یقینا ہم نے اس آدمی کی اللہ اور اس کے رسول کے نام پر بیعت کی ہے اور میرے علم کے مطابق اس سے بڑھ کر کوئی غدر (دھوکہ) نہیں کہ کسی شخص کی اللہ اور اس کے رسول کے نام پر بیعت کی جائے اور پھر اس کے خلاف جنگ کی جائے۔ اور جو کوئی تم میں سے اس کی بیعت توڑ کر کسی دوسرے کی بیعت خلافت کرتا ہے تو میرے اور اس کے درمیان کوئی تعلق نہیں ، میں اس سے علیحدہ ہوں ۔( صحیح بخاري، الفتن، باب اذا قال عند قوم شیئا ثم خرج… الخ : 7111۔) یہی وجہ تھی کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، عبد اللہ بن مطیع رضی اللہ عنہ کو سمجھانے کے لیے تشریف لائے اور انہیں یزید کی بیعت ختم کرنے سے منع کیا۔ (4) سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا مقام: سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ عظیم المرتبت صحابی رسول ہیں ۔ آپ کو کتاب وسنت کے ساتھ خاص شغف تھا۔ احادیث رسول پر اتباع و پیروی کے لیے ہر وقت مستعد رہتے۔ کتاب وسنت پر سختی سے عمل کرتے اور جب خلاف شرع کوئی امر دیکھتے تو ضرور روکتے اور ایسے اعمال بجا لانے والوں کی اصلاح فرماتے تھے۔ مذکورہ واقعہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن مطیع رضی اللہ عنہ کے عمل کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جانا تو ان کو حدیث سنائی اور تشریف لے گئے۔ سلف صالحین کا طریقۂ دعوت و اصلاح یہی رہا کہ احکام شرع کی تبلیغ کرتے، لوگوں کو کتاب وسنت کی باتیں سناتے اورانہیں عمل پر ابھارتے تھے۔ عبداللہ بن مطیع رضی اللہ عنہ نے کمال ادب وا حترام سے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا استقبال کیا اور انہیں عزت کے ساتھ بٹھایا جس سے ابن عمر رضی اللہ عنہ کا مقام و رتبہ اور ان کی عظمت و شان نمایاں ہوتی ہے۔ (5) حاکم وقت کی اطاعت: اللہ رب العزت نے اولی الامر کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ﴾ (النساء : 59) ’’اے ایمان والو! اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور ان کا بھی جو تم میں سے حکم دینے والے ہیں ۔‘‘ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ أَطَاعَنِی فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَانِی فَقَدْ عَصَی اللَّهَ، وَمَنْ یُطِعِ الْأَمِیرَ فَقَدْ أَطَاعَنِی، وَمَنْ یَعْصِ الْأَمِیرَ فَقَدْ عَصَانِی))( صحیح بخاري، الجهاد، باب یقاتل …الخ، رقم : 2957، صحیح مسلم، الامارة، باب وجوب اطاعة الامراء : 1835۔) ’’جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے یقینا اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی یقینا اس نے میری نافرمانی کی۔‘‘ اولی الامر جب تک خیر و بھلائی کی با ت کرتے رہیں ، فرض نمازوں کی پابندی کریں ، واضح کفر کا ارتکاب نہ کریں ان کی اطاعت لازم ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَی الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِیمَا أَحَبَّ وَکَرِہَ مَا لَمْ یُؤْمَرْ بِمَعْصِیَةٍ فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِیَةٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ))( صحیح بخاري، الأحکام، باب السمع والطاعة الأمام … الخ : 7144، صحیح مسلم،ا لامارۃ، باب وجوب طاعةالأمراء … الخ : 1839۔) ’’ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ہر کام میں خواہ اسے پسند ہو یاناپسند سمع و اطاعت بجا لائے، بشرطیکہ اسے کسی معصیت کا حکم نہ دیا گیا ہو اور اگر اسے کسی معصیت کے کام کا حکم دیا گیا ہو تو اس میں سمع و طاعت نہیں ۔‘‘ (6) حکمران کی خیر خواہی اور اس کے ظلم پر صبر کرنا: حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((الدِّیْنُ النَّصِیحَةُ قُلْنَا لِمَنْ؟ قَالَ: لِلّٰهِ وَلِکِتَابِه وَلِرَسُولِه وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِینَ وَعَآمَّتِهِم))( صحیح مسلم، الایمان، باب بیان الدین النصیحة، رقم : 55۔) ’’دین خیر خواہی کا نام ہے۔ ہم نے کہا کس کے لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے حکام کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے۔‘‘ آئمہ مسلمین کے حق میں نصیحت و خیر خواہی یہ ہے کہ انہیں اچھے مشورے دئیے جائیں ، ظلم و تعدی سے روکا جائے اور ان کے خلاف خروج و بغاوت نہ کی جائے۔ اگر حکمران ظلم و زیادتی کرے تو ا س کے ظلم پر صبر کرنا چاہیے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ رَأَی مِنْ أَمِیرِهِ شَیْئًا یَکْرَهُهُ فَلْیَصْبِرْ عَلَیْهِ فَإِنَّهُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَمَاتَ مِیْتَةٌ جَاهِلِیَّةٌ۔))( صحیح بخاري، الأحکام، باب السمع والطاعة … الخ : 7143، صحیح مسلم، الامارة، باب وجوب ملازمة جماعة المسلمین … الخ : 1849۔) ’’جس نے اپنے امیر میں کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھی تو اسے صبر کرنا چاہیے بلاشبہ جس نے جماعت سے ایک بالشت برابر بھی علیحدگی اختیار کی اور وہ فوت ہو گیا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔‘‘ (7) جاہلیت کی موت: زمانۂ جاہلیت میں لوگ بے ربط زندگی گزارتے تھے۔ نظم و ضبط ان کی زندگی سے عنقا تھا۔ دین اسلام نے اپنے ماننے والوں کو منظم و مربوط زندگی گزارنے کا پابند کیا اور اسلامی سلطنت کے امیر و خلیفہ کی بیعت و اطاعت ہر ایک کے لیے لازم ٹھہری۔ امیر کی بیعت توڑنے پر سخت وعیدیں سنائی گئیں ۔ فی زمانہ ایسی بہت سی جماعتیں اور تنظیمیں موجود ہیں جن کے کارکن امیر و خلیفہ سے متعلقہ احادیث کو اپنے امراء و ناظمین اورجماعتی صدور پر چسپاں کرتے ہیں جبکہ یہ امراء و ناظمین ان احادیث کے ہرگز مصداق نہیں اور نہ ہی ان کی امارت و بیعت سے الگ رہنے والے ان وعیدوں کے زمرے میں آتے ہیں ۔ (8) ’’میتة جاهلیة‘‘ سے مراد: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’وَالْمُرَادُ بِالْمَیْتَةِ الْجَاهِلِیَّةِ حَالَةُ الْمَوْتِ کَمَوْتِ اَهْلِ الْجَاهلِیَّةِ عَلَی ضَلَالِ وَلَیْسَ لَهٗ اِمَامٌ مُطَاعٌ، لِأَنَّهُمْ کَانُوْا لَا یَعْرَفُوْنَ ذٰلِكَ وَلَیْسَ الْمُرادُ اِنَّهٔ یَمُوْتُ کَافِرًا بَلْ یَمُوْتُ عَاصِیًا‘‘(فتح الباري : 9/47۔) ’’میتہ الجاہلیۃ سے مراد یہ ہے کہ ا س کی موت اہل جاہلیت کی طرح گمراہی و ضلالت پر ہوگی جس کا کوئی امیر نہ ہوگا جس کی وہ اطاعت میں ہو۔ا س لیے کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ اس سے واقفیت نہیں رکھتے تھے اور اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ وہ کافر مرے گا بلکہ وہ نافرمانی کی حالت میں موت ہوگی۔‘‘
تخریج : صحیح مسلم، الامارة، باب وجوب ملازمة جماعة المسلمین … الخ : 1851، عن نافع وأسلم۔ (1) عبد اللہ بن مطیع رضی اللہ عنہ : عبداللہ بن مطیع بن اسود قریشی کی کنیت ابو سلیمان تھی۔ عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں پیدا ہوئے۔ یہ قریش کے بہادر وشجاع لوگوں میں سے تھے۔ واقعہ حرہ میں یہ قریش کے گروہ کے مسلم بن عقبہ کے مقابلہ میں سپہ سالار تھے۔ جبکہ عبد اللہ بن حنظلہ غسیل الملائکۃ گروہ انصار کے قائد تھے۔ عبداللہ بن مطیع نے 73ھ کو مکہ میں وفات پائی۔ (2) واقعہ حرہ: اسلامی تاریخ کے تاریک واقعات میں ایک واقعہ حرہ ہے۔ یزید بن معاویہ کے دور حکومت کے آخری دنوں میں 63ھ کو سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد یہ واقعہ پیش آیا۔ اس واقعہ کا پس منظر یوں ہے کہ اہل مدینہ کو جب یزید سے متعلق بعض غیر شرعی امور کے ارتکاب کی اطلاع ملی تو انہوں نے اس کی بیعت فسخ کرنے کا اعلان کر دیا اور اس کے گورنر کو مدینہ سے نکال دیا۔ نتیجتاً یزید نے مسلم بن عقبہ کی قیادت میں دس سے پندرہ ہزار افراد پر مشتمل ایک لشکر مدینہ کی طرف روانہ کیا اور اہل مدینہ کو دوبارہ بیعت کرنے کا کہا لیکن انہوں نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا۔ یزید کے لشکر اور اہل مدینہ کے درمیان خون زیر لڑائی ہوئی جس میں کئی انصار و مہاجرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی شہید ہوئے اور اہل مدینہ کا بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا۔ کبار تابعی سیدنا سعید بن المسیب رحمہ اللہ سے مروی ہے، فتنہ اولیٰ یعنی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے سانحہ نے اصحاب بدر میں سے کسی کو نہیں چھوڑا اور فتنۂ ثانیہ یعنی واقعہ حرہ نے صلح حدیبیہ والوں میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا۔( صحیح بخاري، کتاب المغازي، باب شهود الملائکة بدرا : 4024۔) (3) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور یزید بن معاویہ کی بیعت: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ خلافت اور امور خلافت سے ہمیشہ دور رہے۔ ان کی زندگی میں اس سلسلہ میں جتنے ہی فتنے رونما ہوئے۔ آپ ہمیشہ غیر جانبدار رہے۔ آپ ولاۃ الامور (مسلم حکمرانوں ) کے خلاف خروج کو انتہائی ناپسند کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے یزید بن معاویہ کی بیعت کی اور اس کو توڑنے سے انکار کر دیا۔ سیدنا نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : ((لَمَّا خَلَعَ أَهْلُ الْمَدِینَةِ یَزِیدَ بْنَ مُعَاوِیَةَ جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ حَشَمَهُ وَوَلَدَهُ فَقَالَ: إِنِّی سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: یُنْصَبُ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَائٌ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَإِنَّا قَدْ بَایَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ عَلَی بَیْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّی لَا أَعْلَمُ غَدْرًا أَعْظَمَ مِنْ أَنْ یُبَایَعَ رَجُلٌ عَلَی بَیْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ یُنْصَبُ لَهُ الْقِتَالُ، وَإِنِّی لَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِنْکُمْ خَلَعَهُ وَلَا بَایَعَ فِی هَذَا الْأَمْرِ إِلَّا کَانَتِ الْفَیْصَلَ بَیْنِی وَبَیْنَهُ))۔ ’’جب اہل مدینہ نے یزید بن معاویہ کی بیعت کو توڑا تو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے خادموں اور بچوں کو جمع کیااور کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ’’ہر دھوکہ دینے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا۔‘‘ یقینا ہم نے اس آدمی کی اللہ اور اس کے رسول کے نام پر بیعت کی ہے اور میرے علم کے مطابق اس سے بڑھ کر کوئی غدر (دھوکہ) نہیں کہ کسی شخص کی اللہ اور اس کے رسول کے نام پر بیعت کی جائے اور پھر اس کے خلاف جنگ کی جائے۔ اور جو کوئی تم میں سے اس کی بیعت توڑ کر کسی دوسرے کی بیعت خلافت کرتا ہے تو میرے اور اس کے درمیان کوئی تعلق نہیں ، میں اس سے علیحدہ ہوں ۔( صحیح بخاري، الفتن، باب اذا قال عند قوم شیئا ثم خرج… الخ : 7111۔) یہی وجہ تھی کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، عبد اللہ بن مطیع رضی اللہ عنہ کو سمجھانے کے لیے تشریف لائے اور انہیں یزید کی بیعت ختم کرنے سے منع کیا۔ (4) سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا مقام: سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ عظیم المرتبت صحابی رسول ہیں ۔ آپ کو کتاب وسنت کے ساتھ خاص شغف تھا۔ احادیث رسول پر اتباع و پیروی کے لیے ہر وقت مستعد رہتے۔ کتاب وسنت پر سختی سے عمل کرتے اور جب خلاف شرع کوئی امر دیکھتے تو ضرور روکتے اور ایسے اعمال بجا لانے والوں کی اصلاح فرماتے تھے۔ مذکورہ واقعہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن مطیع رضی اللہ عنہ کے عمل کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جانا تو ان کو حدیث سنائی اور تشریف لے گئے۔ سلف صالحین کا طریقۂ دعوت و اصلاح یہی رہا کہ احکام شرع کی تبلیغ کرتے، لوگوں کو کتاب وسنت کی باتیں سناتے اورانہیں عمل پر ابھارتے تھے۔ عبداللہ بن مطیع رضی اللہ عنہ نے کمال ادب وا حترام سے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا استقبال کیا اور انہیں عزت کے ساتھ بٹھایا جس سے ابن عمر رضی اللہ عنہ کا مقام و رتبہ اور ان کی عظمت و شان نمایاں ہوتی ہے۔ (5) حاکم وقت کی اطاعت: اللہ رب العزت نے اولی الامر کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ﴾ (النساء : 59) ’’اے ایمان والو! اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور ان کا بھی جو تم میں سے حکم دینے والے ہیں ۔‘‘ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ أَطَاعَنِی فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَانِی فَقَدْ عَصَی اللَّهَ، وَمَنْ یُطِعِ الْأَمِیرَ فَقَدْ أَطَاعَنِی، وَمَنْ یَعْصِ الْأَمِیرَ فَقَدْ عَصَانِی))( صحیح بخاري، الجهاد، باب یقاتل …الخ، رقم : 2957، صحیح مسلم، الامارة، باب وجوب اطاعة الامراء : 1835۔) ’’جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے یقینا اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی یقینا اس نے میری نافرمانی کی۔‘‘ اولی الامر جب تک خیر و بھلائی کی با ت کرتے رہیں ، فرض نمازوں کی پابندی کریں ، واضح کفر کا ارتکاب نہ کریں ان کی اطاعت لازم ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَی الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِیمَا أَحَبَّ وَکَرِہَ مَا لَمْ یُؤْمَرْ بِمَعْصِیَةٍ فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِیَةٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ))( صحیح بخاري، الأحکام، باب السمع والطاعة الأمام … الخ : 7144، صحیح مسلم،ا لامارۃ، باب وجوب طاعةالأمراء … الخ : 1839۔) ’’ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ہر کام میں خواہ اسے پسند ہو یاناپسند سمع و اطاعت بجا لائے، بشرطیکہ اسے کسی معصیت کا حکم نہ دیا گیا ہو اور اگر اسے کسی معصیت کے کام کا حکم دیا گیا ہو تو اس میں سمع و طاعت نہیں ۔‘‘ (6) حکمران کی خیر خواہی اور اس کے ظلم پر صبر کرنا: حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((الدِّیْنُ النَّصِیحَةُ قُلْنَا لِمَنْ؟ قَالَ: لِلّٰهِ وَلِکِتَابِه وَلِرَسُولِه وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِینَ وَعَآمَّتِهِم))( صحیح مسلم، الایمان، باب بیان الدین النصیحة، رقم : 55۔) ’’دین خیر خواہی کا نام ہے۔ ہم نے کہا کس کے لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے حکام کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے۔‘‘ آئمہ مسلمین کے حق میں نصیحت و خیر خواہی یہ ہے کہ انہیں اچھے مشورے دئیے جائیں ، ظلم و تعدی سے روکا جائے اور ان کے خلاف خروج و بغاوت نہ کی جائے۔ اگر حکمران ظلم و زیادتی کرے تو ا س کے ظلم پر صبر کرنا چاہیے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ رَأَی مِنْ أَمِیرِهِ شَیْئًا یَکْرَهُهُ فَلْیَصْبِرْ عَلَیْهِ فَإِنَّهُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَمَاتَ مِیْتَةٌ جَاهِلِیَّةٌ۔))( صحیح بخاري، الأحکام، باب السمع والطاعة … الخ : 7143، صحیح مسلم، الامارة، باب وجوب ملازمة جماعة المسلمین … الخ : 1849۔) ’’جس نے اپنے امیر میں کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھی تو اسے صبر کرنا چاہیے بلاشبہ جس نے جماعت سے ایک بالشت برابر بھی علیحدگی اختیار کی اور وہ فوت ہو گیا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔‘‘ (7) جاہلیت کی موت: زمانۂ جاہلیت میں لوگ بے ربط زندگی گزارتے تھے۔ نظم و ضبط ان کی زندگی سے عنقا تھا۔ دین اسلام نے اپنے ماننے والوں کو منظم و مربوط زندگی گزارنے کا پابند کیا اور اسلامی سلطنت کے امیر و خلیفہ کی بیعت و اطاعت ہر ایک کے لیے لازم ٹھہری۔ امیر کی بیعت توڑنے پر سخت وعیدیں سنائی گئیں ۔ فی زمانہ ایسی بہت سی جماعتیں اور تنظیمیں موجود ہیں جن کے کارکن امیر و خلیفہ سے متعلقہ احادیث کو اپنے امراء و ناظمین اورجماعتی صدور پر چسپاں کرتے ہیں جبکہ یہ امراء و ناظمین ان احادیث کے ہرگز مصداق نہیں اور نہ ہی ان کی امارت و بیعت سے الگ رہنے والے ان وعیدوں کے زمرے میں آتے ہیں ۔ (8) ’’میتة جاهلیة‘‘ سے مراد: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’وَالْمُرَادُ بِالْمَیْتَةِ الْجَاهِلِیَّةِ حَالَةُ الْمَوْتِ کَمَوْتِ اَهْلِ الْجَاهلِیَّةِ عَلَی ضَلَالِ وَلَیْسَ لَهٗ اِمَامٌ مُطَاعٌ، لِأَنَّهُمْ کَانُوْا لَا یَعْرَفُوْنَ ذٰلِكَ وَلَیْسَ الْمُرادُ اِنَّهٔ یَمُوْتُ کَافِرًا بَلْ یَمُوْتُ عَاصِیًا‘‘(فتح الباري : 9/47۔) ’’میتہ الجاہلیۃ سے مراد یہ ہے کہ ا س کی موت اہل جاہلیت کی طرح گمراہی و ضلالت پر ہوگی جس کا کوئی امیر نہ ہوگا جس کی وہ اطاعت میں ہو۔ا س لیے کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ اس سے واقفیت نہیں رکھتے تھے اور اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ وہ کافر مرے گا بلکہ وہ نافرمانی کی حالت میں موت ہوگی۔‘‘