مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 93

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: ((مَا أَعْرِفُ مِنْكُمْ شَيْئًا كُنْتُ أَعْهَدُهُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ قَوْلُكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ))، قُلْنَا: يَا أَبَا حَمْزَةَ الصَّلَاةَ؟ قَالَ: ((قَدْ صَلَّيْتُمْ عِنْدَ غُرُوبِ الشَّمْسِ، أَوَكَانَتْ تِلْكَ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ ثُمَّ قَالَ: عَلَى أَنِّي لَمْ أَرَ زَمَانًا خَيْرًا لِلْعَامِلِ مِنْ زَمَانِكُمْ هَذَا))

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 93

کتاب باب سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،ا نہوں نے فرمایا کہ میں تمہارے اندر کسی چیز کو نہیں پہچانتا، جس سے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں واقف تھا، سوائے تمہارے قول ’’لا اله الا اللّٰه‘‘ کے۔ ہم نے کہا کہ اور نہ ہی نماز، اے ابو حمزہ!؟ فرمایا: تحقیق تم نے سورج غروب ہونے کے بعد نماز (عصر)پڑھی ہے، کیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہوا کرتی تھی؟ پھر فرمایا کہ اس کے باوجود کہ میں نے کوئی زمانہ نہیں دیکھا جو عمل کرنے والے کے لیے تمہارے اس زمانے سے بہتر ہو۔
تشریح : تغیر زمانہ کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں جو عملی کوتاہیاں پیدا ہو گئی تھیں، سیدنا انس رضی اللہ عنہ ان پر درد دل بیان کر رہے ہیں کہ اب تو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد پر سعادت والا کلمہ باقی رہ گیا ہے اور کوئی چیز نظر نہیں آتی جو عہد رسالت مأب جیسی ہو، بالخصوص نمازِ عصر کہ جسے اتنا تاخیر سے پڑھا جانے لگا کہ سورج غروب ہونے کا وقت ہوجاتا ہے۔ یہ تو قرون اولیٰ کی بات ہے اور ان زمانوں کی کہ جن کے خیر وبھلائی پر ہونے کی خبر خود صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ آج کے دور میں لوگوں میں اسلام اور اعمال سے دوری کا اندازہ کیا جاسکتا ہے! وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
تخریج : الزهد، ابن مبارك : 531 اور اس میں یہ اضافہ ہے۔ ’’إِلَّا اَنْ یَکُوْنَ زَمَانًا مَعَ نَبِیٍِ اللّٰهِ صلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ‘‘، مسند أحمد : 13861۔ شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح علی شرط مسلم‘‘ قرار دیا ہے۔ تغیر زمانہ کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں جو عملی کوتاہیاں پیدا ہو گئی تھیں، سیدنا انس رضی اللہ عنہ ان پر درد دل بیان کر رہے ہیں کہ اب تو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد پر سعادت والا کلمہ باقی رہ گیا ہے اور کوئی چیز نظر نہیں آتی جو عہد رسالت مأب جیسی ہو، بالخصوص نمازِ عصر کہ جسے اتنا تاخیر سے پڑھا جانے لگا کہ سورج غروب ہونے کا وقت ہوجاتا ہے۔ یہ تو قرون اولیٰ کی بات ہے اور ان زمانوں کی کہ جن کے خیر وبھلائی پر ہونے کی خبر خود صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ آج کے دور میں لوگوں میں اسلام اور اعمال سے دوری کا اندازہ کیا جاسکتا ہے! وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا