مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 17

كِتَابُ بَابٌ وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: مَا زَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوصِي بِالصَّلَاةِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ حَتَّى انْكَسَرَ لِسَانُهُ

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 17

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل نماز اور غلاموں سے متعلق وصیت کرتے رہے حتی کہ آپ کی زبان مبارک خاموش ہو گئی۔
تشریح : (1) نماز کی اہمیت و فرضیت کے لیے دیکھئے فوائد حدیث نمبر 1۔ (2) غلاموں کے حقوق: عرب کی سرزمین پر اسلام کی کرنیں طلوع ہوئیں تو غلامی کی مختلف صورتیں موجود تھیں ۔ غلام بنیادی انسانی حقوق سے محروم تھے۔ اسلام نے غلاموں کو آزاد کرنے کی فضیلت بیان کی، مختلف کفارات میں غلاموں کو آزادی دلانے کا مطالبہ کیا۔ تاکہ بنی آدم غلامی کی ذلت سے آزاد ہوکر زندگی گزارسکیں ۔ شریعت نے غلامی کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا، البتہ غلاموں کے حقوق متعین فرمائے تاکہ وہ معاشرے میں عزت و وقار سے زندگی گزار سکیں ۔ چند بنیادی حقوق درج ذیل ہیں : (i) غلاموں سے حسن سلوک:… غلاموں سے اچھے سلوک کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوب تاکید فرمائی، مالک کو اپنے کھانے جیسا کھانا کھلانے، اپنے لباس جیسا لباس مہیا کرنے اوران سے اتنا ہی کام لینے کاحکم دیا جتنا کرنے کی ان میں سکت ہو۔ (ii) کام کاج میں معاونت کرنا:… غلام کا کام اپنے آقا و مالک کے امور حیات میں معاونت ہے۔ لہٰذا مالک کو تمام کام غلام کے سپرد کر کے اس پر بوجھ ڈالنے کی بجائے اس کے ساتھ معاونت کرنا چاہیے۔ شریعت اسلامیہ کا یہی تقاضا ہے۔ (iii) مالک کے مال میں تصرف:… غلام کو اپنے مالک کے مال میں معمولی تصرف کا اختیار حاصل ہے۔ عمیر رضی اللہ عنہ مولیٰ آ ل ابی لحم کہتے ہیں ، میں غلام تھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا میں اپنے آقا کے مال سے صدقہ کر سکتاہوں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں اور ثواب تم دونوں میں برابر تقسیم ہوگا۔‘‘( صحیح مسلم، الزکاة، باب ما انفق العبد من مال مولاهٗ : 1025۔) (iv) غلام کو تعلیم و تربیت دینا:… اسلام کایہ حسن ہے کہ ہرایک کو مثالی انسان دیکھنا چاہتا ہے، تاکہ مسلم معاشرہ پرسکون اور بابرکت ہو۔ لہٰذا غلاموں کی تعلیم وتربیت پر بھی خوب زور دیا گیا ہے۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کے پاس لونڈی ہو اور وہ اس کی اچھی تربیت کرے پھر آزاد کرنے کے بعد اسے عقد نکاح میں لے لے تو اس کے لیے دوگنا اجرو ثواب ہے۔‘‘( صحیح بخاری، العتق، باب فضل من ادب جاریته و علمها : 2544، صحیح مسلم، النکاح، باب فضیلة اعتاقة امته ثم یتزوجها : 154 قبل الحدیث : 1365۔) (3) غلام آزاد کرنے کی فضیلت: غلامی ذلت و رسوائی کا نام ہے اور آزادی سے بڑی نعمت کوئی نہیں لہٰذاکسی غلام کو آزادی دلانے سے بڑھ کر اس کے ساتھ حسن سلوک نہیں ہو سکتا، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا یَجْزِی وَلَدٌ وَالِدَهٗ إِلَّا أَنْ یَّجِدَهٗ مَمْلُوکًا فَیَشْتَرِیْهٖ فَیُعْتِقَهٗ))( صحیح مسلم، العتق، باب فضل عتق الوالد : 1510۔) ’’کوئی اولاد اپنے والد کا بدلہ نہیں چکا سکتی سوائے اس کے کہ اسے غلامی کی حالت میں پائے اور خرید کر آزاد کر دے۔‘‘ ایک اورحدیث میں غلام آزاد کرنے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ اَعْتَقَ رَقَبَةً مُوْمِنَةً اَعْتَقَ اللّٰهُ بَکُلِّ اِرْبٍ مِّنْهَا اِرْبًا مِنْهٗ منَِ النَّارِ حَتَّي اِنَّهٗ لَیُعْتِقُ بِالْیَدِ الْیَدَ وَبِالرِّجْلِ الرَّجْلَ وَبِالْفَرْجِ الْفَرْجَ))( ارواء الغلیل : 6/168۔) ’’جو شخص کسی مومن غلام کو آزاد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ایک ایک عضو کے عوض آزاد کرنے والے کے ایک ایک عضو کو جہنم کی آگ سے آزاد کر دیتے ہیں حتی کہ ہاتھ کے بدلے ہاتھ، پاؤں کے بدلے پاؤں اور شرمگاہ کے بدلے شرمگاہ کو آزاد کر دیتا ہے۔‘‘ (4) وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں اور اس پر کتاب وسنت کے بے شمار دلائل ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس بات پر اتفاق تھا۔ عربی زبان میں کسی کی وفات سے متعلق آگاہ کرنے کے لیے جتنے بھی الفاظ صراحتاً یا کنایۃً استعمال ہوتے ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کو استعمال کیا اور امت کو وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق آگاہی دی۔
تخریج : سنن ابن ماجة ، الجنائز، باب ذکر مرض رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم ، رقم الحدیث : 1625، مسند احمد : 6/311، 321، عن ام سلمة، الارواء الغلیل : 7/238، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ (1) نماز کی اہمیت و فرضیت کے لیے دیکھئے فوائد حدیث نمبر 1۔ (2) غلاموں کے حقوق: عرب کی سرزمین پر اسلام کی کرنیں طلوع ہوئیں تو غلامی کی مختلف صورتیں موجود تھیں ۔ غلام بنیادی انسانی حقوق سے محروم تھے۔ اسلام نے غلاموں کو آزاد کرنے کی فضیلت بیان کی، مختلف کفارات میں غلاموں کو آزادی دلانے کا مطالبہ کیا۔ تاکہ بنی آدم غلامی کی ذلت سے آزاد ہوکر زندگی گزارسکیں ۔ شریعت نے غلامی کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا، البتہ غلاموں کے حقوق متعین فرمائے تاکہ وہ معاشرے میں عزت و وقار سے زندگی گزار سکیں ۔ چند بنیادی حقوق درج ذیل ہیں : (i) غلاموں سے حسن سلوک:… غلاموں سے اچھے سلوک کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوب تاکید فرمائی، مالک کو اپنے کھانے جیسا کھانا کھلانے، اپنے لباس جیسا لباس مہیا کرنے اوران سے اتنا ہی کام لینے کاحکم دیا جتنا کرنے کی ان میں سکت ہو۔ (ii) کام کاج میں معاونت کرنا:… غلام کا کام اپنے آقا و مالک کے امور حیات میں معاونت ہے۔ لہٰذا مالک کو تمام کام غلام کے سپرد کر کے اس پر بوجھ ڈالنے کی بجائے اس کے ساتھ معاونت کرنا چاہیے۔ شریعت اسلامیہ کا یہی تقاضا ہے۔ (iii) مالک کے مال میں تصرف:… غلام کو اپنے مالک کے مال میں معمولی تصرف کا اختیار حاصل ہے۔ عمیر رضی اللہ عنہ مولیٰ آ ل ابی لحم کہتے ہیں ، میں غلام تھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا میں اپنے آقا کے مال سے صدقہ کر سکتاہوں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں اور ثواب تم دونوں میں برابر تقسیم ہوگا۔‘‘( صحیح مسلم، الزکاة، باب ما انفق العبد من مال مولاهٗ : 1025۔) (iv) غلام کو تعلیم و تربیت دینا:… اسلام کایہ حسن ہے کہ ہرایک کو مثالی انسان دیکھنا چاہتا ہے، تاکہ مسلم معاشرہ پرسکون اور بابرکت ہو۔ لہٰذا غلاموں کی تعلیم وتربیت پر بھی خوب زور دیا گیا ہے۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کے پاس لونڈی ہو اور وہ اس کی اچھی تربیت کرے پھر آزاد کرنے کے بعد اسے عقد نکاح میں لے لے تو اس کے لیے دوگنا اجرو ثواب ہے۔‘‘( صحیح بخاری، العتق، باب فضل من ادب جاریته و علمها : 2544، صحیح مسلم، النکاح، باب فضیلة اعتاقة امته ثم یتزوجها : 154 قبل الحدیث : 1365۔) (3) غلام آزاد کرنے کی فضیلت: غلامی ذلت و رسوائی کا نام ہے اور آزادی سے بڑی نعمت کوئی نہیں لہٰذاکسی غلام کو آزادی دلانے سے بڑھ کر اس کے ساتھ حسن سلوک نہیں ہو سکتا، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا یَجْزِی وَلَدٌ وَالِدَهٗ إِلَّا أَنْ یَّجِدَهٗ مَمْلُوکًا فَیَشْتَرِیْهٖ فَیُعْتِقَهٗ))( صحیح مسلم، العتق، باب فضل عتق الوالد : 1510۔) ’’کوئی اولاد اپنے والد کا بدلہ نہیں چکا سکتی سوائے اس کے کہ اسے غلامی کی حالت میں پائے اور خرید کر آزاد کر دے۔‘‘ ایک اورحدیث میں غلام آزاد کرنے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ اَعْتَقَ رَقَبَةً مُوْمِنَةً اَعْتَقَ اللّٰهُ بَکُلِّ اِرْبٍ مِّنْهَا اِرْبًا مِنْهٗ منَِ النَّارِ حَتَّي اِنَّهٗ لَیُعْتِقُ بِالْیَدِ الْیَدَ وَبِالرِّجْلِ الرَّجْلَ وَبِالْفَرْجِ الْفَرْجَ))( ارواء الغلیل : 6/168۔) ’’جو شخص کسی مومن غلام کو آزاد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ایک ایک عضو کے عوض آزاد کرنے والے کے ایک ایک عضو کو جہنم کی آگ سے آزاد کر دیتے ہیں حتی کہ ہاتھ کے بدلے ہاتھ، پاؤں کے بدلے پاؤں اور شرمگاہ کے بدلے شرمگاہ کو آزاد کر دیتا ہے۔‘‘ (4) وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں اور اس پر کتاب وسنت کے بے شمار دلائل ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس بات پر اتفاق تھا۔ عربی زبان میں کسی کی وفات سے متعلق آگاہ کرنے کے لیے جتنے بھی الفاظ صراحتاً یا کنایۃً استعمال ہوتے ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کو استعمال کیا اور امت کو وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق آگاہی دی۔