مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 15

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَخْلَدٍ، عَنْ مُعَرِّفِ بْنِ وَاصِلٍ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 15

کتاب باب ہمیں حدیث بیان کی ابو امیہ نے انہوں نے کہا ہمیں حدیث بیان کی کثیر بن عبید نے انہوں نے کہا،ہمیں حدیث بیان کی محمد بن مخلد نے معرف بن واصل سے، انہوں نے محارب بن دثار سے، انہوں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گزشتہ حدیث کی مانند بیان کیا۔
تشریح : (1) طلاق ایک ناپسندیدہ عمل: نکاح ایک عظیم نعمت ہے جس کی بنا پر دو افراد اور ان کے خاندان الفت و محبت کے رشتہ میں جڑتے ہیں ۔ نیک اولاد کے حصول، نسل انسانی کی بقا اور تکمیل ایمان کے لیے دین اسلام نے نکاح کی ترغیب دلائی۔ بعد از نکاح خاوند اور بیوی کو ایک دوسرے کے حقوق اداکرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ہر ایک کو حقوق و فرائض کی تفصیل سے آگاہ کیا گیا ہے۔ اگر ازدواجی زندگی میں باہمی اعتماد، الفت و محبت میں کمی ہوجائے تو شریعت نے اس رشتہ کی نزاکتوں کے موافق ہدایات جاری کیں ۔ خاوند کو صبر، برداشت اور بہتر رویے کا حکم دیا۔ معاملہ زیادہ خراب ہو تو بیوی کو سمجھانے، اس سے بستر الگ کرنے، ہلکی پھلکی سزا دینے کے آپشن (Option) رکھے، اگر مذکورہ بالا سبھی تدبیریں ناکام ہوجائیں تو دونوں خاندانوں کے صاحب فراست،سنجیدہ لوگوں کے ذریعہ اعتماد کو بحال کرنے اور غلط فہمیوں کے ازالے کی تجویز دی گئی ہے۔ اگر اس کے باوجود کوئی حل نہ نکلے اور میاں بیوی آپس میں اکٹھے نہ رہنا چاہیں تو خاوند کو طلاق اور بیوی کو خلع کا حق دیا گیا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں طلاق کا کوئی ضابطہ و قانون نہ تھا۔ خاوند جب چاہتا اپنی منکوحہ کو طلاق دے دیتا، جب چاہتا رجوع کر لیتا۔ اسلام نے اس لاقانونیت کا خاتمہ کیا اور مرد کو صرف تین بار وقفہ وقفہ سے طلاق کا حق دیا اور اس کے بعد اس رشتہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ طلاق شرعاً جائز ہونے کے باوجود عند اللہ ایک ناپسندیدہ عمل ہے کیونکہ طلاق کی وجہ سے دو افراد، دو خاندان آپس میں رشتہ و ناطہ سے محروم ہوجاتے ہیں ، اولاد ہونے کی صورت میں بچوں کی تربیت پر منفی اثرات پڑتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے بچے معاشرے میں احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں ۔ (2) طلاق کا مسنون طریقہ: طلاق کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ خاوند بیوی کو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں اس سے ہم بستری نہ کی ہو اور ایک ہی طلاق دے۔بعد از طلاق عورت عدت خاوند کے گھر گزارے گی اور اس دوران نان و نفقہ بذمہ خاوند ہوگا۔ اگر دوران عدت رجوع کرنا چاہے تو خاوند کو بلانکاح رجوع وصلح کا حق حاصل ہے۔ بعد از القضاء عدت صلح و رجوع تجدید نکاح سے ہوگا۔ ایک مجلس میں بیک وقت تین طلاق دینا: اکٹھی تین طلاقیں دینا بالاتفاق شرعاً ناپسندیدہ عمل ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین طلاق دینے والے پر سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ((أَیُلْعَبُ بِکِتَابِ اللّٰهِ وَاَنَا بَیْنَ اَظْهُرِکُمْ؟)) (سنن نسائي، الطلاق، باب الثلاث المجموعة وما فیه من التغلیظ : 3430، اس کی سند ’’صحیح‘‘ ہے۔) ’’کیا میری موجودگی میں اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلا جاتا ہے؟‘‘ اگر کوئی شخص اس ناپسندیدہ عمل کا ارتکاب کرتے ہوئے مجلس واحد میں اپنی منکوحہ کو بیک وقت تین طلاقیں دے دے تو ایسی طلاقوں کو شرعاً ایک ہی شمار کیا گیا ہے۔ عہد رسالت مأب صلی اللہ علیہ وسلم میں یہی طریق کار رائج تھا چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ((کَانَ الطَّلَاقُ عَلٰی عَهْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم وَأَبِی بَکْرٍ وَسَنَتَیْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً))( صحیح مسلم، الطلاق، باب طلاق الثلاث : 1472۔) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد میں اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں اکٹھی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا۔‘‘
تخریج : اس سے قبل حدیث 14 کی تخریج دیکھیں ۔ (1) طلاق ایک ناپسندیدہ عمل: نکاح ایک عظیم نعمت ہے جس کی بنا پر دو افراد اور ان کے خاندان الفت و محبت کے رشتہ میں جڑتے ہیں ۔ نیک اولاد کے حصول، نسل انسانی کی بقا اور تکمیل ایمان کے لیے دین اسلام نے نکاح کی ترغیب دلائی۔ بعد از نکاح خاوند اور بیوی کو ایک دوسرے کے حقوق اداکرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ہر ایک کو حقوق و فرائض کی تفصیل سے آگاہ کیا گیا ہے۔ اگر ازدواجی زندگی میں باہمی اعتماد، الفت و محبت میں کمی ہوجائے تو شریعت نے اس رشتہ کی نزاکتوں کے موافق ہدایات جاری کیں ۔ خاوند کو صبر، برداشت اور بہتر رویے کا حکم دیا۔ معاملہ زیادہ خراب ہو تو بیوی کو سمجھانے، اس سے بستر الگ کرنے، ہلکی پھلکی سزا دینے کے آپشن (Option) رکھے، اگر مذکورہ بالا سبھی تدبیریں ناکام ہوجائیں تو دونوں خاندانوں کے صاحب فراست،سنجیدہ لوگوں کے ذریعہ اعتماد کو بحال کرنے اور غلط فہمیوں کے ازالے کی تجویز دی گئی ہے۔ اگر اس کے باوجود کوئی حل نہ نکلے اور میاں بیوی آپس میں اکٹھے نہ رہنا چاہیں تو خاوند کو طلاق اور بیوی کو خلع کا حق دیا گیا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں طلاق کا کوئی ضابطہ و قانون نہ تھا۔ خاوند جب چاہتا اپنی منکوحہ کو طلاق دے دیتا، جب چاہتا رجوع کر لیتا۔ اسلام نے اس لاقانونیت کا خاتمہ کیا اور مرد کو صرف تین بار وقفہ وقفہ سے طلاق کا حق دیا اور اس کے بعد اس رشتہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ طلاق شرعاً جائز ہونے کے باوجود عند اللہ ایک ناپسندیدہ عمل ہے کیونکہ طلاق کی وجہ سے دو افراد، دو خاندان آپس میں رشتہ و ناطہ سے محروم ہوجاتے ہیں ، اولاد ہونے کی صورت میں بچوں کی تربیت پر منفی اثرات پڑتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے بچے معاشرے میں احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں ۔ (2) طلاق کا مسنون طریقہ: طلاق کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ خاوند بیوی کو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں اس سے ہم بستری نہ کی ہو اور ایک ہی طلاق دے۔بعد از طلاق عورت عدت خاوند کے گھر گزارے گی اور اس دوران نان و نفقہ بذمہ خاوند ہوگا۔ اگر دوران عدت رجوع کرنا چاہے تو خاوند کو بلانکاح رجوع وصلح کا حق حاصل ہے۔ بعد از القضاء عدت صلح و رجوع تجدید نکاح سے ہوگا۔ ایک مجلس میں بیک وقت تین طلاق دینا: اکٹھی تین طلاقیں دینا بالاتفاق شرعاً ناپسندیدہ عمل ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین طلاق دینے والے پر سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ((أَیُلْعَبُ بِکِتَابِ اللّٰهِ وَاَنَا بَیْنَ اَظْهُرِکُمْ؟)) (سنن نسائي، الطلاق، باب الثلاث المجموعة وما فیه من التغلیظ : 3430، اس کی سند ’’صحیح‘‘ ہے۔) ’’کیا میری موجودگی میں اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلا جاتا ہے؟‘‘ اگر کوئی شخص اس ناپسندیدہ عمل کا ارتکاب کرتے ہوئے مجلس واحد میں اپنی منکوحہ کو بیک وقت تین طلاقیں دے دے تو ایسی طلاقوں کو شرعاً ایک ہی شمار کیا گیا ہے۔ عہد رسالت مأب صلی اللہ علیہ وسلم میں یہی طریق کار رائج تھا چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ((کَانَ الطَّلَاقُ عَلٰی عَهْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم وَأَبِی بَکْرٍ وَسَنَتَیْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً))( صحیح مسلم، الطلاق، باب طلاق الثلاث : 1472۔) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد میں اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں اکٹھی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا۔‘‘