كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَّيَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْجُنُبِ يُرِيدُ أَنْ يَنَامَ، قَالَ: «يَتَوَضَّأُ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ» ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَطْعَمَ يَتَوَضَّأُ
کتاب
باب
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جنبی سے متعلق دریافت کیا جو سونا چاہتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ نماز کے وضو کی طرح وضو کرے (اور سو جائے)۔‘‘ اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب (حالت جنابت میں ) کھانا تناول کرنا چاہتے تو وضو کر لیتے تھے۔
تشریح :
(1) طہارت و نظافت کی اہمیت:
دین اسلام دین فطرت ہے۔ یہ فطرت سلیمہ کے ہر تقاضے کو پورا کرتا ہے اور اس سے متعلق مکمل راہنمائی مہیا کرتا ہے۔ طہارت و صفائی عین فطرت انسان ہے۔اس لیے نزول وحی کے آغاز میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ رب العزت نے فرمایا:
﴿ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ﴿٤﴾ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ﴾ (المدثر : 4، 5)
’’اپنے کپڑے پاک رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اہل قباء کی کمال حصول طہارت کی بنا پر تعریف فرمائی، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَن يَتَطَهَّرُوا ۚ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ ﴾ (التوبہ : 108)
’’اس (بستی) میں ایسے لوگ ہیں جو خوب صاف ستھرا رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اچھی طرح پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
یہ خصوصیت صرف دین اسلام کو حاصل ہے کہ اس نے طہارت و نظافت کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔ سیدنا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِیمَانِ))( صحیح مسلم، الطهارة، باب فضل الوضوء : 223۔)
’’صفائی نصف ایمان ہے۔‘‘
(2) موجبات الغسل:
طہارت و پاکیزگی کے حصول کے لیے مخصوص طریقہ سے پاک پانی کو بدن پر بہانے کا نام غسل ہے۔ چند مخصوص کیفیات میں غسل کرنا واجب ہوجاتا ہے۔
i: منی کا نکلنا، خواہ جماع سے ہو یا احتلام سے یا ویسے شہوت وغیرہ سے نکلے، اس سے غسل واجب ہوجاتا ہے۔
ii: خاوند و بیوی کی شرمگاہوں کے ملاپ سے بھی غسل واجب ہو جاتا ہے اگرچہ انزال نہ بھی ہو۔
iii: اگرکوئی مسلمان فوت ہوجائے تو اس کو غسل دے کر دفنانا واجب ہے۔ البتہ کفار کے ساتھ معرکوں میں لڑتے ہوئے شہادت کے مرتبہ پر فائز ہونے والوں کو بغیر غسل دفنا دینا درست ہے۔
iv: جب کوئی کافر اسلام قبول کرے تو اس پر غسل واجب ہے۔
v: حیض و نفاس کا خون ختم ہونے پر خواتین کے لیے غسل کرنا لازم و ضروری ہے۔
(3) جنابت کے احکام:
(i) حالت جنابت میں نماز کی ادائیگی کرنا، بیت اللہ کا طواف کرنا یا کسی بھی مسجد میں قیام کرنا ممنوع ہے۔
(ii) جنبی آدمی گھریلو کام، کاج، میل ملاقات وغیرہ کر سکتا ہے۔
(iii) حالت جنابت میں سونا اور کھانا بھی جائز ہے، اگر جنبی غسل کیے بغیر سونا چاہے تو وضو کرکے سو سکتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حالت جنابت میں سونے کا ارادہ کرتے تو اپنی شرمگاہ کو دھو لیتے اور نماز والا وضو فرما لیتے تھے۔( صحیح بخاري، الغسل، باب الجنب یتوضأ ثم ینام : 288۔)
(iv) اگر جنبی کھانے کے لیے بھی وضو کر لے تو بہت اچھا ہے کیونکہ اس سے اگرچہ جنابت دور نہیں ہوتی لیکن ایک قسم کی طہارت حاصل ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص کھانے کے لیے وضوء نہ بھی کرے، صرف ہاتھ دھونے پر اکتفا کر لے تو بھی جائز ہے، ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حالت جنابت میں سونے کا ارادہ کرتے تو وضوء فرما لیتے اور جب کھانے کا ارادہ کرتے تو ہاتھ دھو لیتے تھے۔( سنن نسائی، الطهارة، باب اقتصار الجنب علی غسل یدیه … الخ : 257، سنن ابی داؤد ، الطهارة، باب الجنب یأکل : 223۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔)
تخریج :
مسند احمد : 1/254، رقم الحدیث : 94، سنن ترمذی، الطهارة، باب فی الوضوء للجنب اذا اراد ان نیام، رقم الحدیث : 120، اس کی سند میں عطیہ عوفی اور ابن ابی لیلیٰ ضعیف راوی ہیں ، لیکن دوسری اسناد کی بناء پر محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
(1) طہارت و نظافت کی اہمیت:
دین اسلام دین فطرت ہے۔ یہ فطرت سلیمہ کے ہر تقاضے کو پورا کرتا ہے اور اس سے متعلق مکمل راہنمائی مہیا کرتا ہے۔ طہارت و صفائی عین فطرت انسان ہے۔اس لیے نزول وحی کے آغاز میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ رب العزت نے فرمایا:
﴿ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ﴿٤﴾ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ﴾ (المدثر : 4، 5)
’’اپنے کپڑے پاک رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اہل قباء کی کمال حصول طہارت کی بنا پر تعریف فرمائی، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَن يَتَطَهَّرُوا ۚ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ ﴾ (التوبہ : 108)
’’اس (بستی) میں ایسے لوگ ہیں جو خوب صاف ستھرا رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اچھی طرح پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
یہ خصوصیت صرف دین اسلام کو حاصل ہے کہ اس نے طہارت و نظافت کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔ سیدنا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِیمَانِ))( صحیح مسلم، الطهارة، باب فضل الوضوء : 223۔)
’’صفائی نصف ایمان ہے۔‘‘
(2) موجبات الغسل:
طہارت و پاکیزگی کے حصول کے لیے مخصوص طریقہ سے پاک پانی کو بدن پر بہانے کا نام غسل ہے۔ چند مخصوص کیفیات میں غسل کرنا واجب ہوجاتا ہے۔
i: منی کا نکلنا، خواہ جماع سے ہو یا احتلام سے یا ویسے شہوت وغیرہ سے نکلے، اس سے غسل واجب ہوجاتا ہے۔
ii: خاوند و بیوی کی شرمگاہوں کے ملاپ سے بھی غسل واجب ہو جاتا ہے اگرچہ انزال نہ بھی ہو۔
iii: اگرکوئی مسلمان فوت ہوجائے تو اس کو غسل دے کر دفنانا واجب ہے۔ البتہ کفار کے ساتھ معرکوں میں لڑتے ہوئے شہادت کے مرتبہ پر فائز ہونے والوں کو بغیر غسل دفنا دینا درست ہے۔
iv: جب کوئی کافر اسلام قبول کرے تو اس پر غسل واجب ہے۔
v: حیض و نفاس کا خون ختم ہونے پر خواتین کے لیے غسل کرنا لازم و ضروری ہے۔
(3) جنابت کے احکام:
(i) حالت جنابت میں نماز کی ادائیگی کرنا، بیت اللہ کا طواف کرنا یا کسی بھی مسجد میں قیام کرنا ممنوع ہے۔
(ii) جنبی آدمی گھریلو کام، کاج، میل ملاقات وغیرہ کر سکتا ہے۔
(iii) حالت جنابت میں سونا اور کھانا بھی جائز ہے، اگر جنبی غسل کیے بغیر سونا چاہے تو وضو کرکے سو سکتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حالت جنابت میں سونے کا ارادہ کرتے تو اپنی شرمگاہ کو دھو لیتے اور نماز والا وضو فرما لیتے تھے۔( صحیح بخاري، الغسل، باب الجنب یتوضأ ثم ینام : 288۔)
(iv) اگر جنبی کھانے کے لیے بھی وضو کر لے تو بہت اچھا ہے کیونکہ اس سے اگرچہ جنابت دور نہیں ہوتی لیکن ایک قسم کی طہارت حاصل ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص کھانے کے لیے وضوء نہ بھی کرے، صرف ہاتھ دھونے پر اکتفا کر لے تو بھی جائز ہے، ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حالت جنابت میں سونے کا ارادہ کرتے تو وضوء فرما لیتے اور جب کھانے کا ارادہ کرتے تو ہاتھ دھو لیتے تھے۔( سنن نسائی، الطهارة، باب اقتصار الجنب علی غسل یدیه … الخ : 257، سنن ابی داؤد ، الطهارة، باب الجنب یأکل : 223۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔)