مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 11

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَّيَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ قَالَ: سَمِعْتُ مُحَارِبَ بْنَ دِثَارٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «تَوَضَّئُوا مِنْ لُحُومِ الْإِبِلِ، وَلَا تَوَضَّئُوا مِنْ لُحُومِ الْغَنَمِ، وَتَوَضَّئُوا مِنْ أَلْبَانِ الْإِبِلِ، وَلَا تَوَضَّئُوا مِنْ أَلْبَانِ الْغَنَمِ، وَصَلُّوا فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ، وَلَا تُصَلُّوا فِي مَعَاطِنِ الْإِبِلِ»

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 11

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ’’اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرو اور بکری کا گوشت کھانے سے وضو نہ کرو، اونٹنیوں کا دودھ پینے سے وضو کرو اور بکریوں کا دودھ پینے سے وضو نہ کرو۔ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھو اور اونٹوں کے باڑے میں نماز نہ پڑھو۔‘‘
تشریح : (1) وضوء کی اہمیت: شریعت اسلامیہ میں طہارت و نظافت کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔ ایک مسلمان کے لیے پاک صاف رہنا ازحد ضروری ہے، عبادت کی ادائیگی جسمانی طہارت کا مطالبہ کرتی ہے۔ نماز ام العبادات ہے جس کے لیے جگہ، بدن اور لباس کا پاک و صاف ہونا لازم و ضروری ہے۔ وضو کوہرنماز کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے۔ بغیر وضوء نماز قبول نہیں ہوتی، ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((لَا تُقْبَلُ صَلٰوةٌ بِغَیْرِ طُهُورٍ))( صحیح مسلم، الطهارة، باب وجوب الطهارة للصلاة :224۔) ’’وضو کے بغیر نماز قبول نہیں ہوتی۔‘‘ وضوء وہی صحیح اور قابل قبول ہے جو حکم الٰہی اور طریقۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق ہو۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((مَنْ أَتَمَّ الْوُضُوْئَ کَمَا أَمَرَہُ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ فَالصَّلَوَاتُ الْمَکْتُوبَاتُ کَفَّارَاتٌ لِّمَا بَیْنَهُنَّ))( صحیح مسلم، الطهارۃ، باب فضل الوضوء والصلاۃ عقبه : 231۔) ’’جس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مکمل وضو کیا تو اس کی فرض نمازیں کفارہ ہوں گی،ان گناہوں کا جو ان کے درمیان ہوئے۔‘‘ (2) نواقض الوضوء: وہ امور جن سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ان میں پیشاب و پاخانہ کا آنا، ہواکا خارج ہونا، مذی کا نکلنا، خونِ استحاضہ کا آنا، شرمگاہ کو بغیر کپڑے کے ہاتھ لگنا، گہری نیند لیٹ کر یا ٹیک لگا کر سونا، ہیں ۔ اسی طرح جن چیزوں سے غسل ٹوٹ جاتا ہے مثلاً جماع، احتلام، حیض و نفاس ان سے وضوء بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ درج بالا نواقص وضو کے علاوہ اونٹ کا گوشت کھانے سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوء کرنے کا حکم دیا ہے۔سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا میں بکری کے گوشت سے وضوء کروں ؟ تو آپ نے فرمایا: ’’اگر تو چاہے تو وضوء کر لے اور اگر تو چاہے تو وضو نہ کر۔‘‘ اس نے پھر پوچھا: کیا میں اونٹ کا گوشت کھانے سے وضوء کروں ؟ تو آپ نے فرمایا: ہاں ، اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضوء کر۔‘‘( صحیح مسلم، الحیض، باب الوضوء، من لحوم الابل : 360۔) (3) وہ جگہیں جہاں نماز پڑھنا جائز ہے: مسلم معاشرے میں مسجد کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، مسجد شعائر اسلام میں سے ہے اور مسلم سوسائٹی کی عمارات میں سے اہم ترین عمارت مسجد ہے جہاں مسلمان پانچ وقت نماز کی ادائیگی اور ہفتہ وار خطبہ جمعہ کے لیے حاضر ہوتے ہیں ۔ مساجد کی تعمیر کا بنیادی مقصد نماز کی ادائیگی اور کتاب و سنت کی تعلیم و تدریس ہے۔ تاہم مساجد کے علاوہ چند مخصوص مقامات کے سوا ہر جگہ نماز پڑھنا جائز و درست ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا فرمایا: ((وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا فَأَیُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِی أَدْرَکَتْهُ الصَّلَاۃُ فَلْیُصَلِّ))( صحیح بخاري، الصلاۃ، باب قول النبي صلي اللّٰه عليه وسلم جعلت لي الارض مسجدا و طهورا : 438، صحیح مسلم، المساجد، باب المساجد ومواضع الصلاۃ : 521۔) ’’میرے لیے ساری زمین کو مسجد اور پاک بنا دیاگیا ہے،لہٰذا میری امت کے جس شخص کی نماز کا جہاں وقت ہو جائے وہ وہیں پر نماز پڑھ لے۔‘‘ (4) وہ جگہیں جہاں نماز ممنوع ہے: ساری زمین کو مسجد قرار دیا گیا ہے لیکن کچھ مقامات ایسے ہیں جن کی مخصوص حالت کی وجہ سے وہاں نماز ممنوع ہے جن میں پیشاب و پاخانہ اور غسل کے لیے مخصوص مقامات، قبرستان، کوڑا کرکٹ اور دیگر گندگی والے مقامات ان میں اونٹوں کا باڑہ بھی شامل ہے۔ اسی طرح جن کمروں کی دیواروں پر جانداروں کی تصاویر یا مجسمے ہوں ، ایسا مقام جہاں سامنے قبر ہو وہاں بھی نماز پڑھنا ممنوع ہے۔
تخریج : سنن ابن ماجة ، الطهارة، باب ما جاء في الوضوء من لحوم الابل، رقم الحدیث : 497 محدث البانی نے اسے ’’وتوضواء من البان الابل ولا توضؤا من البان الغنم کے علاوہ ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔ (1) وضوء کی اہمیت: شریعت اسلامیہ میں طہارت و نظافت کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔ ایک مسلمان کے لیے پاک صاف رہنا ازحد ضروری ہے، عبادت کی ادائیگی جسمانی طہارت کا مطالبہ کرتی ہے۔ نماز ام العبادات ہے جس کے لیے جگہ، بدن اور لباس کا پاک و صاف ہونا لازم و ضروری ہے۔ وضو کوہرنماز کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے۔ بغیر وضوء نماز قبول نہیں ہوتی، ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((لَا تُقْبَلُ صَلٰوةٌ بِغَیْرِ طُهُورٍ))( صحیح مسلم، الطهارة، باب وجوب الطهارة للصلاة :224۔) ’’وضو کے بغیر نماز قبول نہیں ہوتی۔‘‘ وضوء وہی صحیح اور قابل قبول ہے جو حکم الٰہی اور طریقۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق ہو۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((مَنْ أَتَمَّ الْوُضُوْئَ کَمَا أَمَرَہُ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ فَالصَّلَوَاتُ الْمَکْتُوبَاتُ کَفَّارَاتٌ لِّمَا بَیْنَهُنَّ))( صحیح مسلم، الطهارۃ، باب فضل الوضوء والصلاۃ عقبه : 231۔) ’’جس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مکمل وضو کیا تو اس کی فرض نمازیں کفارہ ہوں گی،ان گناہوں کا جو ان کے درمیان ہوئے۔‘‘ (2) نواقض الوضوء: وہ امور جن سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ان میں پیشاب و پاخانہ کا آنا، ہواکا خارج ہونا، مذی کا نکلنا، خونِ استحاضہ کا آنا، شرمگاہ کو بغیر کپڑے کے ہاتھ لگنا، گہری نیند لیٹ کر یا ٹیک لگا کر سونا، ہیں ۔ اسی طرح جن چیزوں سے غسل ٹوٹ جاتا ہے مثلاً جماع، احتلام، حیض و نفاس ان سے وضوء بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ درج بالا نواقص وضو کے علاوہ اونٹ کا گوشت کھانے سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوء کرنے کا حکم دیا ہے۔سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا میں بکری کے گوشت سے وضوء کروں ؟ تو آپ نے فرمایا: ’’اگر تو چاہے تو وضوء کر لے اور اگر تو چاہے تو وضو نہ کر۔‘‘ اس نے پھر پوچھا: کیا میں اونٹ کا گوشت کھانے سے وضوء کروں ؟ تو آپ نے فرمایا: ہاں ، اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضوء کر۔‘‘( صحیح مسلم، الحیض، باب الوضوء، من لحوم الابل : 360۔) (3) وہ جگہیں جہاں نماز پڑھنا جائز ہے: مسلم معاشرے میں مسجد کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، مسجد شعائر اسلام میں سے ہے اور مسلم سوسائٹی کی عمارات میں سے اہم ترین عمارت مسجد ہے جہاں مسلمان پانچ وقت نماز کی ادائیگی اور ہفتہ وار خطبہ جمعہ کے لیے حاضر ہوتے ہیں ۔ مساجد کی تعمیر کا بنیادی مقصد نماز کی ادائیگی اور کتاب و سنت کی تعلیم و تدریس ہے۔ تاہم مساجد کے علاوہ چند مخصوص مقامات کے سوا ہر جگہ نماز پڑھنا جائز و درست ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا فرمایا: ((وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا فَأَیُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِی أَدْرَکَتْهُ الصَّلَاۃُ فَلْیُصَلِّ))( صحیح بخاري، الصلاۃ، باب قول النبي صلي اللّٰه عليه وسلم جعلت لي الارض مسجدا و طهورا : 438، صحیح مسلم، المساجد، باب المساجد ومواضع الصلاۃ : 521۔) ’’میرے لیے ساری زمین کو مسجد اور پاک بنا دیاگیا ہے،لہٰذا میری امت کے جس شخص کی نماز کا جہاں وقت ہو جائے وہ وہیں پر نماز پڑھ لے۔‘‘ (4) وہ جگہیں جہاں نماز ممنوع ہے: ساری زمین کو مسجد قرار دیا گیا ہے لیکن کچھ مقامات ایسے ہیں جن کی مخصوص حالت کی وجہ سے وہاں نماز ممنوع ہے جن میں پیشاب و پاخانہ اور غسل کے لیے مخصوص مقامات، قبرستان، کوڑا کرکٹ اور دیگر گندگی والے مقامات ان میں اونٹوں کا باڑہ بھی شامل ہے۔ اسی طرح جن کمروں کی دیواروں پر جانداروں کی تصاویر یا مجسمے ہوں ، ایسا مقام جہاں سامنے قبر ہو وہاں بھی نماز پڑھنا ممنوع ہے۔