مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 13

كِتَابُ بَابٌ وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْمُؤَذِّنُونَ أَطْوَلُ النَّاسِ أَعْنَاقًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَهُمْ أَوَّلُ مَنْ يُكْسَى»

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 13

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اذان دینے والے قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ لمبی گردنوں والے ہوں گے اور انہیں سب سے پہلے لباس پہنایا جائے گا۔
تشریح : (1) اذان کی مشروعیت: اذان مسلم معاشرے کی علامت اور اسلام کے شعائرمیں سے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ ہجرت کرکے تشریف لائے تو مسلمانوں کو عبادت کے لیے اکٹھا کرنے کے طریقہ کار پر مشاورت ہوئی، کسی نے یہودیوں کی طر ح بگل بجانے تو کسی نے عیسائیوں کی طرح ناقوس بجانے اور کسی نے مجوسیوں کی طرح آگ جلانے کا مشور ہ دیا، لیکن یہ سبھی آراء، کفار و مشرکین کے طریقے ہونے کی وجہ سے رد کر دی گئیں ، سیدنا عبداللہ بن زید بن عبد ربہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خواب آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن زید کے خواب کی تصدیق فرمائی اورانہیں کلمات اذان سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو سکھانے کا کہا، تب سے موجودہ کلمات اذان کے ساتھ نماز کے لیے منادی کی جا رہی ہے۔ کسی بھی علاقے میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے نما ز پنجگانہ اور جمعہ کے لیے اذان دینا لازم ہے کیونکہ اذان سے مسلم و غیر مسلم آبادی کا فرق معلوم ہوتا ہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قوم پر حملہ کرنا چاہتے تو صبح تک انتظارکرتے، اگراذان سن لیتے تو رک جاتے اور اگر اذان نہ سنتے تو صبح ہوتے ہی حملہ کر دیتے تھے۔‘‘( صحیح بخاری، الجهاد، باب دعاء النبی صلي اللّٰه عليه وسلم الی الاسلام : 2943۔) (2) مؤذن کی فضیلت: اذان دینے والے روز قیامت اللہ رب العزت کی بارگاہ میں شرف و عزت سے نوازے جائیں گے ان لوگوں کو مرتبے میں بلند مقام حاصل ہوگا اور ان کی امتیازی پہچان ہوگی کہ مؤذنوں کی گردنیں سب سے اونچی ہوں گی۔ اذان دینے والے افراد کے لیے زبان نبوت سے دعا کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((الْإِمَامُ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنُ مُؤْتَمَنٌ اللّٰهُمَّ أَرْشِدِ الْأَئِمَّةَ وَاغْفِرْ لِلْمُؤَذِّنِینَ))( سنن ابی داؤد، الصلاة، باب ما یجب علي المؤذن من تعاهد الوقت : 517، سنن ترمذي، الأذان، باب ما جاء ان الامام ضامن والمؤذن مؤتمن : 207، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) ’’امام ضامن، ذمہ دار ہے اور مؤذن قابل اعتماد اور امین ہے، اے اللہ! اماموں کو (صحیح علم و عمل کی) ہدایت دے اور اذان دینے والوں کی مغفرت فرما۔‘‘ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ((اَلْمُؤَذَّنُ یُغْفَرُلَهٗ بِمَدِّ صَوْتِهٖ وَیَشْهَدُ لَهٗ کُلَّ رَطْبٍ وَیَابِسٍ))( سنن نسائي، الاذان، باب رفع الصوت بالاذان : 645، سنن أبی داؤد، الصلاة، باب رفع الصوت بالأذان : 515، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) ’’مؤذن کو بلند آواز سے اذان کہنے کی وجہ سے بخش دیاجاتا ہے اوراس کے لیے ہر تر اور خشک چیز گواہی دے گی۔‘‘ (3) میدان محشر میں لوگوں کی حالت: میدان محشر میں لوگوں کو اسی حالت میں اٹھایاجائے گا جس حالت میں اس دنیا میں آئے۔ عمل کے علاوہ دنیا کی کوئی چیز ساتھ نہ ہو گی۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نصیحت کی خاطر خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ((یَا أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّکُمْ مَحْشُورُونَ إِلَی اللّٰهِ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا ثُمَّ قَالَ ﴿ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُ ۚ وَعْدًا عَلَيْنَا ۚ إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ﴾)) (الانبیاء : 104)( صحیح بخاري، احادیث الانبیاء، باب قول اللّٰه تعالي، اتخذوا اللّٰه ابراهیم خلیلا : 3349، صحیح مسلم، کتاب الجنة والصفة نعیمها وأهلها، باب فناء الدنیا : 2860۔) ’’اے لوگو! تم اللہ کی طرف اس حال میں اٹھائے جاؤ گے کہ ننگے پاؤں ، ننگے بدن، بغیر ختنے کے ہوگے، (پھر یہ آیت تلاوت فرمائی) ’’جس طرح ہم نے پہلی پیدائش کی ابتداء کی اسی طرح ہم اسے لوٹائیں گے، یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے، یقینا ہم کرنے والے ہیں ۔‘‘ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کو روز قیامت سب سے پہلے لباس مہیا کیا جائے گا۔
تخریج : صحیح مسلم، الصلاة، باب فضل الأذان وهرب الشیطان عند سماعه، رقم الحدیث : 387، عن معاویة بن ابی سفیان، دون ’’وهم اول من یکسٰی‘‘ (1) اذان کی مشروعیت: اذان مسلم معاشرے کی علامت اور اسلام کے شعائرمیں سے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ ہجرت کرکے تشریف لائے تو مسلمانوں کو عبادت کے لیے اکٹھا کرنے کے طریقہ کار پر مشاورت ہوئی، کسی نے یہودیوں کی طر ح بگل بجانے تو کسی نے عیسائیوں کی طرح ناقوس بجانے اور کسی نے مجوسیوں کی طرح آگ جلانے کا مشور ہ دیا، لیکن یہ سبھی آراء، کفار و مشرکین کے طریقے ہونے کی وجہ سے رد کر دی گئیں ، سیدنا عبداللہ بن زید بن عبد ربہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خواب آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن زید کے خواب کی تصدیق فرمائی اورانہیں کلمات اذان سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو سکھانے کا کہا، تب سے موجودہ کلمات اذان کے ساتھ نماز کے لیے منادی کی جا رہی ہے۔ کسی بھی علاقے میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے نما ز پنجگانہ اور جمعہ کے لیے اذان دینا لازم ہے کیونکہ اذان سے مسلم و غیر مسلم آبادی کا فرق معلوم ہوتا ہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قوم پر حملہ کرنا چاہتے تو صبح تک انتظارکرتے، اگراذان سن لیتے تو رک جاتے اور اگر اذان نہ سنتے تو صبح ہوتے ہی حملہ کر دیتے تھے۔‘‘( صحیح بخاری، الجهاد، باب دعاء النبی صلي اللّٰه عليه وسلم الی الاسلام : 2943۔) (2) مؤذن کی فضیلت: اذان دینے والے روز قیامت اللہ رب العزت کی بارگاہ میں شرف و عزت سے نوازے جائیں گے ان لوگوں کو مرتبے میں بلند مقام حاصل ہوگا اور ان کی امتیازی پہچان ہوگی کہ مؤذنوں کی گردنیں سب سے اونچی ہوں گی۔ اذان دینے والے افراد کے لیے زبان نبوت سے دعا کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((الْإِمَامُ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنُ مُؤْتَمَنٌ اللّٰهُمَّ أَرْشِدِ الْأَئِمَّةَ وَاغْفِرْ لِلْمُؤَذِّنِینَ))( سنن ابی داؤد، الصلاة، باب ما یجب علي المؤذن من تعاهد الوقت : 517، سنن ترمذي، الأذان، باب ما جاء ان الامام ضامن والمؤذن مؤتمن : 207، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) ’’امام ضامن، ذمہ دار ہے اور مؤذن قابل اعتماد اور امین ہے، اے اللہ! اماموں کو (صحیح علم و عمل کی) ہدایت دے اور اذان دینے والوں کی مغفرت فرما۔‘‘ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ((اَلْمُؤَذَّنُ یُغْفَرُلَهٗ بِمَدِّ صَوْتِهٖ وَیَشْهَدُ لَهٗ کُلَّ رَطْبٍ وَیَابِسٍ))( سنن نسائي، الاذان، باب رفع الصوت بالاذان : 645، سنن أبی داؤد، الصلاة، باب رفع الصوت بالأذان : 515، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) ’’مؤذن کو بلند آواز سے اذان کہنے کی وجہ سے بخش دیاجاتا ہے اوراس کے لیے ہر تر اور خشک چیز گواہی دے گی۔‘‘ (3) میدان محشر میں لوگوں کی حالت: میدان محشر میں لوگوں کو اسی حالت میں اٹھایاجائے گا جس حالت میں اس دنیا میں آئے۔ عمل کے علاوہ دنیا کی کوئی چیز ساتھ نہ ہو گی۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نصیحت کی خاطر خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ((یَا أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّکُمْ مَحْشُورُونَ إِلَی اللّٰهِ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا ثُمَّ قَالَ ﴿ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُ ۚ وَعْدًا عَلَيْنَا ۚ إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ﴾)) (الانبیاء : 104)( صحیح بخاري، احادیث الانبیاء، باب قول اللّٰه تعالي، اتخذوا اللّٰه ابراهیم خلیلا : 3349، صحیح مسلم، کتاب الجنة والصفة نعیمها وأهلها، باب فناء الدنیا : 2860۔) ’’اے لوگو! تم اللہ کی طرف اس حال میں اٹھائے جاؤ گے کہ ننگے پاؤں ، ننگے بدن، بغیر ختنے کے ہوگے، (پھر یہ آیت تلاوت فرمائی) ’’جس طرح ہم نے پہلی پیدائش کی ابتداء کی اسی طرح ہم اسے لوٹائیں گے، یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے، یقینا ہم کرنے والے ہیں ۔‘‘ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کو روز قیامت سب سے پہلے لباس مہیا کیا جائے گا۔