كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنِي جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ حُذَيْفَةَ، أَنَّ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ قَالَ: قَامَ سَائِلٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُ فَأَمْسَكَ الْقَوْمُ، ثُمَّ إِنَّ رَجُلًا أَعْطَاهُ فَأَعْطَى الْقَوْمُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((مَنِ اسْتَنَّ خَيْرًا فَاسْتُنَّ بِهِ فَلَهُ أَجْرُهُ، وَمِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ مِنْ غَيْرِ مُنْتَقِصٍ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا، وَمَنِ اسْتَنَّ شرًّا فَاسْتُنَّ بِهِ فَعَلَيْهِ وِزْرُهُ، وَمِثْلُ أَوْزَارِ مَنْ تَبِعَهُ غَيْرَ مُنْتَقِصٍ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئًا))
کتاب
باب
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک سائل کھڑا ہوا اور سوال کرنے لگا، لوگ خاموش رہے، پھر بے شک ایک آدمی نے اسے دیا تو لوگوں نے بھی اسے دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے نیکی کی راہ نکالی، پھر اسے اپنایا گیا تو اس کے لیے اس کا اجر ہے اور اس کا بھی جس نے اس کی پیروی کی، ان کے اجر میں کمی کیے بغیر اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا اور اسے اپنایا گیا تو اس پر اس کا بوجھ ہے اور ان کے بوجھ کی مثل بھی جنہوں نے اس کی تابع داری کی، ان کے بوجھ سے کچھ بھی کم کیے بغیر۔‘‘
تشریح :
(1).... جب ایک شخص نے صدقہ کی ابتدا کی تو دیکھا دیکھی سب نے دینا شروع کر دیا، دوسری حدیث میں ہے:
((فَمَا بَقِيَ فِیْ الْمَجْلِسِ رَجُلٌ إِلَّا تَصَدَّقَ عَلَیْهِ بِمَا قَلَّ أَوْ کَثُرَ)) (سنن ابن ماجة: 204، شعب الایمان، بیهقي: 6؍494۔)
’’تو مجلس میں جو بھی آدمی تھا، اس نے تھوڑا یا زیادہ ضرور اس پر صدقہ کیا۔‘‘
اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نیکی کے کام میں پہلے کرنے والے کی وہ فضیلت بیان فرمائی جو حدیث میں ہے۔
(2) .... واضح رہے کہ بدعات کو رواج دینے والے بھی اس قسم کی احادیث پیش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو حدیث کے دوسرے حصے پر غور کرنا چاہیے، جس میں برا طریقہ جاری کرنے والے کے لیے وعید شدید بیان ہوئی ہے، کیوں کہ دین میں اختراع یقینا برا طریقہ اور گمراہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبے میں ارشاد فرمایا کرتے تھے:
((وَشَرَّ الْأُمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَکُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَکُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَکُلَّ ضَلَالَةٍ فِیْ النَّارِ))
’’سب سے برے کام دین میں نئے کام ہیں اور ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں ہے۔‘‘
تخریج :
الزهد، ابن مبارك : 513، مسند احمد : 5؍387، مجمع الزوائد، هیثمي : 1؍167، مشکل الآثار، طحاوي : 1؍482، سنن بیهقي: 4؍175، 176، سنن ابن ماجة : 204، صحیح الجامع الصغیر : 6014۔
(1).... جب ایک شخص نے صدقہ کی ابتدا کی تو دیکھا دیکھی سب نے دینا شروع کر دیا، دوسری حدیث میں ہے:
((فَمَا بَقِيَ فِیْ الْمَجْلِسِ رَجُلٌ إِلَّا تَصَدَّقَ عَلَیْهِ بِمَا قَلَّ أَوْ کَثُرَ)) (سنن ابن ماجة: 204، شعب الایمان، بیهقي: 6؍494۔)
’’تو مجلس میں جو بھی آدمی تھا، اس نے تھوڑا یا زیادہ ضرور اس پر صدقہ کیا۔‘‘
اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نیکی کے کام میں پہلے کرنے والے کی وہ فضیلت بیان فرمائی جو حدیث میں ہے۔
(2) .... واضح رہے کہ بدعات کو رواج دینے والے بھی اس قسم کی احادیث پیش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو حدیث کے دوسرے حصے پر غور کرنا چاہیے، جس میں برا طریقہ جاری کرنے والے کے لیے وعید شدید بیان ہوئی ہے، کیوں کہ دین میں اختراع یقینا برا طریقہ اور گمراہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبے میں ارشاد فرمایا کرتے تھے:
((وَشَرَّ الْأُمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَکُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَکُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَکُلَّ ضَلَالَةٍ فِیْ النَّارِ))
’’سب سے برے کام دین میں نئے کام ہیں اور ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں ہے۔‘‘