مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 81

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ حَدَّثَهُ عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ عِنْدَ اللَّهِ أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ))، وَكَانَتْ عَائِشَةُ إِذَا عَمِلَتْ عَمَلًا دَاوَمَتْ عَلَيْهِ

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 81

کتاب باب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ اعمال (وہ ہیں )جن پر ہمیشگی کی جائے اور اگرچہ کم ہی ہوں اور عائشہ رضی اللہ عنہا جب بھی کوئی عمل کرتیں تو اس پر ہمیشگی کرتیں۔
تشریح : (1).... نماز ہو یا کوئی بھی نیکی کا عمل اس میں مداومت اور ہمیشگی پسندیدہ ہے۔ وہ بڑا عمل جس میں انقطاع آجائے اس سے بہتر چھوٹا، دوام والا عمل ہے۔ کیونکہ دوام والے قلیل عمل سے اطاعت، ذکر، مراقبہ، نیت، اخلاص اور خالق کائنات کے طرف لگاتار توجہ رہتی ہے، نیز ایسا قلیل دائمی عمل ہی ثمرورہوتا ہے اور زیادہ لیکن انقطاع والے عمل سے کہیں گنا بڑا جاتا ہے۔ (2) .... نیک اعمال میں بھی میانہ روی ضروری ہے، اگر دشواری، مشقت، سستی، تکان اور عدم توجہی پیدا ہوجائے تو ایسا عمل مفید نہیں ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو ایک رسی دو ستونوں کے درمیان پھیلائی ہوئی تھی، پوچھا: یہ کیا ہے، انہوں نے بتایا کہ یہ زینب رضی اللہ عنہا کی ہے۔وہ نماز پڑھتی ہیں،جب سستی یا کاہلی کا شکار ہوتی ہے تو اس کو پکڑ لیتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے کھول دے، تمہارا کوئی اپنے نشاط تک نماز پڑھے، اگر سستی یا کاہلی کا شکار ہوجائے تو بیٹھ جائے۔ (صحیح مسلم : 1؍266۔) (3) .... ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ حولاء بنت تویت بن حبیب بن اسد بن عبد العزیٰ ان کے پاس سے گزری اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی آپ رضی اللہ عنہ کے ہاں موجود تھے، تو میں نے کہا کہ یہ حولاء بنت تویت ہے اور لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ رات بھر سوتی نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ رات بھر سوتی نہیں ! اتنا عمل اختیار کرو جتنی طاقت رکھتے ہو، پس اللہ کی قسم! اللہ نہیں اکتاتا، یہاں تک کہ تم اکتا جاتے ہو۔( صحیح مسلم : 1؍267۔) مؤطا امام مالک میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند کیا، حتی کہ میں نے کراہت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے میں پہچان لی۔ (شرح صحیح مسلم : 1؍267۔) (4) .... اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت پر شفقت و رافت کا بھی پتہ چلتا ہے، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز کی طرف رہنمائی کی جس میں امت کی اصلاح اور ان کے لیے آسانی تھی، مشقت اور مضرت نہیں تھی، تاکہ نفس زیادہ نشاط والا اور دل انشراح والا ہو، جس سے عبادت کا ثمر ملے۔ جن لوگوں نے عبادت میں مشقت اختیار کی اور افراط سے کام لیا، اللہ نے ان کی مذمت کی ہے۔ ﴿ وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا﴾(الحدید : 27) ’’اور دنیا سے کنارہ کشی تو انھوں نے خود ہی ایجاد کر لی، ہم نے اسے ان پر نہیں لکھا تھا مگر اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے (انھوں نے یہ کام کیا(پھر انھوں نے اس کا خیال نہ رکھا جیسے اس کا خیال رکھنے کا حق تھا۔‘‘ (5).... سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے عبادت کی تخفیف اور شدت سے اجتناب کے متعلق جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رخصت کو قبول نہ کیا تو اس پر نادم ہوئے۔
تخریج : الزهد، ابن مبارك : 468، صحیح مسلم : 6؍72، رقم : 216، 218، صحیح بخاري: 1؍75، مسند احمد : 6؍180، مسند طیالسي: 2؍28،29، اللباب،ا لمراغي : 208۔ (1).... نماز ہو یا کوئی بھی نیکی کا عمل اس میں مداومت اور ہمیشگی پسندیدہ ہے۔ وہ بڑا عمل جس میں انقطاع آجائے اس سے بہتر چھوٹا، دوام والا عمل ہے۔ کیونکہ دوام والے قلیل عمل سے اطاعت، ذکر، مراقبہ، نیت، اخلاص اور خالق کائنات کے طرف لگاتار توجہ رہتی ہے، نیز ایسا قلیل دائمی عمل ہی ثمرورہوتا ہے اور زیادہ لیکن انقطاع والے عمل سے کہیں گنا بڑا جاتا ہے۔ (2) .... نیک اعمال میں بھی میانہ روی ضروری ہے، اگر دشواری، مشقت، سستی، تکان اور عدم توجہی پیدا ہوجائے تو ایسا عمل مفید نہیں ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو ایک رسی دو ستونوں کے درمیان پھیلائی ہوئی تھی، پوچھا: یہ کیا ہے، انہوں نے بتایا کہ یہ زینب رضی اللہ عنہا کی ہے۔وہ نماز پڑھتی ہیں،جب سستی یا کاہلی کا شکار ہوتی ہے تو اس کو پکڑ لیتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے کھول دے، تمہارا کوئی اپنے نشاط تک نماز پڑھے، اگر سستی یا کاہلی کا شکار ہوجائے تو بیٹھ جائے۔ (صحیح مسلم : 1؍266۔) (3) .... ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ حولاء بنت تویت بن حبیب بن اسد بن عبد العزیٰ ان کے پاس سے گزری اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی آپ رضی اللہ عنہ کے ہاں موجود تھے، تو میں نے کہا کہ یہ حولاء بنت تویت ہے اور لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ رات بھر سوتی نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ رات بھر سوتی نہیں ! اتنا عمل اختیار کرو جتنی طاقت رکھتے ہو، پس اللہ کی قسم! اللہ نہیں اکتاتا، یہاں تک کہ تم اکتا جاتے ہو۔( صحیح مسلم : 1؍267۔) مؤطا امام مالک میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند کیا، حتی کہ میں نے کراہت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے میں پہچان لی۔ (شرح صحیح مسلم : 1؍267۔) (4) .... اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت پر شفقت و رافت کا بھی پتہ چلتا ہے، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز کی طرف رہنمائی کی جس میں امت کی اصلاح اور ان کے لیے آسانی تھی، مشقت اور مضرت نہیں تھی، تاکہ نفس زیادہ نشاط والا اور دل انشراح والا ہو، جس سے عبادت کا ثمر ملے۔ جن لوگوں نے عبادت میں مشقت اختیار کی اور افراط سے کام لیا، اللہ نے ان کی مذمت کی ہے۔ ﴿ وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا﴾(الحدید : 27) ’’اور دنیا سے کنارہ کشی تو انھوں نے خود ہی ایجاد کر لی، ہم نے اسے ان پر نہیں لکھا تھا مگر اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے (انھوں نے یہ کام کیا(پھر انھوں نے اس کا خیال نہ رکھا جیسے اس کا خیال رکھنے کا حق تھا۔‘‘ (5).... سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے عبادت کی تخفیف اور شدت سے اجتناب کے متعلق جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رخصت کو قبول نہ کیا تو اس پر نادم ہوئے۔