كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ، دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: قَدْ حَفِظْتُهُمَا يَا أَبَا الْيَقْظَانِ، قَالَ: أَرَأَيْتَنِي نَقَصْتُ مِنْ حُدُودِهَا شَيْئًا، وَلَكِنْ خَفَّفْتُهُمَا، بَادَرْتُ بِهِمَا السَّهْوَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((إِنَّ الرَّجُلَ لَيُصَلِّي الصَّلَاةَ وَلَعَلَّهُ لَا يَكُونُ لَهُ مِنْ صَلَاتِهِ إِلَّا عُشْرُهَا أَوْ تُسْعُهَا أَوْ ثُمُنُهَا أَوْ سُبُعُهَا أَوْ خُمُسُهَا))
کتاب
باب
ابوبکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام بیان کرتے ہیں کہ بے شک عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما مسجد میں داخل ہوئے تو ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھیں۔ ایک آدمی نے ان سے کہا: اے ابویقظان! یقینا میں نے انہیں یاد کرلیا ہے۔ فرمایا کہ کیا تو نے مجھے دیکھا کہ میں نے ان کی حدود میں سے کوئی چیز کم کی ہے، لیکن میں نے ان میں تخفیف کی ہے، میں نے ان دونوں کے ساتھ، بھولنے سے جلدی کی ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک آدمی یقینا نماز پڑھتا ہے اور شاید کہ اس کے لیے اس کی نماز میں سے نہیں ہوتا، مگر اس کا دسواں، نواں، آٹھواں، ساتواں اور یا پانچواں حصہ۔
تشریح :
نفل نماز میں ادب یہ ہے کہ نشاط، توجہ اور انہماک ہو تو طوالت کو اختیار کرلیں۔ لیکن اگر عدم توجہ کا اندیشہ ہو تو بے جا طوالت اختیار نہ کی جائے۔ اسی طرح اجر و ثواب میں کمی واقع ہوگی۔ اللہ تعالیٰ دلوں کو دیکھتا ہے نہ کہ لمبے لمبے قیام۔ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کا مقصد یہی ہے۔ نیز وہ فرمایا کرتے تھے:
((اِحْذِفُوْا هٰذِهِ الصَّلَاةَ قَبْلَ وَسْوَسَةِ الشَّیْطَانِ۔))( مصنف ابن ابی شیبۃ : 501؍3 (4701)۔)
’’یعنی اس نماز کو شیطان کے وسوسے سے پہلے پہلے مختصر کردو۔‘‘
اگرچہ اس کی سند میں کلام ہے، لیکن معنی درست ہے۔
البتہ فرض نماز میں اپنے سے زیادہ مقتدیوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:
((أُمَّ قَوْمَكَ، وَمَنْ أَمَّ قَوْمًا فَلْیُخَفِّفْ، فَإِنَّ فِیْهِمُ الضَّعِیْفَ وَالْکَبِیْرَ وَذَالْحَاجَةِ، فَإِذَا صَلَّیْتَ لِنَفْسِكَ فَصَلِّ کَیْفَ شِئْتَ۔))
’’اپنی قوم کو امامت کروا اور جو اپنی قوم کو امامت کروائے تو تخفیف کرے کیونکہ بے شک ان میں کمزور، بڑا اور ضرورت والا ہے، پس جب تو اپنے لیے نماز پڑھے تو جیسے چاہے نماز پڑھ۔‘‘
اس حدیث پاک سے فرض اور نفل نماز میں تخفیف اور طوالت کا اصول واضح ہے۔
تخریج :
مسند أحمد : 18894۔ شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
نفل نماز میں ادب یہ ہے کہ نشاط، توجہ اور انہماک ہو تو طوالت کو اختیار کرلیں۔ لیکن اگر عدم توجہ کا اندیشہ ہو تو بے جا طوالت اختیار نہ کی جائے۔ اسی طرح اجر و ثواب میں کمی واقع ہوگی۔ اللہ تعالیٰ دلوں کو دیکھتا ہے نہ کہ لمبے لمبے قیام۔ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کا مقصد یہی ہے۔ نیز وہ فرمایا کرتے تھے:
((اِحْذِفُوْا هٰذِهِ الصَّلَاةَ قَبْلَ وَسْوَسَةِ الشَّیْطَانِ۔))( مصنف ابن ابی شیبۃ : 501؍3 (4701)۔)
’’یعنی اس نماز کو شیطان کے وسوسے سے پہلے پہلے مختصر کردو۔‘‘
اگرچہ اس کی سند میں کلام ہے، لیکن معنی درست ہے۔
البتہ فرض نماز میں اپنے سے زیادہ مقتدیوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:
((أُمَّ قَوْمَكَ، وَمَنْ أَمَّ قَوْمًا فَلْیُخَفِّفْ، فَإِنَّ فِیْهِمُ الضَّعِیْفَ وَالْکَبِیْرَ وَذَالْحَاجَةِ، فَإِذَا صَلَّیْتَ لِنَفْسِكَ فَصَلِّ کَیْفَ شِئْتَ۔))
’’اپنی قوم کو امامت کروا اور جو اپنی قوم کو امامت کروائے تو تخفیف کرے کیونکہ بے شک ان میں کمزور، بڑا اور ضرورت والا ہے، پس جب تو اپنے لیے نماز پڑھے تو جیسے چاہے نماز پڑھ۔‘‘
اس حدیث پاک سے فرض اور نفل نماز میں تخفیف اور طوالت کا اصول واضح ہے۔