مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 1

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَّيَةَ،، حَدَّثَنَا أَسِيدُ بْنُ زَيْدٍ الْجَمَّالُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَطِيَّةَ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ، فَكَانَ فِي الْحَضَرِ إِذَا صَلَّى الظُّهْرَ صَلَّى أَرْبَعًا، وَبَعْدَهَا ثِنْتَيْنِ، وَإِذَا صَلَّى الْعَصْرَ صَلَّى أَرْبَعًا، وَلَمْ يُصَلِّ بَعْدَهَا شَيْئًا، وَإِذَا صَلَّى الْمَغْرِبَ صَلَّى ثَلَاثًا، وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، وَإِذَا صَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ صَلَّى أَرْبَعًا، وَبَعْدَهَا ثِنْتَيْنِ. وَصَحِبْتُهُ فِي السَّفَرِ فَإِذَا صَلَّى الظُّهْرَ صَلَّى ثِنْتَيْنِ، وَبَعْدَهَا ثِنْتَيْنِ، وَإِذَا صَلَّى الْعَصْرَ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَلَمْ يُصَلِّ بَعْدَهَا شَيْئًا، وَإِذَا صَلَّى الْمَغْرِبَ صَلَّى ثَلَاثًا وَبَعْدَهَا ثِنْتَيْنِ، وَقَالَ هَذَا وِتْرُ النَّهَارِ، يَخْتِمُ بِهِ النَّهَارَ وَيَفْتَتِحُ اللَّيْلَ بِوِتْرٍ، وَإِذَا صَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَبَعْدَهَا ثِنْتَيْنِ

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 1

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: میں حضر اور سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا، آپ حضر میں جب ظہر کی نماز پڑھتے تو چار رکعات (فرض) اور ان کے بعد دو رکعات پڑھتے اور جب عصر کی نماز پڑھتے تو (صرف) چار رکعات (فرض ہی) پڑھتے اور ان کے بعد کوئی نماز نہ پڑھتے اور جب مغرب کی نماز پڑھتے تو تین رکعات (فرض) پڑھتے اور ان کے بعد دو رکعات پڑھتے اور جب عشاء کی نماز ادا کرتے تو چار رکعات فرض ادا کرتے اور ان کے بعد دو رکعات پڑھتے تھے۔ اور میں سفر میں آپ کے ساتھ رہا تو آپ جب ظہر کی نماز پڑھتے تو دو رکعات (فرض) پڑھتے اور ان کے بعد (بھی) دو رکعات پڑھتے تھے اور جب عصر کی نماز پڑھتے تو (صرف) دو رکعات پڑھتے، ان کے بعد کوئی نماز نہ پڑھتے اور جب مغرب کی نماز پڑھتے تو تین رکعات (فرض) پڑھتے اور ان کے بعد دو رکعات پڑھتے تھے اورکہا: یہ (نماز مغرب)دن کے وتر ہیں جن کے ساتھ دن ختم ہو جاتا ہے اور رات کا آغاز ہوتا ہے اور جب عشاء کی نما زپڑھتے تو دو رکعات پڑھتے اور ان کے بعد (بھی) دو رکعات پڑھتے تھے۔
تشریح : (1) نماز کی اہمیت و فرضیت نماز دین اسلام کا بنیادی رکن ہے۔ جس کو ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض کیا گیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ ‎﴾ (البقرہ : 43) ’’اور نماز قائم کرو اور زکاۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘ شہادتین کے بعد ہر مسلمان سے نماز کی ادائیگی کا تقاضا کیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف روانہ کیا تو فرمایا: ((إِنَّكَ تَقْدِمُ عَلَی قَوْمٍ أَهْلِ کِتَابٍ فَلْیَکُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ اِلٰی اَنْ یُّوَحِّدُوْا اللّٰهَ تَعَالٰی، فَإِذَا عَرَفُوا اللّٰهَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللّٰهَ قَدْ فَرَضَ عَلَیْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِی یَوْمِهِمْ وَلَیْلَتِهِمْ…))( صحیح بخاری، التوحید، باب ماجاء فی دعاء النبی صلي اللّٰه عليه وسلم … الخ : 7372، صحیح مسلم، الایمان، باب الدعاء الی الشهادتین وشرائع الاسلام : 19۔) ’’آپ اہل کتاب میں سے ایک قوم کے پاس جا رہے ہیں ، لہٰذا سب سے پہلے انہیں اس بات کی دعوت دینا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ایک مانیں ، جب وہ یہ سمجھ جائیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک دن اور ایک رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے ایک دفعہ فرمایا: کیا میں تمہیں دین کی اصل، اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتاؤں ؟ انہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں (ضرور بتائیں ) اے اللہ کے رسول! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((رَأْسُ الْأَمْرِ الْإِسْلَامُ، وَعَمُودُهُ الصَّلَاةُ، وَذِرْوَةُ سَنَامةِ الْجِهَادُ))( سنن ترمذی الایمان، باب ما جاء فی حرمة الصلوة : 2616، سنن ابن ماجة،الفتن، باب کف اللسان فی الفتنة : 3973، وقال الالبانی : صحیح۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) ’’تمام معاملات کی اصل اسلام ہے، اس کا ستون نماز ہے اور اس کی چوٹی جہاد فی سبیل اللہ ہے۔‘‘ عہد نبوی میں کسی بھی شخص کے مشرف باسلام ہونے کے بعد اسے سب سے پہلے نماز سکھائی جاتی تھی۔چنانچہ طارق بن اشیم بیان کرتے ہیں : ((کَانَ رَسُوْلُ اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم اِذَا أَسْلَمَ الرَّجُلُ، کَانَ أَوّلَ مَایُعَلِّمُنَا الصَّلَاةُ أَوْ قَالَ: عَلَّمَهٗ الصَّلَاةَ))( مسند البزار : 1/171، السلسلة الصحیحة : 3030۔) ’’جب کوئی آدمی مسلمان ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سب سے پہلے نماز کی تعلیم دیتے تھے۔‘‘ اخروی نجات کا انحصار پابندی نماز پر ہے۔ جس کے نامۂ اعمال میں نمازیں نہ ہوئیں ، ناکام و نامراد رہے گا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((إِنَّ أَوَّلَ مَا یُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مِنْ عَمَلِهِ صَلَاتُهُ، فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ))( سنن نسائی، الصلاة، باب المحاسبة، علی الصلوة : 465، سنن ترمذی، الصلاة، باب ما جاء انّ اول ما یحاسب … الخ : 413۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) ’’یقینا بندے سے قیامت کے دن سب سے پہلے اس کی نماز کا حساب ہوگا، اگر نماز بالکل صحیح (مکمل) ہوگی تو وہ کامیاب ہو گیا اور نجات پا گیا اور اگر نماز خراب ہوئی تو وہ ناکام اور رسوا ہو گیا۔‘‘ سیدنا ابو قتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ((إِنِّی فَرَضْتُ عَلَی أُمَّتِکَ خَمْسَ صَلَوَاتٍ وَعَهِدْتُ عِنْدِی عَهْدًا أَنَّهُ مَنْ جَائَ یُحَافِظُ عَلَیْهِنَّ لِوَقْتِهِنَّ أَدْخَلْتُهُ الْجَنَّةَ، وَمَنْ لَمْ یُحَافِظْ عَلَیْهِنَّ فَلَا عَهْدَ لَهُ عِنْدِی))( سنن ابن ماجة ، اقامة الصلوٰت، باب ما جاء فی فرض الصلوٰت الخمس والمحافظة علیها : 1403، سنن ابی داؤد، الصلوة، باب فی المحافظة علی وقت الصلوة : 430، السلسلة الصحیحة : 4033۔) ’’میں نے آپ کی امت پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں اورمیں نے خود سے عہد کیا ہے کہ جو شخص ان کو پابندی سے بروقت ادا کرے گا میں اس کو جنت میں داخل کروں گا اور جو ان کو پابندی سے ادا نہیں کرے گا اس کے حق میں میرا کوئی وعدہ نہیں ہے۔‘‘ (2) حضر میں نماز: پرامن حالات میں قیام گاہ کے اندر نماز مکمل پڑھنا لازم ہے۔ آغاز اسلام میں نماز دو دو رکعات فرض کی گئی اور بعد ازاں اس میں اضافہ ہوا، چنانچہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : ((اَلصَّلَاۃُ أَوَّلُ مَا فُرِضَتْ رَکْعَتَیْنِ فَأُقِرَّتْ صَلَاۃُ السَّفَرِ وَأُتِمَّتْ صَلَاۃُ الْحَضَرِ))( صحیح بخاري، الجمعة، باب یقصر اذا خرج من موضعه : 1090، صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ المسافرین وقصرها : 685۔) ’’ابتداء (اسلام) میں (سفر و حضر) کی دو رکعت نماز فرض کی گئی پھر سفر کی نماز اسی طرح باقی رہی جبکہ حضر کی نماز مکمل کر دی گئی۔‘‘ (3) حضر میں تعداد رکعات: پانچ نمازوں کی بالترتیب مختصر تعداد رکعات حسب ذیل ہے۔ (i) نماز فجر:… نماز فجر کی کل رکعات چار ہیں جن میں دو رکعات سنت اور دو فرض ہیں ۔ (ii) نماز ظہر:… ظہرکے چار فرائض ہیں ان سے قبل چار سنتیں ہیں ، بعد از فرائض دو رکعات ہیں ۔ (iii) نماز عصر:… نماز عصرکے چار فرض ہیں ، عصر سے قبل چار سنتیں پڑھنا بھی احادیث سے ثابت ہے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ عصر کے بعد جب تک کہ سورج سفید روشن اور چمکدار ہو دو سنتیں پڑھنا بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، لیکن موقف اتنا مضبوط نہیں ہے۔ (iv) نماز مغرب:… اذان مغرب اور جماعت کے درمیان دو رکعات اگر کوئی پڑھنا چاہے تو باعث ثواب ہیں ۔ تین فرائض اور پھر دو سنتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ۔ (v) نماز عشاء:… چار رکعات فرض ہے، فرضوں کے بعد دو سنتیں اور پھر نماز وتر پڑھی جائے گی۔ نماز وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھنا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ ابتداءً آپ کھڑے ہوکر پڑھا کرتے تھے، آخر عمر میں بدن بھاری ہونے کی وجہ سے بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے۔ (4) فرائض کے ساتھ بارہ رکعات کی فضیلت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفل نماز کی بہت زیادہ ترغیب دی ہے۔ فرض نمازوں کے ساتھ پہلے اور بعد میں بارہ رکعات ادا کرنے کی بڑی فضیلت ہے۔ ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ یُصَلِّیْ لِلّٰهِ کُلَّ یَوْمٍ ثِنْتَیْ عَشْرَةَ رَکْعَةً تَطَوُّعًا غَیْرَ فَرِیضَةٍ إِلَّا بَنَی اللّٰهُ لَهٗ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ))( صحیح مسلم، صلاة المسافرین، باب فضل السنن الراتبة … الخ : 728۔) ’’جو مسلمان بندہ روزانہ اللہ تعالیٰ کے لیے فرضوں کے علاوہ بارہ رکعات نفل ادا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دیتا ہے۔‘‘ ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے ان بارہ رکعات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا: چار رکعات سنتیں ظہر کے فرضوں سے پہلے اور دو فرضوں کے بعد، دو سنتیں مغرب کے فرضوں کے بعد، دو سنتیں عشاء کے فرائض کے بعد جبکہ دو سنتیں فجر کے فرضوں سے پہلے ہیں ۔ (سنن ترمذی،الصلاۃ، باب من صلی فی یوم ولیلۃ … الخ : 415، امام ترمذی نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے۔) (5) نماز سفر: حالت سفرمیں چار رکعت والی فرض نماز کو کم کر کے دو رکعت ادا کرنے کی سہولت ہے اور اس کو نماز قصر کہتے ہیں ۔ اگر کوئی آدمی سفر پر نکلے تو وہ گھر لوٹنے تک قصر کرسکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ ‎﴾ (النساء : 101) ’’اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ نماز قصر کرلو۔‘‘ سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز قصر سے متعلق فرمایا: ((صَدَقَۃٌ تَصَدَّقَ اللّٰهُ بِهَا عَلَیْکُمْ فَاقْبَلُوا صَدَقَتَه))( صحیح مسلم، صلاة المسافرین، باب صلاة المسافرین وقصرها : 686۔) ’’یہ اللہ کی طرف سے تم پر صدقہ ہے لہٰذا اس کے صدقے کو قبول کرو۔‘‘ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ((فَرَضَ اللّٰهُ الصَّلٰوۃَ عَلٰی لِسَانِ نَبِیِّکُمْ صلي اللّٰه عليه وسلم فِی الْحَضَرِ أَرْبَعًا وَّفِی السَّفَرِ رَکْعَتَیْنِ وَفِی الْخَوْفِ رَکْعَةً))( صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین وقصرها، باب صلاۃ المسافرین وقصرها : 687۔) ’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے حضر میں چار رکعات اور سفر میں دو رکعات اور خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔‘‘ دوران سفر نماز قصر کرنا اولیٰ و بہتر ہے۔ا لبتہ پوری نماز بھی جائز ہے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ عمرہ کرنے گئی۔ جب میں مکہ پہنچی تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ! آپ نماز قصر پڑھتے رہے جبکہ میں پوری نماز پڑھتی رہی۔ آپ روزہ چھوڑتے رہے جبکہ میں روزہ رکھتی رہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَحْسَنْتِ یَا عَائِشَةُ))( سنن نسائی، تقصیر الصلاۃ فی السفر، باب المقام الذی یقصر بمثله الصلاۃ : 1457۔) ’’عائشہ تو نے ٹھیک کیا۔‘‘ آپ نے مجھ پر اس با ت کا عیب نہیں لگایا۔ دوران سفر فرض نماز کے علاوہ سنن معاف ہیں ۔ البتہ اگر کوئی انسان نفلی نماز پڑھنا چاہے تو اس کے لیے گنجائش موجود ہے۔
تخریج : مسند احمد : 9/452، رقم الحدیث : 5634، ابن خزیمة : 2/244، رقم الحدیث : 1254۔ اس کی سند ضعیف ہے، اس میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہے، اسے امام احمد، مسلم، ابوحاتم اور نسائی نے ضعیف کہا ہے۔ (1) نماز کی اہمیت و فرضیت نماز دین اسلام کا بنیادی رکن ہے۔ جس کو ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض کیا گیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ ‎﴾ (البقرہ : 43) ’’اور نماز قائم کرو اور زکاۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘ شہادتین کے بعد ہر مسلمان سے نماز کی ادائیگی کا تقاضا کیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف روانہ کیا تو فرمایا: ((إِنَّكَ تَقْدِمُ عَلَی قَوْمٍ أَهْلِ کِتَابٍ فَلْیَکُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ اِلٰی اَنْ یُّوَحِّدُوْا اللّٰهَ تَعَالٰی، فَإِذَا عَرَفُوا اللّٰهَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللّٰهَ قَدْ فَرَضَ عَلَیْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِی یَوْمِهِمْ وَلَیْلَتِهِمْ…))( صحیح بخاری، التوحید، باب ماجاء فی دعاء النبی صلي اللّٰه عليه وسلم … الخ : 7372، صحیح مسلم، الایمان، باب الدعاء الی الشهادتین وشرائع الاسلام : 19۔) ’’آپ اہل کتاب میں سے ایک قوم کے پاس جا رہے ہیں ، لہٰذا سب سے پہلے انہیں اس بات کی دعوت دینا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ایک مانیں ، جب وہ یہ سمجھ جائیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک دن اور ایک رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے ایک دفعہ فرمایا: کیا میں تمہیں دین کی اصل، اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتاؤں ؟ انہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں (ضرور بتائیں ) اے اللہ کے رسول! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((رَأْسُ الْأَمْرِ الْإِسْلَامُ، وَعَمُودُهُ الصَّلَاةُ، وَذِرْوَةُ سَنَامةِ الْجِهَادُ))( سنن ترمذی الایمان، باب ما جاء فی حرمة الصلوة : 2616، سنن ابن ماجة،الفتن، باب کف اللسان فی الفتنة : 3973، وقال الالبانی : صحیح۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) ’’تمام معاملات کی اصل اسلام ہے، اس کا ستون نماز ہے اور اس کی چوٹی جہاد فی سبیل اللہ ہے۔‘‘ عہد نبوی میں کسی بھی شخص کے مشرف باسلام ہونے کے بعد اسے سب سے پہلے نماز سکھائی جاتی تھی۔چنانچہ طارق بن اشیم بیان کرتے ہیں : ((کَانَ رَسُوْلُ اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم اِذَا أَسْلَمَ الرَّجُلُ، کَانَ أَوّلَ مَایُعَلِّمُنَا الصَّلَاةُ أَوْ قَالَ: عَلَّمَهٗ الصَّلَاةَ))( مسند البزار : 1/171، السلسلة الصحیحة : 3030۔) ’’جب کوئی آدمی مسلمان ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سب سے پہلے نماز کی تعلیم دیتے تھے۔‘‘ اخروی نجات کا انحصار پابندی نماز پر ہے۔ جس کے نامۂ اعمال میں نمازیں نہ ہوئیں ، ناکام و نامراد رہے گا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((إِنَّ أَوَّلَ مَا یُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مِنْ عَمَلِهِ صَلَاتُهُ، فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ))( سنن نسائی، الصلاة، باب المحاسبة، علی الصلوة : 465، سنن ترمذی، الصلاة، باب ما جاء انّ اول ما یحاسب … الخ : 413۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) ’’یقینا بندے سے قیامت کے دن سب سے پہلے اس کی نماز کا حساب ہوگا، اگر نماز بالکل صحیح (مکمل) ہوگی تو وہ کامیاب ہو گیا اور نجات پا گیا اور اگر نماز خراب ہوئی تو وہ ناکام اور رسوا ہو گیا۔‘‘ سیدنا ابو قتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ((إِنِّی فَرَضْتُ عَلَی أُمَّتِکَ خَمْسَ صَلَوَاتٍ وَعَهِدْتُ عِنْدِی عَهْدًا أَنَّهُ مَنْ جَائَ یُحَافِظُ عَلَیْهِنَّ لِوَقْتِهِنَّ أَدْخَلْتُهُ الْجَنَّةَ، وَمَنْ لَمْ یُحَافِظْ عَلَیْهِنَّ فَلَا عَهْدَ لَهُ عِنْدِی))( سنن ابن ماجة ، اقامة الصلوٰت، باب ما جاء فی فرض الصلوٰت الخمس والمحافظة علیها : 1403، سنن ابی داؤد، الصلوة، باب فی المحافظة علی وقت الصلوة : 430، السلسلة الصحیحة : 4033۔) ’’میں نے آپ کی امت پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں اورمیں نے خود سے عہد کیا ہے کہ جو شخص ان کو پابندی سے بروقت ادا کرے گا میں اس کو جنت میں داخل کروں گا اور جو ان کو پابندی سے ادا نہیں کرے گا اس کے حق میں میرا کوئی وعدہ نہیں ہے۔‘‘ (2) حضر میں نماز: پرامن حالات میں قیام گاہ کے اندر نماز مکمل پڑھنا لازم ہے۔ آغاز اسلام میں نماز دو دو رکعات فرض کی گئی اور بعد ازاں اس میں اضافہ ہوا، چنانچہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : ((اَلصَّلَاۃُ أَوَّلُ مَا فُرِضَتْ رَکْعَتَیْنِ فَأُقِرَّتْ صَلَاۃُ السَّفَرِ وَأُتِمَّتْ صَلَاۃُ الْحَضَرِ))( صحیح بخاري، الجمعة، باب یقصر اذا خرج من موضعه : 1090، صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ المسافرین وقصرها : 685۔) ’’ابتداء (اسلام) میں (سفر و حضر) کی دو رکعت نماز فرض کی گئی پھر سفر کی نماز اسی طرح باقی رہی جبکہ حضر کی نماز مکمل کر دی گئی۔‘‘ (3) حضر میں تعداد رکعات: پانچ نمازوں کی بالترتیب مختصر تعداد رکعات حسب ذیل ہے۔ (i) نماز فجر:… نماز فجر کی کل رکعات چار ہیں جن میں دو رکعات سنت اور دو فرض ہیں ۔ (ii) نماز ظہر:… ظہرکے چار فرائض ہیں ان سے قبل چار سنتیں ہیں ، بعد از فرائض دو رکعات ہیں ۔ (iii) نماز عصر:… نماز عصرکے چار فرض ہیں ، عصر سے قبل چار سنتیں پڑھنا بھی احادیث سے ثابت ہے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ عصر کے بعد جب تک کہ سورج سفید روشن اور چمکدار ہو دو سنتیں پڑھنا بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، لیکن موقف اتنا مضبوط نہیں ہے۔ (iv) نماز مغرب:… اذان مغرب اور جماعت کے درمیان دو رکعات اگر کوئی پڑھنا چاہے تو باعث ثواب ہیں ۔ تین فرائض اور پھر دو سنتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ۔ (v) نماز عشاء:… چار رکعات فرض ہے، فرضوں کے بعد دو سنتیں اور پھر نماز وتر پڑھی جائے گی۔ نماز وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھنا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ ابتداءً آپ کھڑے ہوکر پڑھا کرتے تھے، آخر عمر میں بدن بھاری ہونے کی وجہ سے بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے۔ (4) فرائض کے ساتھ بارہ رکعات کی فضیلت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفل نماز کی بہت زیادہ ترغیب دی ہے۔ فرض نمازوں کے ساتھ پہلے اور بعد میں بارہ رکعات ادا کرنے کی بڑی فضیلت ہے۔ ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ یُصَلِّیْ لِلّٰهِ کُلَّ یَوْمٍ ثِنْتَیْ عَشْرَةَ رَکْعَةً تَطَوُّعًا غَیْرَ فَرِیضَةٍ إِلَّا بَنَی اللّٰهُ لَهٗ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ))( صحیح مسلم، صلاة المسافرین، باب فضل السنن الراتبة … الخ : 728۔) ’’جو مسلمان بندہ روزانہ اللہ تعالیٰ کے لیے فرضوں کے علاوہ بارہ رکعات نفل ادا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دیتا ہے۔‘‘ ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے ان بارہ رکعات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا: چار رکعات سنتیں ظہر کے فرضوں سے پہلے اور دو فرضوں کے بعد، دو سنتیں مغرب کے فرضوں کے بعد، دو سنتیں عشاء کے فرائض کے بعد جبکہ دو سنتیں فجر کے فرضوں سے پہلے ہیں ۔ (سنن ترمذی،الصلاۃ، باب من صلی فی یوم ولیلۃ … الخ : 415، امام ترمذی نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے۔) (5) نماز سفر: حالت سفرمیں چار رکعت والی فرض نماز کو کم کر کے دو رکعت ادا کرنے کی سہولت ہے اور اس کو نماز قصر کہتے ہیں ۔ اگر کوئی آدمی سفر پر نکلے تو وہ گھر لوٹنے تک قصر کرسکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ ‎﴾ (النساء : 101) ’’اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ نماز قصر کرلو۔‘‘ سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز قصر سے متعلق فرمایا: ((صَدَقَۃٌ تَصَدَّقَ اللّٰهُ بِهَا عَلَیْکُمْ فَاقْبَلُوا صَدَقَتَه))( صحیح مسلم، صلاة المسافرین، باب صلاة المسافرین وقصرها : 686۔) ’’یہ اللہ کی طرف سے تم پر صدقہ ہے لہٰذا اس کے صدقے کو قبول کرو۔‘‘ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ((فَرَضَ اللّٰهُ الصَّلٰوۃَ عَلٰی لِسَانِ نَبِیِّکُمْ صلي اللّٰه عليه وسلم فِی الْحَضَرِ أَرْبَعًا وَّفِی السَّفَرِ رَکْعَتَیْنِ وَفِی الْخَوْفِ رَکْعَةً))( صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین وقصرها، باب صلاۃ المسافرین وقصرها : 687۔) ’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے حضر میں چار رکعات اور سفر میں دو رکعات اور خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔‘‘ دوران سفر نماز قصر کرنا اولیٰ و بہتر ہے۔ا لبتہ پوری نماز بھی جائز ہے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ عمرہ کرنے گئی۔ جب میں مکہ پہنچی تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ! آپ نماز قصر پڑھتے رہے جبکہ میں پوری نماز پڑھتی رہی۔ آپ روزہ چھوڑتے رہے جبکہ میں روزہ رکھتی رہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَحْسَنْتِ یَا عَائِشَةُ))( سنن نسائی، تقصیر الصلاۃ فی السفر، باب المقام الذی یقصر بمثله الصلاۃ : 1457۔) ’’عائشہ تو نے ٹھیک کیا۔‘‘ آپ نے مجھ پر اس با ت کا عیب نہیں لگایا۔ دوران سفر فرض نماز کے علاوہ سنن معاف ہیں ۔ البتہ اگر کوئی انسان نفلی نماز پڑھنا چاہے تو اس کے لیے گنجائش موجود ہے۔