كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: لَمَّا انْتَهَتْ عِدَّةُ زَيْنَبَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِزَيْدٍ: ((اذْكُرْهَا عَلَيَّ)) . قَالَ: فَانْطَلَقْتُ، فَقُلْتُ: يَا زَيْنَبُ، أَبْشِرِي، أَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُذكِّرُكَ، فَقَالَتْ: ((مَا أَنَا بِصَانِعَةٍ شَيْئًا حَتَّى أُوَامِرَ رَبِّي، فَقَامَتْ إِلَى مَسْجِدِهَا وَنَزَلَ الْقُرْآنُ، وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْهَا بِغَيْرِ إِذْنٍ))
کتاب
باب
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب سیدہ زینب (بنت جحش) رضی اللہ عنہا کی عدت پوری ہوگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید (بن حارثہ) رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اس (زینب رضی اللہ عنہا )کو میری طرف سے پیغام نکاح دو، کہاکہ میں چلا اور کہا کہ اے زینب رضی اللہ عنہا! خوش ہو جاؤ، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے، وہ تجھے پیغام نکاح دے رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں کچھ نہیں کرنے والی، یہاں تک کہ اپنے رب عزوجل سے مشورہ (استخارہ)کر لوں، وہ اپنی مسجد کی طرف کھڑی ہو گئیں اور قرآن نازل ہوگیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، یہاں تک کہ بغیر اجازت کے ان پاس آگئے۔
تشریح :
(1).... پس منظر: سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جو اگرچہ اصلاً عرب تھے، لیکن کسی نے انہیں بچپن میں زبردستی پکڑ کر بطور غلام بیچ دیا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر کے اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نکاح کے لیے اپنی پھوپھی زاد بہن سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو نکاح کا پیغام بھیجا، جس پر انہیں اور ان کے بھائی کو خاندانی وجاہت کی بنا پر تامل ہوا کہ زید رضی اللہ عنہ ایک آزاد کردہ غلام ہیں اور ہمارا تعلق ایک اونچے خاندان سے ہے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی:
﴿ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا ﴾ (الأحزاب : 36)
جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے بعد کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنا اختیار بروئے کار لائے۔ بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سرتسلیم خم کر دے۔ چنانچہ یہ آیت سننے کے بعد سیدہ زینب رضی اللہ عنہا وغیرہ نے اپنی رائے پر اصرار نہیں کیا اور ان کا باہم نکاح ہوگیا۔
(2) .... لیکن چوں کہ ان کے مزاج میں فرق تھا، بیوی کے مزاج میں خاندانی نسب و شرف رچا ہوا تھا، جب کہ زید رضی اللہ عنہ کے دامن پر غلامی کا داغ تھا، ان کی آپس میں ان بن رہتی تھی، جس کا تذکرہ سیدنا زید نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے رہتے تھے اور طلاق کا عندیہ بھی ظاہر کرتے۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو طلاق دینے سے روکتے اور نباہ کرنے کی تلقین فرماتے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پیش گوئی سے بھی آگاہ فرما دیا تھا کہ زید رضی اللہ عنہ کی طرف سے طلاق واقع ہو کر رہے گی اور اس کے بعد زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیاجائے گا تاکہ جاہلیت کی اس رسم تبنیت پر ضرب کاری لگا کر واضح کر دیا جائے کہ منہ بولا بیٹا، احکام شرعیہ میں حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہے اور اس کی مطلقہ سے نکاح جائز ہے۔ اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی:
﴿ وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا﴾ (الأحزاب : 37)
’’(یاد کرو(جب کہ تو اس شخص سے کہہ رہا تھا جس پر اللہ نے بھی انعام کیا اور تو نے بھی کہ تو اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ اور اللہ سے ڈر اور تو اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھا جس کو اللہ ظاہر کرنے والا تھااور تو لوگوں سے خوف کھاتا تھا حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار تھا کہ تو اس سے ڈرے، پس جب کہ زید نے اس سے اپنی غرض پوری کر لی،ہم نے اسے تیرے نکاح میں دے دیا تاکہ مسلمانوں پر اپنے لے پالکوں کی بیویوں کے بارے میں کسی طرح کی تنگی نہ رہے جب کہ وہ اپنی غرض ان سے پوری کر لیں۔ اللہ کا (یہ(حکم تو ہو کر رہی رہنے والا تھا۔‘‘
(3) .... اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو پیغام نکاح بھیج دیا جس کا ذکر اس حدیث میں آیا ہے۔
تخریج :
الزهد، ابن مبارك : 541، مسند احمد (الفتح الرباني )21؍87، حلیة الأولیاء، ابو نعیم : 2؍52، صحیح مسلم : 1428۔
(1).... پس منظر: سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جو اگرچہ اصلاً عرب تھے، لیکن کسی نے انہیں بچپن میں زبردستی پکڑ کر بطور غلام بیچ دیا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر کے اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نکاح کے لیے اپنی پھوپھی زاد بہن سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو نکاح کا پیغام بھیجا، جس پر انہیں اور ان کے بھائی کو خاندانی وجاہت کی بنا پر تامل ہوا کہ زید رضی اللہ عنہ ایک آزاد کردہ غلام ہیں اور ہمارا تعلق ایک اونچے خاندان سے ہے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی:
﴿ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا ﴾ (الأحزاب : 36)
جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے بعد کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنا اختیار بروئے کار لائے۔ بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سرتسلیم خم کر دے۔ چنانچہ یہ آیت سننے کے بعد سیدہ زینب رضی اللہ عنہا وغیرہ نے اپنی رائے پر اصرار نہیں کیا اور ان کا باہم نکاح ہوگیا۔
(2) .... لیکن چوں کہ ان کے مزاج میں فرق تھا، بیوی کے مزاج میں خاندانی نسب و شرف رچا ہوا تھا، جب کہ زید رضی اللہ عنہ کے دامن پر غلامی کا داغ تھا، ان کی آپس میں ان بن رہتی تھی، جس کا تذکرہ سیدنا زید نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے رہتے تھے اور طلاق کا عندیہ بھی ظاہر کرتے۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو طلاق دینے سے روکتے اور نباہ کرنے کی تلقین فرماتے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پیش گوئی سے بھی آگاہ فرما دیا تھا کہ زید رضی اللہ عنہ کی طرف سے طلاق واقع ہو کر رہے گی اور اس کے بعد زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیاجائے گا تاکہ جاہلیت کی اس رسم تبنیت پر ضرب کاری لگا کر واضح کر دیا جائے کہ منہ بولا بیٹا، احکام شرعیہ میں حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہے اور اس کی مطلقہ سے نکاح جائز ہے۔ اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی:
﴿ وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا﴾ (الأحزاب : 37)
’’(یاد کرو(جب کہ تو اس شخص سے کہہ رہا تھا جس پر اللہ نے بھی انعام کیا اور تو نے بھی کہ تو اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ اور اللہ سے ڈر اور تو اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھا جس کو اللہ ظاہر کرنے والا تھااور تو لوگوں سے خوف کھاتا تھا حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار تھا کہ تو اس سے ڈرے، پس جب کہ زید نے اس سے اپنی غرض پوری کر لی،ہم نے اسے تیرے نکاح میں دے دیا تاکہ مسلمانوں پر اپنے لے پالکوں کی بیویوں کے بارے میں کسی طرح کی تنگی نہ رہے جب کہ وہ اپنی غرض ان سے پوری کر لیں۔ اللہ کا (یہ(حکم تو ہو کر رہی رہنے والا تھا۔‘‘
(3) .... اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو پیغام نکاح بھیج دیا جس کا ذکر اس حدیث میں آیا ہے۔