مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 19

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَّيَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، وَيَحْيَى بْنُ صَالِحٍ قَالَا: حَدَّثَنَا عُفَيْرُ بْنُ مَعْدَانَ الْيَحْصِبِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ النَّمِيمَةَ وَهِيَ الْكَذِبُ، وَالسَّخِيمَةَ وَالْحَمِيَّةَ فِي النَّارِ، فَلَا يَجْتَمِعَانِ فِي صَدْرِ مُسْلِمٍ»

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 19

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یقینا چغل خوری جھوٹ ہے اور کینہ اور (خاندانی و جاہلی) حمیت جہنم میں ہے۔ یہ دونوں چیز ایک مسلمان کے سینے میں اکٹھی نہیں ہوسکتیں ۔‘‘
تشریح : (1) چغل خوری: انسان کے حسن اسلام میں سے بے مقصد کاموں کو چھوڑ دینا ہے۔ ہر وہ کام جو دنیوی مفاد اور اخروی فلاح و کامیابی سے تعلق نہیں رکھتا۔ مسلمان اس سے گریز کرتا ہے۔ چغل خوری سے چغل خور ایک انسان سے بات لے کر دوسرے تک اس کو پہلے سے بدظن کرنے یا برانگیختہ کرنے کے لیے نقل کرتا ہے۔ جس میں شرعاً کوئی مصلحت نہیں بلکہ کثیر مفاسد ہیں ۔ اسی لیے چغل خور کوسخت ترین وعیدیں سنائی گئیں ۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ((لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَتَّاتٌ))( صحیح بخاري، الأدب، باب ما یکره من النمیمة : 6056، صحیح مسلم، الایمان، باب بیان غلط تحریم النمیمة : 105۔) ’’چغل خور جنت میں نہیں جا سکے گا۔‘‘ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ’’ان دونوں قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور ان کو کسی بڑے کام میں عذاب نہیں ہو رہا، ان میں سے ایک پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا جبکہ دوسرا چغل خور تھا۔‘‘( صحیح بخاري، الجنائز، باب الجرید علی القبر : 1361، صحیح مسلم، الطهارة، باب الدلیل علی نجاسة البول : 292۔) (2) کینہ و بغض: انسانی معاشرے میں موجود ایک قبیح برائی کا نام بغض ہے اور یہ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جوانسان کسی دوسرے سے متعلق عداوت کی وجہ سے رکھتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سابقہ امتوں کی بیماری قرار دیا، سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((دَبَّ إِلَیْکُمْ دَائُ الْأُمَمِ قَبْلَکُمْ الْحَسَدُ وَالْبَغْضَائُ هِیَ الْحَالِقَةُ لَا أَقُولُ تَحْلِقُ الشَّعَرَ وَلَکِنْ تَحْلِقُ الدِّینَ))( سنن ترمذی، صفة القیامة، باب في فضل صلاح ذات البین : 2510، صحیح الترغیب والترهیب : 2888۔) ’’تمہارے اندر پہلی امتوں والی بیماری حسد اور بغض سرایت کر چکی ہے، باہم بغض رکھنا مونڈنے والی بیماری ہے، بالوں کو مونڈنے والی نہیں بلکہ دین کومونڈنے والی یعنی ختم کر دینے والی ہے۔‘‘ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر سوموار اور جمعرات کو جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں ۔ مشرک کے علاوہ ہر شخص کو بخش دیا جاتا ہے۔ سوائے ان دو آدمیوں کے جن کے درمیان کوئی بغض ہو۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہا جاتا ہے جب تک یہ دونوں صلح نہیں کر لیتے ان کو مہلت دو، ان دونوں کو صلح تک مہلت دو، ان دونوں کو صلح تک مہلت دو۔‘‘( صحیح مسلم،البر والصلة، باب النهی عن الشحناء : 2565۔) (3) عصبیت: دین اسلام نے جاہلی معاشرے کے تمام تفاخر کو ختم کردیا جن میں سے خاندان، قبیلے قوم یا برادری کے لیے حق و باطل کی تمیز کیے بغیر لڑنا ان کاساتھ دینا بھی شامل تھا اور اسی کانام عصبیت ہے۔ عصبیت کو گمراہی و ضلالت اور جاہلیت قرار دیا گیا ہے۔سیدنا جندب بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((مَنْ قُتِلَ تَحْتَ رَأیَةٍ عِمِّیَّةٍ یَدْعُو عَصَبِیَّةً اَوْ یَنْصُرُ عَصَبِیَّةً فَقِتْلَةٌ جَاهِلِیَّةٌ))( صحیح مسلم، الامارة، باب وجوب ملازمة جماعة المسلمین عند ظهور الفتن : 1850۔) ’’جو شخص گمراہی کے جھنڈے تلے جنگ کرتا مارا گیا۔ لوگوں کو عصبیت کی طرف دعوت دیتا ہے یا عصبیت کی بنیاد پر مددکرتا ہے تو اس کا قتل ہو جانا جاہلیت کی طرح ہے۔‘‘ صرف عصبیت کے لیے ناحق لڑنے والوں کی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے مثال دی تو فرمایا: ((مَنْ نَصَرَ قَوْمَهٗ عَلَی غَیْرِ الْحَقِّ فَهُوَ کَالْبَعِیْرِ الَّذِیق رَدٰی فَهُوَ یُنْزَعَِ بِذَنْبِهٖ))( سنن ابي داؤد، الأدب، باب في العصبیة : 5117۔) ’’جس نے اپنی قوم کی ناحق مدد کی تو اس کی مثال اس اونٹ کی سی ہے جو کنویں میں گرگیا ہو اور پھر اسے دم سے پکڑ کر کنویں سے نکالا جاتا ہے۔‘‘ (4):… مسلمان کا دل اخلاق رذیلہ سے پاک ہوتا ہے وہ دوسروں کی خیر خواہی و ہمدردی کے جذبہ سے سرشار دکھائی دیتا ہے۔ بری عادات و اطوار سے خود کو بچاتا ہے اور دوسروں کو بھی ان سے بچنے کی تلقین کرتا ہے۔ لیکن فی زمانہ ہم من حیث القوم اخلاقی انحطاط کا شکار ہوچکے ہیں ۔ میٹھی زبانوں کے پیچھے بھی بغض و عناد اور غلط سوچیں موجود ہوتی ہیں ۔ اللہ رب العزت ہمارے حال پررحم فرمائے: ذَهَبَ الْوَفَائُ ذِهَابَ أَمْسِ الذَّاهِبِ وَالنَّاسُ بَیْنَ مُخَاتِلِ وَمُحَارِبِ یُـفْشُوْنَ بَـیْنَهُمْ الْمَوَدَّةً وَالْوَفَا وَقُـلُوْبُهُمْ مَحْشُوَّةًٌ بِعَقَارِبٌ ’’وفاداری گزشتہ کل کے گزر جانے کی طرح اٹھ گئی اور لوگوں کا یہ حال ہے کہ کوئی مکار ہے تو کوئی جنگ جو ہے۔ ایک دوسرے سے محبت اورالفت جتاتے ہیں حالانکہ ان کے دل بچھوؤں سے بھرے ہوئے ہیں ۔ (ہر وقت کاٹنے کی فکر میں ہیں ۔)‘‘
تخریج : المعجم الکبیر للطبراني : 12/445، رقم الحدیث : 13615 , ، مجمع الزوائد : 2/134، الترغیب والترهیب : 3/497، الکامل لابن عدي : 5/201، اس کی سند میں عفیر بن معدان یحصبی ضعیف راوی ہے، ابن معین نے کہا: وہ کچھ بھی نہیں ، احمد نے کہا منکر الحدیث ہے، امام ترمذی نے کہا: حدیث میں ضعیف ہے۔ (1) چغل خوری: انسان کے حسن اسلام میں سے بے مقصد کاموں کو چھوڑ دینا ہے۔ ہر وہ کام جو دنیوی مفاد اور اخروی فلاح و کامیابی سے تعلق نہیں رکھتا۔ مسلمان اس سے گریز کرتا ہے۔ چغل خوری سے چغل خور ایک انسان سے بات لے کر دوسرے تک اس کو پہلے سے بدظن کرنے یا برانگیختہ کرنے کے لیے نقل کرتا ہے۔ جس میں شرعاً کوئی مصلحت نہیں بلکہ کثیر مفاسد ہیں ۔ اسی لیے چغل خور کوسخت ترین وعیدیں سنائی گئیں ۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ((لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَتَّاتٌ))( صحیح بخاري، الأدب، باب ما یکره من النمیمة : 6056، صحیح مسلم، الایمان، باب بیان غلط تحریم النمیمة : 105۔) ’’چغل خور جنت میں نہیں جا سکے گا۔‘‘ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ’’ان دونوں قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور ان کو کسی بڑے کام میں عذاب نہیں ہو رہا، ان میں سے ایک پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا جبکہ دوسرا چغل خور تھا۔‘‘( صحیح بخاري، الجنائز، باب الجرید علی القبر : 1361، صحیح مسلم، الطهارة، باب الدلیل علی نجاسة البول : 292۔) (2) کینہ و بغض: انسانی معاشرے میں موجود ایک قبیح برائی کا نام بغض ہے اور یہ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جوانسان کسی دوسرے سے متعلق عداوت کی وجہ سے رکھتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سابقہ امتوں کی بیماری قرار دیا، سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((دَبَّ إِلَیْکُمْ دَائُ الْأُمَمِ قَبْلَکُمْ الْحَسَدُ وَالْبَغْضَائُ هِیَ الْحَالِقَةُ لَا أَقُولُ تَحْلِقُ الشَّعَرَ وَلَکِنْ تَحْلِقُ الدِّینَ))( سنن ترمذی، صفة القیامة، باب في فضل صلاح ذات البین : 2510، صحیح الترغیب والترهیب : 2888۔) ’’تمہارے اندر پہلی امتوں والی بیماری حسد اور بغض سرایت کر چکی ہے، باہم بغض رکھنا مونڈنے والی بیماری ہے، بالوں کو مونڈنے والی نہیں بلکہ دین کومونڈنے والی یعنی ختم کر دینے والی ہے۔‘‘ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر سوموار اور جمعرات کو جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں ۔ مشرک کے علاوہ ہر شخص کو بخش دیا جاتا ہے۔ سوائے ان دو آدمیوں کے جن کے درمیان کوئی بغض ہو۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہا جاتا ہے جب تک یہ دونوں صلح نہیں کر لیتے ان کو مہلت دو، ان دونوں کو صلح تک مہلت دو، ان دونوں کو صلح تک مہلت دو۔‘‘( صحیح مسلم،البر والصلة، باب النهی عن الشحناء : 2565۔) (3) عصبیت: دین اسلام نے جاہلی معاشرے کے تمام تفاخر کو ختم کردیا جن میں سے خاندان، قبیلے قوم یا برادری کے لیے حق و باطل کی تمیز کیے بغیر لڑنا ان کاساتھ دینا بھی شامل تھا اور اسی کانام عصبیت ہے۔ عصبیت کو گمراہی و ضلالت اور جاہلیت قرار دیا گیا ہے۔سیدنا جندب بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((مَنْ قُتِلَ تَحْتَ رَأیَةٍ عِمِّیَّةٍ یَدْعُو عَصَبِیَّةً اَوْ یَنْصُرُ عَصَبِیَّةً فَقِتْلَةٌ جَاهِلِیَّةٌ))( صحیح مسلم، الامارة، باب وجوب ملازمة جماعة المسلمین عند ظهور الفتن : 1850۔) ’’جو شخص گمراہی کے جھنڈے تلے جنگ کرتا مارا گیا۔ لوگوں کو عصبیت کی طرف دعوت دیتا ہے یا عصبیت کی بنیاد پر مددکرتا ہے تو اس کا قتل ہو جانا جاہلیت کی طرح ہے۔‘‘ صرف عصبیت کے لیے ناحق لڑنے والوں کی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے مثال دی تو فرمایا: ((مَنْ نَصَرَ قَوْمَهٗ عَلَی غَیْرِ الْحَقِّ فَهُوَ کَالْبَعِیْرِ الَّذِیق رَدٰی فَهُوَ یُنْزَعَِ بِذَنْبِهٖ))( سنن ابي داؤد، الأدب، باب في العصبیة : 5117۔) ’’جس نے اپنی قوم کی ناحق مدد کی تو اس کی مثال اس اونٹ کی سی ہے جو کنویں میں گرگیا ہو اور پھر اسے دم سے پکڑ کر کنویں سے نکالا جاتا ہے۔‘‘ (4):… مسلمان کا دل اخلاق رذیلہ سے پاک ہوتا ہے وہ دوسروں کی خیر خواہی و ہمدردی کے جذبہ سے سرشار دکھائی دیتا ہے۔ بری عادات و اطوار سے خود کو بچاتا ہے اور دوسروں کو بھی ان سے بچنے کی تلقین کرتا ہے۔ لیکن فی زمانہ ہم من حیث القوم اخلاقی انحطاط کا شکار ہوچکے ہیں ۔ میٹھی زبانوں کے پیچھے بھی بغض و عناد اور غلط سوچیں موجود ہوتی ہیں ۔ اللہ رب العزت ہمارے حال پررحم فرمائے: ذَهَبَ الْوَفَائُ ذِهَابَ أَمْسِ الذَّاهِبِ وَالنَّاسُ بَیْنَ مُخَاتِلِ وَمُحَارِبِ یُـفْشُوْنَ بَـیْنَهُمْ الْمَوَدَّةً وَالْوَفَا وَقُـلُوْبُهُمْ مَحْشُوَّةًٌ بِعَقَارِبٌ ’’وفاداری گزشتہ کل کے گزر جانے کی طرح اٹھ گئی اور لوگوں کا یہ حال ہے کہ کوئی مکار ہے تو کوئی جنگ جو ہے۔ ایک دوسرے سے محبت اورالفت جتاتے ہیں حالانکہ ان کے دل بچھوؤں سے بھرے ہوئے ہیں ۔ (ہر وقت کاٹنے کی فکر میں ہیں ۔)‘‘