كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَني جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ: إِمَامٌ عَادِلٌ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِي طَاعَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ فِي خَلًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، وَرَجُلٌ كَانَ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسْجِدِ، وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللَّهِ، وَرَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ إِلَى نَفْسِهَا فَقَالَ: إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا صَنَعَتْ يَمِينُهُ))
کتاب
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اللہ قیامت کے دن اپنے (عرش کے)سایے میں جگہ دے گا، جس دن اس کے سایے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا، عادل حکمران اور وہ جوان جس نے اللہ عزوجل کی عبادت میں پرورش پائی اور وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی آنکھیں بہہ پڑیں اور وہ آدمی، گویا اس کا دل مسجد میں لٹکا ہوا ہے اور وہ دو آدمی جنہوں نے اللہ کے لیے آپس میں محبت کی اور وہ آدمی جسے ایک جاہ و جمال والی عورت نے اپنی طرف بلایا تو اس نے کہا کہ بے شک میں اللہ سے ڈرتا ہوں اوروہ آدمی جس نے کوئی صدقہ کیا اور اسے چھپایا، یہاں تک کہ اس کا بائیاں ہاتھ نہیں جانتا کہ دائیں نے کیا کیا۔‘‘
تشریح :
(1).... سایہ عرش کا ہوگا: حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : اس کی دلیل سعید بن منصور کی حدیث ہے جس کی سند حسن ہے، اس میں الفاظ ہیں ـ:
((سَبْعَةٌ یُظِلُّهُمُ اللّٰهُ فِیْ ظِلِّ عَرْشِهِ)) (فتح الباري: 2؍188۔)
’’سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اللہ اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائے گا۔‘‘
نیز فرمایا:
((فَیُرَجَّحُ أَنَّ الْمُرَادَ ظِلُّ الْعَرْشِ)) (فتح الباري: 2؍188۔)
’’لہٰذا راجح یہی ہے کہ سایہ عرش کا ہوگا۔‘‘
(2) .... اس حدیث میں سات آدمیوں کا ذکرہے، جس سے بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ ثواب ان کے ساتھ ہی خاص ہے لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ ان کے علاوہ بھی ایسے لوگ ہیں جن کو عرش الٰہی کا سایہ حاصل ہوگا، جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت ہے: ’’جس نے کسی تنگ دست کو مہلت دی یا اسے قرض میں کچھ چھوٹ دے دی، اسے اللہ اپنے سایے میں جگہ دے گا جس دن اس کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔‘‘
(3) .... حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے تلاش کیا تو مجھ ایسی اور احادیث ملیں جن میں اس جیسے اعمال مذکور تھے، جو دس سے زیادہ خوبیاں تھیں، میں نے ان میں سے سات کو، جو عمدہ اسانید سے وارد ہوئی تھیں، منتخب کیا، جو درج ذیل ہیں : (1)غازی کو اپنی حفاظت میں لینا (2)مجاہد کی مدد کرنا (3،4)تنگ دست کو مہلت دینا یاکچھ چھوٹ دینا (5)مقروض کی مدد کرنا (6)مکاتب (ایسا غلام جس نے آزادی کا پروانہ حاصل کرنے کے لیے اپنے آقا سے طے کر لیا ہے اور اس کے لیے مال جمع کررہا ہے، اس(کی اعانت کرنا۔ (7)اپنے قول و فعل میں سچ بولنے والا تاجر۔ پھر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان سات میں سے مزید خصلتوں کو تتبع کے بعد جمع کیا اور اس موضوع پر ایک مستقل کتاب لکھی جس کا نام ہے: ’’معرفۃةالخصال الموصلة الی الظلال‘‘(فتح الباري: 187،188۔)
تخریج :
الزهد، ابن مبارك : 473، صحیح بخاري: 3؍227، جامع ترمذي: 7؍67، مسند طیالسي: (الساعاتي): 2؍56، سنن الکبرٰی بیهقي: 3؍65۔
(1).... سایہ عرش کا ہوگا: حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : اس کی دلیل سعید بن منصور کی حدیث ہے جس کی سند حسن ہے، اس میں الفاظ ہیں ـ:
((سَبْعَةٌ یُظِلُّهُمُ اللّٰهُ فِیْ ظِلِّ عَرْشِهِ)) (فتح الباري: 2؍188۔)
’’سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اللہ اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائے گا۔‘‘
نیز فرمایا:
((فَیُرَجَّحُ أَنَّ الْمُرَادَ ظِلُّ الْعَرْشِ)) (فتح الباري: 2؍188۔)
’’لہٰذا راجح یہی ہے کہ سایہ عرش کا ہوگا۔‘‘
(2) .... اس حدیث میں سات آدمیوں کا ذکرہے، جس سے بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ ثواب ان کے ساتھ ہی خاص ہے لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ ان کے علاوہ بھی ایسے لوگ ہیں جن کو عرش الٰہی کا سایہ حاصل ہوگا، جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت ہے: ’’جس نے کسی تنگ دست کو مہلت دی یا اسے قرض میں کچھ چھوٹ دے دی، اسے اللہ اپنے سایے میں جگہ دے گا جس دن اس کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔‘‘
(3) .... حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے تلاش کیا تو مجھ ایسی اور احادیث ملیں جن میں اس جیسے اعمال مذکور تھے، جو دس سے زیادہ خوبیاں تھیں، میں نے ان میں سے سات کو، جو عمدہ اسانید سے وارد ہوئی تھیں، منتخب کیا، جو درج ذیل ہیں : (1)غازی کو اپنی حفاظت میں لینا (2)مجاہد کی مدد کرنا (3،4)تنگ دست کو مہلت دینا یاکچھ چھوٹ دینا (5)مقروض کی مدد کرنا (6)مکاتب (ایسا غلام جس نے آزادی کا پروانہ حاصل کرنے کے لیے اپنے آقا سے طے کر لیا ہے اور اس کے لیے مال جمع کررہا ہے، اس(کی اعانت کرنا۔ (7)اپنے قول و فعل میں سچ بولنے والا تاجر۔ پھر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان سات میں سے مزید خصلتوں کو تتبع کے بعد جمع کیا اور اس موضوع پر ایک مستقل کتاب لکھی جس کا نام ہے: ’’معرفۃةالخصال الموصلة الی الظلال‘‘(فتح الباري: 187،188۔)