مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 22

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَّيَةَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: أَتَى عَلَيْنَا زَمَانٌ وَمَا يَرَى أَحَدُنَا أَنَّهُ أَحَقُّ بِالدِّينَارِ وَالدِّرْهَمِ مِنْ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ، وَنَحْنُ الْيَوْمَ الدِّينَارُ وَالدِّرْهَمُ أَحَبُّ إِلَيْنَا مِنْ أَخِينَا الْمُسْلِمِ، وَذَلِكَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِذَا ضَنَّ النَّاسُ بِالدِّينَارِ وَالدِّرْهَمِ، وَاتَّبَعُوا أَذْنَابَ الْبَقَرِ، وَتَرَكُوا الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَتَبَايَعُوا بِالْغَبْنِ أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ذُلًّا فَلَمْ يَرْفَعْهُ عَنْهُمْ حَتَّى يُرَاجِعُوا دِينَهُمْ»

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 22

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: ہم پر وہ وقت بھی آیا، جب ہر کوئی خود سے اپنے مسلمان بھائی کو دینار اور درہم کا زیادہ حق دار سمجھتا تھا اور آج ہمیں دینار و درہم اپنے مسلمان بھائیوں سے زیادہ محبوب ہیں اور یہ اس لیے ہے کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے: ’’جب لوگ دینارو درہم کے ساتھ بخیل ہو جائیں گے اور بیلوں کی دموں کے پیچھے چلیں گے اور اللہ کی راہ میں جہاد کو چھوڑ دیں گے اور لین دین میں دھوکہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان پر رسوائی مسلط کر دیں گے اور وہ رسوائی ان سے نہیں چھٹے گی یہاں تک کہ وہ اپنے دین کی طرف واپس آجائیں ۔‘‘
تشریح : (1) خود غرضی اور ایثار: انسان فطرتاً خود غرض واقع ہوا ہے جب خود غرضی حد سے بڑھ جائے تو باہمی ہمدردی، اخوت و مودت اور ایثار جیسی صفات جمیلہ ناپید ہو جاتی ہیں اور ان کی جگہ جھوٹ بد دیانتی، مکرو فریب اور شقاوت قلبی لے لیتی ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں بے شمار اخلاقی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں ۔ اسلام نے خود غرضی اور اس سے جنم لینے والے مفاسد کے خاتمہ کے لیے مسلمان کو اپنے حق سے کم پر اکتفا کرنے، دنیا اور اس کے مال و منال کی بے ثباتی، ایثار و قربانی اور باہمی اخوت و محبت کی خاطر جینے اور مرنے جیسی عالی صفات اپنانے کا خوگر بننے کی ہدایت کی۔ آغاز اسلام میں صحابہ کرام اسی بنا پر دوسروں کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر ترجیح دیتے اور مسلمان بھائی کی ضرورت پورا کرنے کی خاطر اپنی ضرورت و خواہش کو قربان کر دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿ وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾ (الحشر : 9) ’’اور وہ اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں خواہ انہیں سخت حاجت ہو اور جوکوئی اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں ۔‘‘ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اسی صفت جمیلہ کا بیان ہوا۔ آج مسلم معاشرے میں افراتفری اور ابتری کا اہم ترین سبب یہ ہے کہ ہر شخص اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا ہے۔ لیکن دوسروں کے حقوق دینے کو تیار نہیں ، خود چاہتا ہے ، لوگ میری عزت کریں ، دوسروں کی عزت و توقیر ضروری خیال نہیں کرتا۔ خود پورا لینے کا متقاضی ہے جبکہ دوسروں کو پورا نہیں دیناچاہتا۔ یہی وہ خود غرضی ہے جس کا اسلام نے خاتمہ کیا اور مسلمانوں کو ایثار پیشی کی تصویر بنایا۔ اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں تو ہندوستاں کا ہر پیرو جواں بے تاب ہو جائے (2) اسباب ذلت: اللہ رب العزت نے اہل ایمان سے دنیاو آخرت کی عزت و شرف کا وعدہ فرمایا ہے مسلمان کسی بھی خطہ ارضی کا رہنے والا ہو وہ ذلیل نہیں ہو سکتا۔ یہ عزت و شرف دین کے ساتھ ہے جو دین دار اور دین پسند، دین پرعمل کرنے والا ہے، وہ عند اللہ معزز و محترم ہے اور جو دین بے زار، بے دین اور بے عمل ہے اس کی عند اللہ اہمیت نہیں ۔ حدیث مبارکہ میں چند اسباب ذلت کا بیان ہے جن کی مختصر وضاحت ذیل میں کی جاتی ہے۔ (i) روپے پیسے کی محبت:… انسان کی مال سے محبت فطری ہے اور مال کے حصول میں انسان حریص واقع ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا ﴾ (الفجر : 20) ’’اور تم مال سے محبت کرتے ہو بہت زیادہ محبت کرنا۔‘‘ ایک دوسرے مقام پر ہے: ﴿ وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ ﴾ (العادیات : 8) ’’اور یقینا وہ مال کی محبت میں بہت سخت ہے۔‘‘ جب تک یہ محبت ایک حد تک رہے۔ اس محبت کی وجہ سے دین سے دوری نہ ہو، حقوق العباد اور حقوق اللہ کی ادائیگی ہوتی رہے، جائز ہے لیکن جب مال کی محبت انسان کو ناشکری، اللہ رب العزت کی نعمتوں کی ناقدری، حرص طمع اور بخل کی عادات ڈال دے تو یہ محبت مہلک بن جاتی ہے جس کی وجہ سے انسان کی دنیاو آخرت تاریک ہوجاتی ہے اور ایسا انسان عزت و شرف کے بجائے ذلت و رسوائی کماتا ہے۔ (ii) کھیتی باڑی کی محبت:… کھیتی باڑی ذریعہ معاش ہے۔ شریعت کی حدود میں رہ کر اس ذریعہ کو اختیار کرنا اور حاصل ہونے والی آمدن سے اللہ کاحق ادا کرنا انتہائی مستحسن ہے۔ لیکن اگر جانوروں اور کھیتی کی محبت میں دین سے غفلت اختیار کی جائے اس کو تفاخر و زینت کا باعث سمجھا جائے تو انتہائی مذموم و مبغوض ہے۔ ’’واتبعوا اذناب البقر‘‘ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ جب اہل اسلام گھوڑوں کی پیٹھوں سے اتر کر بیل اور گائے کی دم پکڑ لیں گے۔ وہ رزق جو انہیں جہاد کے نتائج، مال غنیمت کی شکل میں ملنا تھا اس سے ہاتھ روک کر کھیتی باڑی سے حاصل کرنے لگیں گے تو عزت و وقار ختم ہوجائے گا حکمران ان سے خراج اور ٹیکس لیں گے، وہ محکوم و مجبور ہو کر زندگی گزاریں گے۔ (iii) جہاد کو ترک کر دینا:… جہاد اعمال کی معراج ہے اس کو ’’سنام العمل‘‘ قرار دیا گیا، مجاہد ۔جان ہے تو جہان ہے کے۔ دنیوی اصول کو ٹھوکر لگا کر جان سے دین و ایمان قیمتی ہے کہ صدا لگاتاہے۔ دنیوی جاہ و حشمت اور عیش و آرام کو قربان کر کے اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے صبغۃ اللہ کے رنگ میں ڈبکی لگا کر نکل کھڑا ہوتا ہے اور اقوامِ عالم کو خبردار کرتا ہے کہ^ زیر گردوں از قاہر است آمری ما سوا اللہ کافری است مجاہد کے مقاصد بلند، عزم، و ہمت، لاجواب ہوتا ہے اور اس کے نصیب میں فانی نہیں ، ابدی عزت ہے، ایسی عزت جس کا کہیں نعم البدل نہیں ، ایسی عزت جس میں کبھی رسوائی نہیں ، آج ملت اسلامیہ کی ذلت کا اہم ترین سبب ترک جہاد ہے۔ (iv) کاروبارمیں دھوکہ دہی:… اللہ تعالیٰ نے تجارت، بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ تجارت کے پیشہ سے ہمارے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم وابستہ رہے۔ کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس پیشہ کو اختیار کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کاروبار کی جائز و ناجائز صورتیں بیان کیں ۔ شرعاً جائز امور انجام دینے سے انسان کوذہنی و قلبی سکون میسر آتا ہے۔ جبکہ حرام و ناجائز معاملات میں پڑنے والا بے چین و بے قرار رہتا ہے۔ دھوکہ دہی کسی بھی سطح پر شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ اگر یہ عمل کاروبار میں ہو تو اس کے مہلک اثرات دیگر امور زندگی پر بھی پڑتے ہیں کیونکہ انسان کی کمائی سے اس کی ضروریات پوری ہوتی ہیں ۔ بندہ کھانا پینا، رہن سہن، لباس اور دیگر چیزیں اپنی آمدن سے بناتا ہے اور جس کا کھانا پینا، اور لباس حرام کمائی سے ہوں اس کی عبادت و ریاضت عند اللہ نامقبول و مردود ہے۔ دھوکے فریب کی تجارت کرنے والا احساس سے عاری، خیر خواہی کے جذبہ سے محروم، طمع وحرص و ہوس کا رسیا ہوتا ہے ۔ ایسا انسان عند اللہ عزت و شرف سے بھی محروم کر دیاجاتا ہے۔ احادیث نبویہ میں بعض دھوکے کی بیوع کا ذکر آیا ہے۔ جن میں سے بیع منابذہ (کپڑا یا رومال وغیرہ کسی تجارتی مال پر پھینکنا کہ جس پر رومال جا گرا اس کا اتنی قیمت میں سودا طے ہو گیا) بیع ملامسہ (آنکھ بند کر کے یا اندھیرے میں کسی تجارتی مال کو ہاتھ لگانا اور جس پر ہاتھ جا لگا اس کا سودا اتنی قیمت میں طے ہو گیا) بیع حصاۃ (کنکری پھینک کر سودا پختہ کرنا) اور بیع عزر وغیرہ یہ سبھی دھوکے اور فریب کی بیوع تھیں ۔ جن سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا۔ فی زمانہ بہت ساری اس سے ملتی جلتی مختلف اشیاء میں لین دین کی صورتیں مارکیٹ میں موجود ہیں ۔ جن سے بچنا ہر مسلمان کے لیے لازم و ضروری ہے۔ (3) عزت کا راستہ: اللہ رب العزت اس کائنات کا خالق و مالک ہے۔ا س نے اس کائنات میں بے شمار مخلوقات کو بسا رکھا ہے۔ اشرف الخلق انسان ہے باقی سب کچھ انسان کے فائدہ کے لیے تخلیق کیا گیا ۔انسانوں کوزندگی گزارنے کے لیے ضابطۂ حیات اس نے خود دیا۔ جب تک انسان اس کی دی گئی ہدایات کے مطاق خود کو چلانے کی سعی کرتے رہیں گے۔ سرخرو ہوں گے اگر اپنی منشا و مرضی کو اختیار کرتے ہوئے اس کے اصول و ضوابط کو چھوڑ دیا تو ناکام و نامراد ٹھہریں گے۔ ہمارے لیے اب قیامت تک ضابطۂ حیات دین اسلام ہے جو کتاب و سنت کا نام ہے۔ اس کو ماننے والوں کا نام مسلمان ہے۔ مسلمانوں کا عروج و زوال اس دین میں ہے۔ جب تک مسلمان دین، ضروریات دین، اصول دین سے مخلص رہے، عظمت و جلال ، شان و شوکت اور اکرام وا عزاز سے دنیا میں جیے۔دین سے بے زاری، دین داروں سے نفرت، دینی تعلیمات سے دوری نے مسلمانوں کو ذلت و رسوائی اور زوال کے قعر مذلت میں کھڑا کر دیا، عزت و شرف کا واحد راستہ دین ہے۔ لوٹ جا عہد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سمت رفتار جہاں پھر میری پسماندگی کو ارتقا درکار ہے
تخریج : مسند احمد : 8/440، رقم الحدیث : 4825، سنن ابي داؤد، الاجارة، باب في النهي عن العینة، رقم الحدیث : 3462، عن نافع عن ابن عمر، شعب الایمان للبیهقي : 6/92، رقم الحدیث : 3920، حلیة الاولیاء : 1/313، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ (1) خود غرضی اور ایثار: انسان فطرتاً خود غرض واقع ہوا ہے جب خود غرضی حد سے بڑھ جائے تو باہمی ہمدردی، اخوت و مودت اور ایثار جیسی صفات جمیلہ ناپید ہو جاتی ہیں اور ان کی جگہ جھوٹ بد دیانتی، مکرو فریب اور شقاوت قلبی لے لیتی ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں بے شمار اخلاقی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں ۔ اسلام نے خود غرضی اور اس سے جنم لینے والے مفاسد کے خاتمہ کے لیے مسلمان کو اپنے حق سے کم پر اکتفا کرنے، دنیا اور اس کے مال و منال کی بے ثباتی، ایثار و قربانی اور باہمی اخوت و محبت کی خاطر جینے اور مرنے جیسی عالی صفات اپنانے کا خوگر بننے کی ہدایت کی۔ آغاز اسلام میں صحابہ کرام اسی بنا پر دوسروں کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر ترجیح دیتے اور مسلمان بھائی کی ضرورت پورا کرنے کی خاطر اپنی ضرورت و خواہش کو قربان کر دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿ وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾ (الحشر : 9) ’’اور وہ اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں خواہ انہیں سخت حاجت ہو اور جوکوئی اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں ۔‘‘ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اسی صفت جمیلہ کا بیان ہوا۔ آج مسلم معاشرے میں افراتفری اور ابتری کا اہم ترین سبب یہ ہے کہ ہر شخص اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا ہے۔ لیکن دوسروں کے حقوق دینے کو تیار نہیں ، خود چاہتا ہے ، لوگ میری عزت کریں ، دوسروں کی عزت و توقیر ضروری خیال نہیں کرتا۔ خود پورا لینے کا متقاضی ہے جبکہ دوسروں کو پورا نہیں دیناچاہتا۔ یہی وہ خود غرضی ہے جس کا اسلام نے خاتمہ کیا اور مسلمانوں کو ایثار پیشی کی تصویر بنایا۔ اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں تو ہندوستاں کا ہر پیرو جواں بے تاب ہو جائے (2) اسباب ذلت: اللہ رب العزت نے اہل ایمان سے دنیاو آخرت کی عزت و شرف کا وعدہ فرمایا ہے مسلمان کسی بھی خطہ ارضی کا رہنے والا ہو وہ ذلیل نہیں ہو سکتا۔ یہ عزت و شرف دین کے ساتھ ہے جو دین دار اور دین پسند، دین پرعمل کرنے والا ہے، وہ عند اللہ معزز و محترم ہے اور جو دین بے زار، بے دین اور بے عمل ہے اس کی عند اللہ اہمیت نہیں ۔ حدیث مبارکہ میں چند اسباب ذلت کا بیان ہے جن کی مختصر وضاحت ذیل میں کی جاتی ہے۔ (i) روپے پیسے کی محبت:… انسان کی مال سے محبت فطری ہے اور مال کے حصول میں انسان حریص واقع ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا ﴾ (الفجر : 20) ’’اور تم مال سے محبت کرتے ہو بہت زیادہ محبت کرنا۔‘‘ ایک دوسرے مقام پر ہے: ﴿ وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ ﴾ (العادیات : 8) ’’اور یقینا وہ مال کی محبت میں بہت سخت ہے۔‘‘ جب تک یہ محبت ایک حد تک رہے۔ اس محبت کی وجہ سے دین سے دوری نہ ہو، حقوق العباد اور حقوق اللہ کی ادائیگی ہوتی رہے، جائز ہے لیکن جب مال کی محبت انسان کو ناشکری، اللہ رب العزت کی نعمتوں کی ناقدری، حرص طمع اور بخل کی عادات ڈال دے تو یہ محبت مہلک بن جاتی ہے جس کی وجہ سے انسان کی دنیاو آخرت تاریک ہوجاتی ہے اور ایسا انسان عزت و شرف کے بجائے ذلت و رسوائی کماتا ہے۔ (ii) کھیتی باڑی کی محبت:… کھیتی باڑی ذریعہ معاش ہے۔ شریعت کی حدود میں رہ کر اس ذریعہ کو اختیار کرنا اور حاصل ہونے والی آمدن سے اللہ کاحق ادا کرنا انتہائی مستحسن ہے۔ لیکن اگر جانوروں اور کھیتی کی محبت میں دین سے غفلت اختیار کی جائے اس کو تفاخر و زینت کا باعث سمجھا جائے تو انتہائی مذموم و مبغوض ہے۔ ’’واتبعوا اذناب البقر‘‘ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ جب اہل اسلام گھوڑوں کی پیٹھوں سے اتر کر بیل اور گائے کی دم پکڑ لیں گے۔ وہ رزق جو انہیں جہاد کے نتائج، مال غنیمت کی شکل میں ملنا تھا اس سے ہاتھ روک کر کھیتی باڑی سے حاصل کرنے لگیں گے تو عزت و وقار ختم ہوجائے گا حکمران ان سے خراج اور ٹیکس لیں گے، وہ محکوم و مجبور ہو کر زندگی گزاریں گے۔ (iii) جہاد کو ترک کر دینا:… جہاد اعمال کی معراج ہے اس کو ’’سنام العمل‘‘ قرار دیا گیا، مجاہد ۔جان ہے تو جہان ہے کے۔ دنیوی اصول کو ٹھوکر لگا کر جان سے دین و ایمان قیمتی ہے کہ صدا لگاتاہے۔ دنیوی جاہ و حشمت اور عیش و آرام کو قربان کر کے اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے صبغۃ اللہ کے رنگ میں ڈبکی لگا کر نکل کھڑا ہوتا ہے اور اقوامِ عالم کو خبردار کرتا ہے کہ^ زیر گردوں از قاہر است آمری ما سوا اللہ کافری است مجاہد کے مقاصد بلند، عزم، و ہمت، لاجواب ہوتا ہے اور اس کے نصیب میں فانی نہیں ، ابدی عزت ہے، ایسی عزت جس کا کہیں نعم البدل نہیں ، ایسی عزت جس میں کبھی رسوائی نہیں ، آج ملت اسلامیہ کی ذلت کا اہم ترین سبب ترک جہاد ہے۔ (iv) کاروبارمیں دھوکہ دہی:… اللہ تعالیٰ نے تجارت، بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ تجارت کے پیشہ سے ہمارے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم وابستہ رہے۔ کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس پیشہ کو اختیار کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کاروبار کی جائز و ناجائز صورتیں بیان کیں ۔ شرعاً جائز امور انجام دینے سے انسان کوذہنی و قلبی سکون میسر آتا ہے۔ جبکہ حرام و ناجائز معاملات میں پڑنے والا بے چین و بے قرار رہتا ہے۔ دھوکہ دہی کسی بھی سطح پر شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ اگر یہ عمل کاروبار میں ہو تو اس کے مہلک اثرات دیگر امور زندگی پر بھی پڑتے ہیں کیونکہ انسان کی کمائی سے اس کی ضروریات پوری ہوتی ہیں ۔ بندہ کھانا پینا، رہن سہن، لباس اور دیگر چیزیں اپنی آمدن سے بناتا ہے اور جس کا کھانا پینا، اور لباس حرام کمائی سے ہوں اس کی عبادت و ریاضت عند اللہ نامقبول و مردود ہے۔ دھوکے فریب کی تجارت کرنے والا احساس سے عاری، خیر خواہی کے جذبہ سے محروم، طمع وحرص و ہوس کا رسیا ہوتا ہے ۔ ایسا انسان عند اللہ عزت و شرف سے بھی محروم کر دیاجاتا ہے۔ احادیث نبویہ میں بعض دھوکے کی بیوع کا ذکر آیا ہے۔ جن میں سے بیع منابذہ (کپڑا یا رومال وغیرہ کسی تجارتی مال پر پھینکنا کہ جس پر رومال جا گرا اس کا اتنی قیمت میں سودا طے ہو گیا) بیع ملامسہ (آنکھ بند کر کے یا اندھیرے میں کسی تجارتی مال کو ہاتھ لگانا اور جس پر ہاتھ جا لگا اس کا سودا اتنی قیمت میں طے ہو گیا) بیع حصاۃ (کنکری پھینک کر سودا پختہ کرنا) اور بیع عزر وغیرہ یہ سبھی دھوکے اور فریب کی بیوع تھیں ۔ جن سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا۔ فی زمانہ بہت ساری اس سے ملتی جلتی مختلف اشیاء میں لین دین کی صورتیں مارکیٹ میں موجود ہیں ۔ جن سے بچنا ہر مسلمان کے لیے لازم و ضروری ہے۔ (3) عزت کا راستہ: اللہ رب العزت اس کائنات کا خالق و مالک ہے۔ا س نے اس کائنات میں بے شمار مخلوقات کو بسا رکھا ہے۔ اشرف الخلق انسان ہے باقی سب کچھ انسان کے فائدہ کے لیے تخلیق کیا گیا ۔انسانوں کوزندگی گزارنے کے لیے ضابطۂ حیات اس نے خود دیا۔ جب تک انسان اس کی دی گئی ہدایات کے مطاق خود کو چلانے کی سعی کرتے رہیں گے۔ سرخرو ہوں گے اگر اپنی منشا و مرضی کو اختیار کرتے ہوئے اس کے اصول و ضوابط کو چھوڑ دیا تو ناکام و نامراد ٹھہریں گے۔ ہمارے لیے اب قیامت تک ضابطۂ حیات دین اسلام ہے جو کتاب و سنت کا نام ہے۔ اس کو ماننے والوں کا نام مسلمان ہے۔ مسلمانوں کا عروج و زوال اس دین میں ہے۔ جب تک مسلمان دین، ضروریات دین، اصول دین سے مخلص رہے، عظمت و جلال ، شان و شوکت اور اکرام وا عزاز سے دنیا میں جیے۔دین سے بے زاری، دین داروں سے نفرت، دینی تعلیمات سے دوری نے مسلمانوں کو ذلت و رسوائی اور زوال کے قعر مذلت میں کھڑا کر دیا، عزت و شرف کا واحد راستہ دین ہے۔ لوٹ جا عہد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سمت رفتار جہاں پھر میری پسماندگی کو ارتقا درکار ہے