مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 80

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ أَنا مَالِكٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ نُودِيَ فِي الْجَنَّةِ يَا عَبْدَ اللَّهِ، هَذَا خَيْرٌ، فَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلَاةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّلَاةِ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجِهَادِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الْجِهَادِ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّيَامِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الرَّيَّانِ))، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: بِأَبِي وَأُمِّي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا عَلَى أَحَدٍ يُدْعَى مِنْ هَذِهِ الْأَبْوَابِ مِنْ ضَرُورَةٍ، فَهَلْ أَحَدٌ يُدْعَى مِنَ الْأَبْوَابِ كُلِّهَا؟ قَالَ: ((نَعَمْ، وَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ))

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 80

کتاب باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے اللہ کے راستے میں دو جوڑے خرچ کیے، اسے جنت میں منادی دی جائے گی، اے اللہ کے بندے! یہ بہتر ہے۔ اگر وہ نماز والوں سے ہوا تو اسے نماز کے دروازے سے آواز دی جائے گی اور اگر وہ زکوۃ والوں سے ہوا تو اسے زکوٰۃ کے دروازے سے آواز دی جائے گی اور اگر وہ جہاد والوں سے ہوا تو اسے جہاد کے دروازے سے آواز دی جائے گی اور اگر وہ روزے والوں سے ہوا تو اسے باب ریان (بہت سیراب کرنے والا)سے آواز دی جائے گی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان، اس بات کی کوئی ضرورت تو نہیں کہ ان تمام دروازوں سے کسی کو آواز دی جائے (لیکن)کیا کوئی ایسا ہے کہ جسے ان تمام دروازوں سے ہی آواز دی جائے؟ فرمایا کہ ہاں اور میں امید کرتا ہوں کہ تو انہی میں سے ہے۔
تشریح : (1).... جس نے اللہ کے راستے میں دو جوڑے خرچ کیے، اس کا مطلب قاضی ہروی رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد دو گھوڑے، یا دو غلام یا دو اونٹ ہیں۔ ابن عرفہ نے کہا کہ ہر چیز جسے کسی دوسری چیز سے ملایا جائے تو اسے زوج (جوڑا(کہتے ہین جیسا کہ درہم اور دینار، درہم اور کپڑا۔ زوج (جوڑے)کا لفظ دو پر بھی بولا جاتا ہے۔ اور ایک پر بھی، جبکہ اس کے ساتھ کوئی چیز بھی ہو، اسی طرح زوج کا لفظ قسم اور صنف پر بھی بولا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَكُنْتُمْ أَزْوَاجًا ثَلَاثَةً ﴾(الواقعة : 7) ’’اور تم تین قسم (کے لوگ(ہوجاؤ گے۔‘‘ یہ بھی احتمال ہے کہ اس حدیث سے تمام نیک اعمال مراد لیے گئے ہوں جیسا کہ دو نمازیں، دو دنوں کے روزے اور اصل مقصد صدقے کو دوسرے کے ساتھ ملانا اور صدقے کی فضیلت، نیکی میں خرچ کرنے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی طرف تنبیہ ہے۔( شرح صحیح مسلم : 1؍330۔) (2) .... ’’فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘‘ اللہ کے راستے سے مراد عموم ہے اور اس میں خیر و بھلائی کی تمام صورتیں شامل ہیں، اور یہی قول زیادہ صحیح اور ظاہر ہے۔( شرح صحیح مسلم : 1؍330۔) (3) .... اے اللہ کے بندے! یہ بہتر ہے: .... اس کا مطلب ہے کہ یہاں خیر، ثواب اور رشک ہے، یا یہ معنی ہے کہ ہمارے (فرشتوں کے)مطابق یہ دروازہ باقی دروازوں کی نسبت ثواب اور نعمت کے اعتبار سے تیرے لیے زیادہ بہتر ہے، لہٰذا آؤ اور اس میں داخل ہو یعنی ہر منادی کرنے والا اپنے دروازے کے متعلق افضلیت کا اعتقاد رکھتا ہوگا۔ (4) .... حدیث میں مختلف دروازوں سے داخل ہونے کا ذکر ہے،اس کا مطلب ہے کہ جو عمل اس کا باقی اعمال کی نسبت غالب ہوگا اسے اسی میں سے آواز دی جائے گی۔ (5).... روزے دار کے لیے باب ریان ہے، کیوں کہ اس کے معنی ہے خوب سیراب کرنے والا، تاکہ روزے میں پیاس کی شدت جو کڑکتی دوپہروں میں اللہ کی رضا کے لیے سہی اس کا بدلہ دیاجائے۔ (6).... سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شان و منقبت بھی اس حدیث سے مترشح ہو رہی ہے۔ نیز یہ جواز بھی ملا کہ کسی انسان کی تعریف اس کے سامنے کر سکتے ہیں کہ جب کہ اس کے متعلق کسی خود پسندی اور عجب میں شکار ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ (7) .... اس حدیث میں چار دروازوں کا ذکر آیا ہے۔قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ باقی دروازوں کا ذکر اور حدیث میں آیا ہے اور وہ ہیں : توبہ کا دروازہ، غصہ پینے والے اور لوگوں کو معاف کر دینے والوں کا دروازہ، راضی ہو جانے والوں کا دروازہ، یہ سات دروازے ہیں جن کا ذکر احادیث میں آیا ہے اور وہ حدیث جس میں ستر ہزار آدمیوں کے بغیر حساب جنت میں جانے کا ذکر ہے، اس میں ہے کہ وہ دائیں دروازے سے جنت میں جائیں گے، شاید یہ آٹھواں دروازہ ہے۔( شرح صحیح مسلم : 1؍330۔)
تخریج : الزهد، ابن مبارك : 467، صحیح مسلم : 7؍115، رقم : 85، 86، صحیح البخاری : 4؍90، موطا : 3؍50، مسند احمد : 2؍366، مستدرك حاکم : 2؍87۔ (1).... جس نے اللہ کے راستے میں دو جوڑے خرچ کیے، اس کا مطلب قاضی ہروی رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد دو گھوڑے، یا دو غلام یا دو اونٹ ہیں۔ ابن عرفہ نے کہا کہ ہر چیز جسے کسی دوسری چیز سے ملایا جائے تو اسے زوج (جوڑا(کہتے ہین جیسا کہ درہم اور دینار، درہم اور کپڑا۔ زوج (جوڑے)کا لفظ دو پر بھی بولا جاتا ہے۔ اور ایک پر بھی، جبکہ اس کے ساتھ کوئی چیز بھی ہو، اسی طرح زوج کا لفظ قسم اور صنف پر بھی بولا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَكُنْتُمْ أَزْوَاجًا ثَلَاثَةً ﴾(الواقعة : 7) ’’اور تم تین قسم (کے لوگ(ہوجاؤ گے۔‘‘ یہ بھی احتمال ہے کہ اس حدیث سے تمام نیک اعمال مراد لیے گئے ہوں جیسا کہ دو نمازیں، دو دنوں کے روزے اور اصل مقصد صدقے کو دوسرے کے ساتھ ملانا اور صدقے کی فضیلت، نیکی میں خرچ کرنے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی طرف تنبیہ ہے۔( شرح صحیح مسلم : 1؍330۔) (2) .... ’’فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘‘ اللہ کے راستے سے مراد عموم ہے اور اس میں خیر و بھلائی کی تمام صورتیں شامل ہیں، اور یہی قول زیادہ صحیح اور ظاہر ہے۔( شرح صحیح مسلم : 1؍330۔) (3) .... اے اللہ کے بندے! یہ بہتر ہے: .... اس کا مطلب ہے کہ یہاں خیر، ثواب اور رشک ہے، یا یہ معنی ہے کہ ہمارے (فرشتوں کے)مطابق یہ دروازہ باقی دروازوں کی نسبت ثواب اور نعمت کے اعتبار سے تیرے لیے زیادہ بہتر ہے، لہٰذا آؤ اور اس میں داخل ہو یعنی ہر منادی کرنے والا اپنے دروازے کے متعلق افضلیت کا اعتقاد رکھتا ہوگا۔ (4) .... حدیث میں مختلف دروازوں سے داخل ہونے کا ذکر ہے،اس کا مطلب ہے کہ جو عمل اس کا باقی اعمال کی نسبت غالب ہوگا اسے اسی میں سے آواز دی جائے گی۔ (5).... روزے دار کے لیے باب ریان ہے، کیوں کہ اس کے معنی ہے خوب سیراب کرنے والا، تاکہ روزے میں پیاس کی شدت جو کڑکتی دوپہروں میں اللہ کی رضا کے لیے سہی اس کا بدلہ دیاجائے۔ (6).... سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شان و منقبت بھی اس حدیث سے مترشح ہو رہی ہے۔ نیز یہ جواز بھی ملا کہ کسی انسان کی تعریف اس کے سامنے کر سکتے ہیں کہ جب کہ اس کے متعلق کسی خود پسندی اور عجب میں شکار ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ (7) .... اس حدیث میں چار دروازوں کا ذکر آیا ہے۔قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ باقی دروازوں کا ذکر اور حدیث میں آیا ہے اور وہ ہیں : توبہ کا دروازہ، غصہ پینے والے اور لوگوں کو معاف کر دینے والوں کا دروازہ، راضی ہو جانے والوں کا دروازہ، یہ سات دروازے ہیں جن کا ذکر احادیث میں آیا ہے اور وہ حدیث جس میں ستر ہزار آدمیوں کے بغیر حساب جنت میں جانے کا ذکر ہے، اس میں ہے کہ وہ دائیں دروازے سے جنت میں جائیں گے، شاید یہ آٹھواں دروازہ ہے۔( شرح صحیح مسلم : 1؍330۔)