كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ أَنا مُعْتَمِرٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْعَصْرِ بِنَهَارٍ، ثُمَّ خَطَبَنَا إِلَى أَنْ غَابَتِ الشَّمْسُ، فَلَمْ يَدَعْ شَيْئًا يَكُونُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِلَّا حَدَّثَنَا بِهِ، حَفِظَهُ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ، وَقَالَ حِينَ ذَهَبَتِ الشَّمْسُ مِنَ الْمَغْرِبِ: ((إِنَّمَا مَضَى مِنْ دُنْيَاكُمْ فَمَا بَقِيَ مِنْهَا كَمَا مَضَى مِنْ يَوْمِكُمْ هَذَا فَمَا بَقِيَ مِنْهُ))
کتاب
باب
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز عصر دن کے وقت پڑھائی، پھر ہمیں خطبہ دیا، یہاں تک کہ سورج غائب ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایسی چیز نہ چھوڑی جو قیامت تک ہونی تھی۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ ہمیں بیان کر دی، اسے یاد کر لیا جس نے یاد کیا اور اسے بھلا دیا جس نے بھلا دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کہ جب سورج غروب ہونے کے قریب تھا، فرمایا: ’’اور تمہاری دنیا جتنی گزر چکی ہے اور جتنی باقی ہے وہ تمہارے اسی دن کی طرح ہے کہ وہ جتنا گزر چکا ہے اورجتنا باقی ہے۔‘‘
تشریح :
(1).... اس حدیث کا تعلق فتنوں کے ساتھ ہے۔ رسول ناطق وحی صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی خیر خواہی کرتے ہوئے یہ حکم الٰہی آئندہ پیش آنے والے فتنوں کے متعلق آگاہ فرما دیا۔ امام ترمذی رحمہ اللہ اسے ’’کتاب الفتن‘‘ میں لائے ہیں۔ اس کی سند میں علی بن زید بن زید بن جدعان ہے جو امام ترمذی کے نزدیک صدوق اور دوسروں کے نزدیک ضعیف ہے۔( تحفة الأحوذي : 3؍219۔)
(2) .... دنیا کی مثال دن کے ساتھ دی گئی ہے کہ جتنا دن گزر چکا ہے،اتنی دنیا گزر چکی اور جتنا دن باقی ہے، دنیا بھی اتنی ہی باقی ر ہ گئی ہے، یعنی دنیا بہت کم باقی رہ گئی ہے، کیوں کہ وہ وقت سورج کے غروب ہونے کے قریب کا تھا۔
تخریج :
جامع ترمذي: 2191۔ محدث البانی نے کہا: اس حدیث کا بعض حصہ کمزور اور ضعیف ہے۔
(1).... اس حدیث کا تعلق فتنوں کے ساتھ ہے۔ رسول ناطق وحی صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی خیر خواہی کرتے ہوئے یہ حکم الٰہی آئندہ پیش آنے والے فتنوں کے متعلق آگاہ فرما دیا۔ امام ترمذی رحمہ اللہ اسے ’’کتاب الفتن‘‘ میں لائے ہیں۔ اس کی سند میں علی بن زید بن زید بن جدعان ہے جو امام ترمذی کے نزدیک صدوق اور دوسروں کے نزدیک ضعیف ہے۔( تحفة الأحوذي : 3؍219۔)
(2) .... دنیا کی مثال دن کے ساتھ دی گئی ہے کہ جتنا دن گزر چکا ہے،اتنی دنیا گزر چکی اور جتنا دن باقی ہے، دنیا بھی اتنی ہی باقی ر ہ گئی ہے، یعنی دنیا بہت کم باقی رہ گئی ہے، کیوں کہ وہ وقت سورج کے غروب ہونے کے قریب کا تھا۔