مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 85

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، خُذُوا عَلَى أَيْدِي سُفَهَائِكُمْ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((إِنَّ قَوْمًا رَكِبُوا الْبَحْرَ فِي سَفِينَةٍ فَاقْتَسَمُوهَا، فَأَصَابَ كُلُّ رَجُلٍ مَكَانًا فَأَخَذَ رَجُلٌ مِنْهُمُ الْفَأْسَ فَبَقَرَ مَكَانَهُ، فَقَالُوا: مَا يَصْنَعُ؟ قَالَ هُوَ: إِنِّي أَصْنَعُ فِيهِ مَا شِئْتُ، فَإِنْ أَخَذُوا عَلَى يَدَيْهِ نَجَوْا وَنَجَا، وَإِنْ تَرَكُوهُ غَرِقَ وَغَرِقُوا، فَخُذُوا عَلَى أَيْدِي سُفَهَائِكُمْ قَبْلَ أَنْ يَهْلَكُوا))

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 85

کتاب باب شعبی رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو برسر منبر فرماتے ہوئے سنا: اپنے بے وقوفوں کے ہاتھ پکڑ لو، بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: کچھ لوگ سمندر میں کشتی پر سوار ہوئے، انہوں نے اپنا اپنا حصہ تقسیم کیا اور ہر آدمی اپنے حصے کی جگہ پر پہنچ گیا۔ ان میں سے ایک آدمی نے کلہاڑا پکڑا اور اپنی جگہ سوراخ کرنے لگا، انہوں نے کہا کہ کیا کر رہے ہو؟ وہ بولا: یہ میری جگہ ہے، میں اس میں جو چاہوں کروں،ا گر تو انہوں نے اس کے ہاتھوں کو پکڑ لیا تو نجات پا جائیں گے اور وہ بھی نجات پا لے گا اور اگر انہوں نے اسے چھوڑ دیا تو وہ ڈوب جائے گا اور یہ بھی غرق ہو جائیں گے،لہٰذا اپنے احمقوں کے ہاتھ پکڑ لو،اس سے پہلے کہ تم ہلاک ہو جاؤ۔‘‘
تشریح : یہ اصول کہ ’’جو جہاں لگا ہے، لگا رہے‘‘ یکسر غلط ہے۔ برائی سے روکنا ضروری ہے۔ جرم سے صرف مجرم ہی نہیں بلکہ اہل علاقہ اور گردوپیش پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے بھائی کی مدد کر وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ مظلوم کی مدد تو ہم کریں گے، ظالم کی مدد کیسے کریں ؟ فرمایا کہ اس کا ہاتھ روک لو۔ دوسری حدیث میں ہے کہ برائی کو اپنے ہاتھ سے روک، اگر یہ نہیں کر سکتا، تو اپنی زبان سے اور اگر اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا تو اپنے دل سے (برا جان(اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔( صحیح مسلم : 177۔
تخریج : الزهد، ابن مبارك : 475،صحیح ابن حبان : 1؍306، 307، 308، مسند احمد : 4؍268، 269، 273، معجم صغیر طبراني : 2؍29، صحیح بخاري: 2493۔ یہ اصول کہ ’’جو جہاں لگا ہے، لگا رہے‘‘ یکسر غلط ہے۔ برائی سے روکنا ضروری ہے۔ جرم سے صرف مجرم ہی نہیں بلکہ اہل علاقہ اور گردوپیش پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے بھائی کی مدد کر وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ مظلوم کی مدد تو ہم کریں گے، ظالم کی مدد کیسے کریں ؟ فرمایا کہ اس کا ہاتھ روک لو۔ دوسری حدیث میں ہے کہ برائی کو اپنے ہاتھ سے روک، اگر یہ نہیں کر سکتا، تو اپنی زبان سے اور اگر اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا تو اپنے دل سے (برا جان(اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔( صحیح مسلم : 177۔