مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 20

كِتَابُ بَابٌ وَعَنْ عَطَاءٍ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَنَ النَّائِحَةَ وَالْمُسْتَمِعَةَ، وَالْحَالِقَةَ وَالصَّالِقَةَ، وَالْوَاشِمَةَ وَالْمَوْشُومَةَ وَقَالَ: «لَيْسَ لِلنِّسَاءِ فِي اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ أَجْرٌ»

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 20

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ کرنے والی اور سننے والی اور (مصیبت کے وقت) بال منڈوانے والی اور چیخ وپکار کرنے والی اور گودنے والی اور گودوانے والی عورت پرلعنت فرمائی اور فرمایا: جنازوں کے پیچھے چلنے میں عورتوں کے لیے ثواب نہیں ہے۔
تشریح : (1) دکھ یا تکلیف کا آنا: اللہ رب العزت نے مخلوقات کی تخلیق سے قبل ان کی تقادیر لکھ دیں ۔ دکھ اور سکھ، خوشی و غم بھی لکھے جاچکے ہیں ۔ اہل ایمان کے لیے پریشانیاں اور مصیبتیں بلندیٔ درجات کا باعث بنتی ہیں ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَا یُصِیبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ وَلَا هَمٍّ وَلَا حُزْنٍ وَلَا أَذًی وَلَا غَمٍّ حَتَّی الشَّوْکَةِ یُشَاکُهَا إِلَّا کَفَّرَ اللَّهُ بِهَا مِنْ خَطَایَاهُ))( صحیح بخاري، المرضیٰ، باب ما جاء في کفارة المرض : 5642، صحیح مسلم، البر والصلة والادب، باب ثواب المؤمن فیما یصیب من مرض : 2573۔) ’’مسلمان کو جو بھی پریشانی، بیماری، رنج و ملال، تکلیف اور غم پہنچتا ہے ، یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھ جائے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہوں کے بخشنے کا باعث بنا دیتا ہے۔‘‘ (2) مصیبت پر صبر کرنا: اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ستر (70) مرتبہ صبرکا ذکر کیا اور اہل ایمان کو صبر و صلاۃ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کا حکم دیا۔ دکھ اور تکلیف کے وقت ’’إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ‘‘ پڑھنے کی تلقین فرمائی ہے۔اس کلمہ میں اللہ کی رضا پر راضی رہنے کا اظہار و اقرار ہے۔ یہ کلمہ ادا کرنے سے انسان کو صبر کی توفیق ملتی ہے۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا، جب کسی مسلمان کو کوئی مصیبت پہنچے اور وہ وہی کلمہ کہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا: ((إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ اَللّٰهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِیبَتِي وَأَخْلِفْ لِی خَیْرًا مِنْهَا إِلَّا أَخْلَفَ اللّٰهُ لَهٗ خَیْرًا مِنْهَا)) ’’یقینا ہم اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔ اے اللہ! میری مصیبت پر اجر دے اور مجھے اس کا نعم البدل عطا فرما تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر عطا فرماتا ہے۔‘‘ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ کہتی ہیں ، جب میرے خاوند (ابو سلمہ رضی اللہ عنہا ) وفات پا گئے تو میں نے کہا: مسلمانوں میں ابو سلمہ سے بہتر کون ہوگا؟ پہلا گھرانہ ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کی۔ میں نے یہ (مذکورہ) کلمہ کہا، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کی جگہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں بدل عطا فرما دیا۔‘‘( صحیح مسلم، الجنائز، باب ما یقال عند المصیبة : 918۔) (3) سوگ کے وقت غیر شرعی امور: شریعت اسلامیہ نے خوشی و غمی کو ماننے کا طریقہ کار واضح کر دیا ہے۔ جس طرح خوشی کی حالت میں اسراف و تبریز غیر شرعی محافل کا انعقاد، ساز و باج کی مجلسیں وغیرہ جائز نہیں اسی طرح حالت غم میں اونچی آواز سے رونا،سینہ کوبی کرنا، کپڑے پھاڑنا، سر کے بال منڈوا دینا وغیرہ بھی شرعاً ناجائز ہے۔ ہمارے یہاں سوگ کو منانے کے بے شمار مصنوعی طریقے بھی ہیں جن کی شرعاً گنجائش نہیں جن میں سے مرد و زن کا کئی کئی روز تک دریاں بچھا کر ’’پھوڑی‘‘ بیٹھنا، اظہار افسوس و غم کے لیے سیاہ لباس،سیاہ پٹیاں باندھنا، کسی کے افسوس کے لیے ایک منٹ یا زیادہ وقت کے لیے خاموشی اختیارکرنا، حکومتی سطح پر پرچم سرنگوں کرنا یا چھٹی منانا، ہر سال برسی کا انعقاد کرنا وغیرہ سبھی سوگ کی ناجائز صورتیں ہیں ۔ خواتین کو اپنے خاوندوں کے علاوہ دیگر عزیز و اقارب کی وفات پر تین دن سوگ کرنے کی اجازت ہے البتہ خاوند کی وفات پر بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ مزید دیکھئے فوائد حدیث نمبر 74۔ (4) اظہار زینت کے غیر شرعی طریقے: قبل از اسلام خواتین بن سنور کر زینت کے ساتھ مردوں کے سامنے آتیں ، بناؤ سنگھار کر کے بے پردہ باہر نکلتیں ، اسلام نے عورتوں کو غیر محرم مردوں کے سامنے اظہار زینت سے منع کر دیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ﴾ (الاحزاب : 33) ’’اور اپنے گھروں میں قرار پکڑو اور پہلی جاہلیت کے اظہار زینت کی طرح زینت ظاہر نہ کرو۔‘‘ خواتین اسلام کو بوقت ضرورت باپردہ ہوکر، اظہار زینت اور خوشبو لگائے بغیر گھر سے نکلنے کی اجازت دی گئی۔ اسی طرح مسلم خواتین مسجد میں نماز باجماعت، نماز تراویح اور جمعہ کی ادائیگی کے لیے جاسکتی ہیں ۔ افسوس دیگر بہت ساری اخلاقی و معاشرتی برائیوں کی طرح خواتین سے متعلق اظہار زینت کا معاملہ بھی بگاڑ کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ جگہ جگہ کھلے بیوٹی پارلر، کاسمیٹکس کی دکانیں اظہار زینت کے اسباب ہر گلی محلہ میں مہیا کر رہے ہیں ۔ عورتوں کا باریک و تنگ لباس پہن کر، بے پردہ گھروں سے نکلنا، آبروئیں بنانا، مصنوعی بالوں کا استعمال کرنا، چہرے اور ہاتھوں پر وثمہ (گودنا، گودوانا) کرنا وغیرہ اظہار زینت کے غیر شرعی طریقے ہیں جن سے اسلام پسند خاتون کو بہرصورت بچنا ہوگا۔ (5) خواتین کا جنازے کے ساتھ جانا: جنازے کے ساتھ چلنا مسنون عمل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتباع الجنائز کو حق مسلم میں سے شمار کیا، خود اللہ کے رسول، خلفائے راشدین جنازوں کے ساتھ چلتے رہے اور آج تک امت کا یہ معمول چلا آ رہا ہے۔ خواتین کے لیے جہاں اور بہت سارے مسائل مردوں سے مختلف ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ مسئلہ بھی ہے۔ جس میں خواتین کو جنازوں کے ساتھ جانے سے منع کیا گیا ہے۔ البتہ اس پابندی کو لازمی قرار نہیں دیا گیا، جیسا کہ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ((نُهِینَا عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ وَلَمْ یُعْزَمْ عَلَیْنَا))( صحیح بخاري، الجنائز، باب اتباع النساء الجنازة : 1278، صحیح مسلم، الجنائز، باب نهي النساء، عن اتباع الجنائز : 928۔) ’’ہمیں جنازوں کے ساتھ جانے سے روکا گیا ہے، لیکن سختی کے ساتھ منع نہیں کیا گیا۔‘‘
تخریج : مجمع الزوائد : 3/14، رقم الحدیث : 4020، السنن الکبریٰ للبیهقي : 4/105، رقم الحدیث : 7114، عن ابن عمر، سنن ابي داؤد، الجنائز،باب فی النوح، رقم الحدیث : 3128، مسند احمد : 3/65 مختصراً عن ابي سعید، الارواء : 3/222، اس کی سند میں عفیر بن معدان یحصبی ضعیف راوی ہے، محدث البانی نے اس کی سند کو ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔ (1) دکھ یا تکلیف کا آنا: اللہ رب العزت نے مخلوقات کی تخلیق سے قبل ان کی تقادیر لکھ دیں ۔ دکھ اور سکھ، خوشی و غم بھی لکھے جاچکے ہیں ۔ اہل ایمان کے لیے پریشانیاں اور مصیبتیں بلندیٔ درجات کا باعث بنتی ہیں ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَا یُصِیبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ وَلَا هَمٍّ وَلَا حُزْنٍ وَلَا أَذًی وَلَا غَمٍّ حَتَّی الشَّوْکَةِ یُشَاکُهَا إِلَّا کَفَّرَ اللَّهُ بِهَا مِنْ خَطَایَاهُ))( صحیح بخاري، المرضیٰ، باب ما جاء في کفارة المرض : 5642، صحیح مسلم، البر والصلة والادب، باب ثواب المؤمن فیما یصیب من مرض : 2573۔) ’’مسلمان کو جو بھی پریشانی، بیماری، رنج و ملال، تکلیف اور غم پہنچتا ہے ، یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھ جائے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہوں کے بخشنے کا باعث بنا دیتا ہے۔‘‘ (2) مصیبت پر صبر کرنا: اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ستر (70) مرتبہ صبرکا ذکر کیا اور اہل ایمان کو صبر و صلاۃ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کا حکم دیا۔ دکھ اور تکلیف کے وقت ’’إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ‘‘ پڑھنے کی تلقین فرمائی ہے۔اس کلمہ میں اللہ کی رضا پر راضی رہنے کا اظہار و اقرار ہے۔ یہ کلمہ ادا کرنے سے انسان کو صبر کی توفیق ملتی ہے۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا، جب کسی مسلمان کو کوئی مصیبت پہنچے اور وہ وہی کلمہ کہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا: ((إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ اَللّٰهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِیبَتِي وَأَخْلِفْ لِی خَیْرًا مِنْهَا إِلَّا أَخْلَفَ اللّٰهُ لَهٗ خَیْرًا مِنْهَا)) ’’یقینا ہم اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔ اے اللہ! میری مصیبت پر اجر دے اور مجھے اس کا نعم البدل عطا فرما تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر عطا فرماتا ہے۔‘‘ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ کہتی ہیں ، جب میرے خاوند (ابو سلمہ رضی اللہ عنہا ) وفات پا گئے تو میں نے کہا: مسلمانوں میں ابو سلمہ سے بہتر کون ہوگا؟ پہلا گھرانہ ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کی۔ میں نے یہ (مذکورہ) کلمہ کہا، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کی جگہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں بدل عطا فرما دیا۔‘‘( صحیح مسلم، الجنائز، باب ما یقال عند المصیبة : 918۔) (3) سوگ کے وقت غیر شرعی امور: شریعت اسلامیہ نے خوشی و غمی کو ماننے کا طریقہ کار واضح کر دیا ہے۔ جس طرح خوشی کی حالت میں اسراف و تبریز غیر شرعی محافل کا انعقاد، ساز و باج کی مجلسیں وغیرہ جائز نہیں اسی طرح حالت غم میں اونچی آواز سے رونا،سینہ کوبی کرنا، کپڑے پھاڑنا، سر کے بال منڈوا دینا وغیرہ بھی شرعاً ناجائز ہے۔ ہمارے یہاں سوگ کو منانے کے بے شمار مصنوعی طریقے بھی ہیں جن کی شرعاً گنجائش نہیں جن میں سے مرد و زن کا کئی کئی روز تک دریاں بچھا کر ’’پھوڑی‘‘ بیٹھنا، اظہار افسوس و غم کے لیے سیاہ لباس،سیاہ پٹیاں باندھنا، کسی کے افسوس کے لیے ایک منٹ یا زیادہ وقت کے لیے خاموشی اختیارکرنا، حکومتی سطح پر پرچم سرنگوں کرنا یا چھٹی منانا، ہر سال برسی کا انعقاد کرنا وغیرہ سبھی سوگ کی ناجائز صورتیں ہیں ۔ خواتین کو اپنے خاوندوں کے علاوہ دیگر عزیز و اقارب کی وفات پر تین دن سوگ کرنے کی اجازت ہے البتہ خاوند کی وفات پر بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ مزید دیکھئے فوائد حدیث نمبر 74۔ (4) اظہار زینت کے غیر شرعی طریقے: قبل از اسلام خواتین بن سنور کر زینت کے ساتھ مردوں کے سامنے آتیں ، بناؤ سنگھار کر کے بے پردہ باہر نکلتیں ، اسلام نے عورتوں کو غیر محرم مردوں کے سامنے اظہار زینت سے منع کر دیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ﴾ (الاحزاب : 33) ’’اور اپنے گھروں میں قرار پکڑو اور پہلی جاہلیت کے اظہار زینت کی طرح زینت ظاہر نہ کرو۔‘‘ خواتین اسلام کو بوقت ضرورت باپردہ ہوکر، اظہار زینت اور خوشبو لگائے بغیر گھر سے نکلنے کی اجازت دی گئی۔ اسی طرح مسلم خواتین مسجد میں نماز باجماعت، نماز تراویح اور جمعہ کی ادائیگی کے لیے جاسکتی ہیں ۔ افسوس دیگر بہت ساری اخلاقی و معاشرتی برائیوں کی طرح خواتین سے متعلق اظہار زینت کا معاملہ بھی بگاڑ کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ جگہ جگہ کھلے بیوٹی پارلر، کاسمیٹکس کی دکانیں اظہار زینت کے اسباب ہر گلی محلہ میں مہیا کر رہے ہیں ۔ عورتوں کا باریک و تنگ لباس پہن کر، بے پردہ گھروں سے نکلنا، آبروئیں بنانا، مصنوعی بالوں کا استعمال کرنا، چہرے اور ہاتھوں پر وثمہ (گودنا، گودوانا) کرنا وغیرہ اظہار زینت کے غیر شرعی طریقے ہیں جن سے اسلام پسند خاتون کو بہرصورت بچنا ہوگا۔ (5) خواتین کا جنازے کے ساتھ جانا: جنازے کے ساتھ چلنا مسنون عمل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتباع الجنائز کو حق مسلم میں سے شمار کیا، خود اللہ کے رسول، خلفائے راشدین جنازوں کے ساتھ چلتے رہے اور آج تک امت کا یہ معمول چلا آ رہا ہے۔ خواتین کے لیے جہاں اور بہت سارے مسائل مردوں سے مختلف ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ مسئلہ بھی ہے۔ جس میں خواتین کو جنازوں کے ساتھ جانے سے منع کیا گیا ہے۔ البتہ اس پابندی کو لازمی قرار نہیں دیا گیا، جیسا کہ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ((نُهِینَا عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ وَلَمْ یُعْزَمْ عَلَیْنَا))( صحیح بخاري، الجنائز، باب اتباع النساء الجنازة : 1278، صحیح مسلم، الجنائز، باب نهي النساء، عن اتباع الجنائز : 928۔) ’’ہمیں جنازوں کے ساتھ جانے سے روکا گیا ہے، لیکن سختی کے ساتھ منع نہیں کیا گیا۔‘‘