مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 26

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَّيَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ الْخَفَّافُ الْعِجْلِيُّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ إِذْ لَقِيَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ كَيْفَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي النَّجْوَى؟ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " يَدْنُو الْمُؤْمِنُ مِنْ رَبِّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُ بَذْجٌ - قَالَ أَبُو النَّضْرِ: قَالَ قَتَادَةُ: الْبَذْجُ: السَّخْلَةُ - فَيَضَعُ عَلَيْهِ كَنَفَهُ، يَعْنِي سِتْرَهُ، فَيَقُولُ لَهُ: هَلْ تَعْرِفُ؟ هَلْ تَعْرِفُ؟ فَيَقُولُ: رَبِّ أَعْرِفُ، رَبِّ أَعْرِفُ، فَيَقُولُ: هَلْ تَعْرِفُ؟ فَيَقُولُ: رَبِّ أَعْرِفُ، فَيَقُولُ: هَلْ تَعْرِفُ؟ فَيَقُولُ: رَبِّ أَعْرِفُ، فَيَقُولُ: أَنَا سَتَرْتُهَا عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا، وَأَنَا أَغْفِرُهَا لَكَ الْيَوْمَ، قَالَ: وَيُعْطَى صَحِيفَةَ حَسَنَاتِهِ "، قَالَ: " وَأَمَّا الْكَافِرُ وَالْمُنَافِقُونَ فَيُنَادِيهِمْ عَلَى رُءُوسِ الْأَشْهَادِ: هَؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ، أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ "، قَالَ قَتَادَةُ: فَلَمْ يُخْزَ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ يَخْفَى خِزْيُهُ عَلَى أَحَدٍ مِنَ الْخَلَائِقِ

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 26

کتاب باب صفوان بن محرز کہتے ہیں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے کہ انہیں ایک آدمی ملا اور اس نے کہا: اے ابو عبدا لرحمن! آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کی کیفیت سے متعلق کیا سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ’’قیامت کے دن مؤمن اپنے رب کے قریب ہوگا، گویا وہ بھیڑ یا بکری کا بچہ ہے اور وہ اس پر پردہ ڈال دیں گے اور اس سے پوچھیں گے۔ کیاتو جانتا ہے؟ کیا تو جانتا ہے؟ اور وہ کہے گا، اے میرے رب! میں جانتاہوں ،اے میرے رب! میں جانتا ہوں ۔ وہ پھر پوچھیں گے ، کیا تم جانتے ہو؟ وہ کہے گا: اے میرے رب! میں جانتا ہوں ۔ وہ پھر پوچھیں گے کیا تم جانتے ہو؟ وہ کہے گا اے میرے رب میں جانتا ہوں ۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: میں نے دنیا میں اس پر تیری پردہ پوشی کی اور آج میں اس کو تجھے معاف کرتا ہوں ۔ پھر اسے نیکیوں کا صحیفہ عطا کریں گے۔ ‘‘ اور کفار و منافقین کوتمام لوگوں کے روبرو آواز دی جائے گی۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کو جھٹلایا، خبردار ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس دن کسی ایسے شخص کو رسوا نہیں کیا جائے گا جس نے مخلوق میں سے کسی سے اپنی رسوائی کو چھپایا ہوگا۔
تشریح : (1) رحمت الٰہی: اللہ رب العزت کی صفت رحمت ایک ایسی صفت ہے جس سے کائنات کی ہر چیز فیض یاب ہو رہی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ﴾ (الاعراف : 156) ’’اور میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے۔‘‘ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوگئے،ا سی دوران ایک اعرابی نے حالت نماز میں کہا: ’’اے اللہ! مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم فرما اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ کرنا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو اس اعرابی سے فرمایا: ((لَقَدْ حَجَّرْتَ وَاسِعًا))( صحیح بخاري، الأدب باب رحمة الناس والبهائم : 6010۔) ’’یقینا تو نے اللہ کی وسیع رحمت کو محدود کر دیا ہے۔‘‘ اخروی رحمت کے حق دار فقط اہل ایمان، صاحب تقویٰ اور نیک لوگ ہوں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ فَسَيُدْخِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَفَضْلٍ وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا﴾ (النساء : 175) ’’جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور اسے مضبوط پکڑلیا انہیں تو وہ عنقریب اپنی رحمت اور فضل میں داخل کرے گا اور اپنی طرف کی انہیں سیدھی راہ دکھائے گا۔‘‘ سورہ اعراف میں فرمایا: ﴿ إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ﴾ (الاعراف : 56) ’’بے شک اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے۔‘‘ ایک مقام پر فرمایا: ﴿ وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَةِ اللَّهِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴾ (آل عمران : 107) ’’اور وہ لوگ جن کے چہرے سفید ہوں گے، سو اللہ کی رحمت میں ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔‘‘ حدیث میں بھی رحمت الٰہی کی وسعت کا بیان ہے جو روز قیامت اہل ایمان کے لیے خاص ہوگی جس کی وجہ سے مؤمن کے گناہوں پر پردہ ڈال کر اسے مغفرت و بخشش سے نوازا جائے گا اور وہ کامیاب و کامران ٹھہرے گا۔ البتہ کافر و منافق دنیا میں اللہ رب العزت کی عطاؤں سے فیض یاب ہونے کے باوجود آخرت میں ذلت و رسوائی کو سمیٹیں گے اور رحمت الٰہیہ کے حقدار نہیں بن سکیں گے۔ (2) آخرت کی ندامت: میدان محشر کی شرمندگی و ندامت جیسی شرمندگی کہیں نہیں ہوگی۔ دنیا میں دنیا اور اس کی جھوٹی جاہ و عزت کی خاطر دوسروں کی عزت کو روندنے والے قیامت کے دن ذلیل و رسوا ہوں گے۔ اللہ کے نافرمان بندوں کو کہیں پناہ نہیں ملے گی منافق و کافر شرمسارہوں گے۔ اس دن یہ لوگ تابعداری و فرمانبرداری نہ کرنے پر پچھتا رہے ہوں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ رُّبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ ﴾ (الحجر : 2) ’’بہت بار چاہیں گے جنہوں نے کفر کیا کاش وہ مسلم ہوتے۔‘‘ بوقت موت ہی کفار و مشرکین کو اپنی حیثیت کا اندازہ کروا دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ ‎﴿٩٩﴾‏ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ﴾ (المؤمنون : 99، 100) ’’حتی کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آتی ہے تو کہتا ہے اے میرے رب! مجھے واپس بھیجو تاکہ میں جو کچھ چھوڑ آیا ہوں اس میں نیک عمل کر لوں ۔ ہرگز نہیں یہ تو ایک بات ہے جسے وہ کہنے والا ہے۔‘‘ جب یہ لوگ آگ پہ کھڑے ہوں گے تو آہ و بکا کریں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ وُقِفُوا عَلَى النَّارِ فَقَالُوا يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ (الانعام : 27) ’’اور کاش تو دیکھے جب وہ آگ پر کھڑے کیے جائیں گے تو کہیں گے کاش ہم واپس بھیجے جائیں اور اپنے رب کی آیات کو نہ جھٹلائیں اور ایمان والوں میں سے ہوجائیں ۔‘‘ (3) ’’الاشهاد‘‘ گواہ: بعض مفسرین لکھتے ہیں : ’’گواہوں سے مراد ان کے پیغمبر یا وہ فرشتے جو عمل لکھتے ہیں اور علماء جنہوں نے اللہ کے احکام کی تبلیغ کی۔ یہ سب گواہ کفار کے متعلق اعلان کریں گے کہ یہی لوگ ہیں جو اپنے پروردگار سے جھوٹی باتیں منسوب کرتے تھے۔( تفسیر القرآن الکریم : 2/88۔) (4) اللہ رب العزت کے ذمہ جھوٹی بات لگانا: اللہ رب العزت کلام کرتے ہیں یہ اس کی صفت ہے۔ قرآن اللہ کی کلام ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کلیم اللہ ہیں ۔ جنت میں اللہ رب العزت اہل جنت سے کلام فرمائیں گے۔ اہل سنت کا اس پر اعتقاد و ایمان ہے۔ جو بات اللہ تعالیٰ نے ارشاد نہیں فرمائی، وہ اس کی جانب منسوب کرنا ظلم عظیم ہے اور اس کا مرتکب بہت بڑا ظالم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا﴾ (ھود : 18) ’’اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔‘‘ آیت بالا کی تفسیر میں بعض مفسرین لکھتے ہیں ، یعنی اپنی جان پر ظلم کرنے والے بہت ہیں مگر اس سے بڑھ کر کوئی نہیں جو جھوٹ گھڑ کر اللہ تعالیٰ کے ذمے لگا دے مثلاً مخلوق کو خالق کی صفت رکھنے والا قرار دے، بتوں ولیوں اور دیوتاؤں کو اللہ کے حضور بلااجازت سفارش کی جرأت رکھنے والا سمجھے، فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دے اور مسیح علیہ السلام یاکسی اور کو اللہ کی اولاد یا اس کا حصہ یا ٹکڑا قرار دے۔ موضح میں ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھنا کئی طرح سے ہے۔ مثلاً علم میں غلط نقل کرنا۔ (آل عمران : 78) نبوت یا وحی کا جھوٹ دعوی کرنا۔ (انعام : 93) خواب بنا لینا، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ مِنْ أَفْریٰ الْفِرٰی اَنْ یُّرِیَ عَیْنَه مَا لَمْ تَرَ))( بخاري،ا لتعبیر، باب من کذب فی حلمه : 7043۔) ’’سب سے بڑے جھوٹوں میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی اپنی آنکھوں کو وہ چیز دکھائے جو انہوں نے نہیں دیکھی (یعنی جھوٹا خواب بیان کرے)۔‘‘ درایت یا عقل کو دین کے معاملات میں درمیان لے آنا۔ (قصص : 50) (تفسیرالقرن الکریم : 2/87۔)
تخریج : صحیح بخاري، التفسیر، باب قوله ’’وبقول الاشهاد هٰولاء الذین کذبوا، رقم الحدیث : 4685، صحیح مسلم، التوبة، باب فی سعة رحمة اللّٰه تعالیٰ علی المؤمنین … الخ، رقم الحدیث : 2768۔ (1) رحمت الٰہی: اللہ رب العزت کی صفت رحمت ایک ایسی صفت ہے جس سے کائنات کی ہر چیز فیض یاب ہو رہی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ﴾ (الاعراف : 156) ’’اور میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے۔‘‘ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوگئے،ا سی دوران ایک اعرابی نے حالت نماز میں کہا: ’’اے اللہ! مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم فرما اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ کرنا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو اس اعرابی سے فرمایا: ((لَقَدْ حَجَّرْتَ وَاسِعًا))( صحیح بخاري، الأدب باب رحمة الناس والبهائم : 6010۔) ’’یقینا تو نے اللہ کی وسیع رحمت کو محدود کر دیا ہے۔‘‘ اخروی رحمت کے حق دار فقط اہل ایمان، صاحب تقویٰ اور نیک لوگ ہوں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ فَسَيُدْخِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَفَضْلٍ وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا﴾ (النساء : 175) ’’جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور اسے مضبوط پکڑلیا انہیں تو وہ عنقریب اپنی رحمت اور فضل میں داخل کرے گا اور اپنی طرف کی انہیں سیدھی راہ دکھائے گا۔‘‘ سورہ اعراف میں فرمایا: ﴿ إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ﴾ (الاعراف : 56) ’’بے شک اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے۔‘‘ ایک مقام پر فرمایا: ﴿ وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَةِ اللَّهِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴾ (آل عمران : 107) ’’اور وہ لوگ جن کے چہرے سفید ہوں گے، سو اللہ کی رحمت میں ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔‘‘ حدیث میں بھی رحمت الٰہی کی وسعت کا بیان ہے جو روز قیامت اہل ایمان کے لیے خاص ہوگی جس کی وجہ سے مؤمن کے گناہوں پر پردہ ڈال کر اسے مغفرت و بخشش سے نوازا جائے گا اور وہ کامیاب و کامران ٹھہرے گا۔ البتہ کافر و منافق دنیا میں اللہ رب العزت کی عطاؤں سے فیض یاب ہونے کے باوجود آخرت میں ذلت و رسوائی کو سمیٹیں گے اور رحمت الٰہیہ کے حقدار نہیں بن سکیں گے۔ (2) آخرت کی ندامت: میدان محشر کی شرمندگی و ندامت جیسی شرمندگی کہیں نہیں ہوگی۔ دنیا میں دنیا اور اس کی جھوٹی جاہ و عزت کی خاطر دوسروں کی عزت کو روندنے والے قیامت کے دن ذلیل و رسوا ہوں گے۔ اللہ کے نافرمان بندوں کو کہیں پناہ نہیں ملے گی منافق و کافر شرمسارہوں گے۔ اس دن یہ لوگ تابعداری و فرمانبرداری نہ کرنے پر پچھتا رہے ہوں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ رُّبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ ﴾ (الحجر : 2) ’’بہت بار چاہیں گے جنہوں نے کفر کیا کاش وہ مسلم ہوتے۔‘‘ بوقت موت ہی کفار و مشرکین کو اپنی حیثیت کا اندازہ کروا دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ ‎﴿٩٩﴾‏ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ﴾ (المؤمنون : 99، 100) ’’حتی کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آتی ہے تو کہتا ہے اے میرے رب! مجھے واپس بھیجو تاکہ میں جو کچھ چھوڑ آیا ہوں اس میں نیک عمل کر لوں ۔ ہرگز نہیں یہ تو ایک بات ہے جسے وہ کہنے والا ہے۔‘‘ جب یہ لوگ آگ پہ کھڑے ہوں گے تو آہ و بکا کریں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ وُقِفُوا عَلَى النَّارِ فَقَالُوا يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ (الانعام : 27) ’’اور کاش تو دیکھے جب وہ آگ پر کھڑے کیے جائیں گے تو کہیں گے کاش ہم واپس بھیجے جائیں اور اپنے رب کی آیات کو نہ جھٹلائیں اور ایمان والوں میں سے ہوجائیں ۔‘‘ (3) ’’الاشهاد‘‘ گواہ: بعض مفسرین لکھتے ہیں : ’’گواہوں سے مراد ان کے پیغمبر یا وہ فرشتے جو عمل لکھتے ہیں اور علماء جنہوں نے اللہ کے احکام کی تبلیغ کی۔ یہ سب گواہ کفار کے متعلق اعلان کریں گے کہ یہی لوگ ہیں جو اپنے پروردگار سے جھوٹی باتیں منسوب کرتے تھے۔( تفسیر القرآن الکریم : 2/88۔) (4) اللہ رب العزت کے ذمہ جھوٹی بات لگانا: اللہ رب العزت کلام کرتے ہیں یہ اس کی صفت ہے۔ قرآن اللہ کی کلام ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کلیم اللہ ہیں ۔ جنت میں اللہ رب العزت اہل جنت سے کلام فرمائیں گے۔ اہل سنت کا اس پر اعتقاد و ایمان ہے۔ جو بات اللہ تعالیٰ نے ارشاد نہیں فرمائی، وہ اس کی جانب منسوب کرنا ظلم عظیم ہے اور اس کا مرتکب بہت بڑا ظالم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا﴾ (ھود : 18) ’’اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔‘‘ آیت بالا کی تفسیر میں بعض مفسرین لکھتے ہیں ، یعنی اپنی جان پر ظلم کرنے والے بہت ہیں مگر اس سے بڑھ کر کوئی نہیں جو جھوٹ گھڑ کر اللہ تعالیٰ کے ذمے لگا دے مثلاً مخلوق کو خالق کی صفت رکھنے والا قرار دے، بتوں ولیوں اور دیوتاؤں کو اللہ کے حضور بلااجازت سفارش کی جرأت رکھنے والا سمجھے، فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دے اور مسیح علیہ السلام یاکسی اور کو اللہ کی اولاد یا اس کا حصہ یا ٹکڑا قرار دے۔ موضح میں ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھنا کئی طرح سے ہے۔ مثلاً علم میں غلط نقل کرنا۔ (آل عمران : 78) نبوت یا وحی کا جھوٹ دعوی کرنا۔ (انعام : 93) خواب بنا لینا، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ مِنْ أَفْریٰ الْفِرٰی اَنْ یُّرِیَ عَیْنَه مَا لَمْ تَرَ))( بخاري،ا لتعبیر، باب من کذب فی حلمه : 7043۔) ’’سب سے بڑے جھوٹوں میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی اپنی آنکھوں کو وہ چیز دکھائے جو انہوں نے نہیں دیکھی (یعنی جھوٹا خواب بیان کرے)۔‘‘ درایت یا عقل کو دین کے معاملات میں درمیان لے آنا۔ (قصص : 50) (تفسیرالقرن الکریم : 2/87۔)