كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ))، وَكَانَ إِذَا ذَكَرَ السَّاعَةَ احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ، وَعَلَا صَوْتُهُ، وَاشْتَدَّ غَضَبُهُ كَأَنَّهُ مُنْذِرُ جَيْشٍ صَبَّحَكُمْ وَمَسَّاكُمْ
کتاب
باب
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اور قیامت ان دو کی طرح بھیجے گئے ہیں۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کا ذکر کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار سرخ ہو جاتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز بلند ہوجاتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاغصہ تیز ہوجاتا،گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی لشکر سے ڈرا رہے ہوں۔‘‘ وہ صبح تم پر حملہ کر دے گا، وہ شام کو تم پر دھاوا بول دے گا۔‘‘
تشریح :
(1).... ’’ان دو کی طرح‘‘ کا مطلب ہے شہادت والی اور درمیانی انگلی۔ یہ ایک بلیغ انداز ہے۔ قیامت کے قرب کو بیان کرنے نیز اس سے ڈرانے کا۔
(2) .... اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور قیامت کے درمیان اور کوئی نبی نہیں آنے والا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی خاتم النّبیین ہیں۔
تخریج :
سنن ابن ماجة: 45، صحیح ابن حبان : 1؍109۔ ابن حبان اور محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
(1).... ’’ان دو کی طرح‘‘ کا مطلب ہے شہادت والی اور درمیانی انگلی۔ یہ ایک بلیغ انداز ہے۔ قیامت کے قرب کو بیان کرنے نیز اس سے ڈرانے کا۔
(2) .... اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور قیامت کے درمیان اور کوئی نبی نہیں آنے والا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی خاتم النّبیین ہیں۔