كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ ذَرٍّ، عَنْ يُسَيْعٍ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّ الدُّعَاءَ هَوَ الْعِبَادَةُ، ثُمَّ قَرَأَ: ﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ﴾[غَافِر: 60] ))،
کتاب
باب
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ بے شک دعا عبادت ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (آیت)پڑھی:﴿ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ﴾ (المؤمن : 60)’’اور تمہارے رب نے فرمایا: مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔‘‘
تشریح :
(1).... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کے عبادت ہونے کی دلیل کے طور پر یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی کہ جس کے آخر میں ہے: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ﴾
’’بے شک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں، عنقریب ذلیل ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے۔‘‘ یہاں عبادت سے مراد دعا ہے، کیونکہ پیچھے دعا کا حکم اور ترغیب ہے۔
(2) .... اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ’’دعا‘‘ کا واحد حق دار ہونے کی دلیل کے طور پر اپنا تعارف ’’رَبُّکُمْ‘‘، (تمہارا رب(کے لفظ کے ساتھ کروایا ’’ادْعُوْنِيْ‘‘ (مجھے پکارو(کا حکم تمہیں وہ دے رہا ہے، جو ہر لمحے کسی کی شرکت کے بغیر تمہاری پرورش کر رہا ہے اور تمہاری ہر ضرورت پوری کر رہا ہے۔
(3) .... تمہارے رب نے فرمایا کہ تم مجھے پکارو، مجھ سے مانگو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا، میں تمہیں دوں گا، نہ مجھ سے بدگمان ہو، نہ کسی اور کو پکارو اور اس سے مانگتے پھرو، یہ سمجھ کر کے وہ تمہیں کچھ دے گا، یا تمہاری درخواستیں میرے دربار سے منظور کروادے گا۔
(4) .... اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مطلقاً دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، مگر دوسری جگہ قبولیت کے وعدے کے ساتھ کچھ شرطیں بھی ذکر فرمائیں۔ پھر فرمایا:
﴿ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ﴾ (البقرة : 186)
’’اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں تو بے شک میں قریب ہوں، میں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں، جب وہ مجھے پکارتا ہے تو لازم ہے کہ وہ میری بات مانیں اور وہ مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ ہدایت پائیں۔‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی کہ دعا تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں ضرور قبول ہوتی ہے یا تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا جلد قبول کرلیتا ے یا آخرت میں اس کا ذخیرہ کرلیتا ہے یا اس سے اتنی برائی ٹال دیتا ہے۔( مسند احمد : 3 ؍18 (11139)، صحیح۔)
دعا کی قبولیت کی شرطوں اور صورتوں کی تفصیل سے آگاہی ضروری ہے۔
(5)....﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي ﴾یہ جملہ دلیل ہے کہ دعا ہی عبادت اور پکارنا ہی بندگی ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے، اس سے مانگتا ہے اور اس سے فریاد کرتا ہے وہ اس کی عبادت کرتا ہے اور جو مافوق الاسباب اشیاء کے لیے اس کے سوا کسی اور کو پکارتا ہے یعنی ’’یا علی مدد‘‘ کہتا ہے، یا ’’شیخ عبد القادر جیلانی شیئا للہ‘‘ کہتا ہے، بہاؤ الحق یا کسی خود ساختہ داتا، دستگیر، گنج بخش یا غریب نواز کو پکارتا ہے اور ڈوبتی کشتی کو کنارے لگانے کی درخواست کرتا ہے، درحقیقت وہ اس کی عبادت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے، جو اس کے ہاں ناقابل معافی ہے، یہ کہنا کہ ہم ان بزرگ ہستیوں کو صرف پکارتے ہیں، ان کی عبادت نہیں کرتے، سراسر دھوکا ہے، جو دھوکا مشرک اپنے آپ کو اور اللہ کے بندوں کو دے رہے ہیں کیونکہ پکارنا ہی تو عبادت ہے۔
(6).... جو لوگ کِبر میں مبتلا ہیں۔ اللہ کی آیات، اس کے رسولوں پر ایمان نہیں لاتے اور اس سے دعا نہیں کرتے، وہ ذلیل ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے۔ دنیا میں وہ جس قدر اونچے بنتے تھے، قیامت کے دن اتنے ہی ذلیل و حقیر ہوں گے۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں : ’’بندگی کی شرط ہے اپنے رب سے مانگنا، نہ مانگنا غرور ہے۔ اگر دنیا نہ مانگے تو مغفرت ہی مانگے۔‘‘ (موضح)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((یُحْشَرُ الْمُتَکَبِّرُونَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ أَمْثَالَ الذَّرِّ فِی صُوَرِ الرِّجَالِ، یَغْشَاهُمْ الذُّلُّ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ، فَیُسَاقُونَ إِلَی سِجْنٍ فِی جَهَنَّمَ یُسَمَّی بُولَسَ، تَعْلُوهُمْ نَارُ الْأَنْیَارِ یُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَةِ أَهْلِ النَّارِ طِینَةَ الْخَبَالِ۔))( جامع ترمذي، صفة القیامة والرقائق، باب ما جاء فی شدة الوعید للمتکبرین : 2492۔)
’’تکبر کرنے والوں کو قیامت کے دن چیونٹیوں کی طرح آدمیوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا۔ ہر طرف سے ذلت انہیں ڈھانک رہی ہوگی۔ پھر انہیں جہنم میں ایک قید خانے کی طرف ہانک کر لے جایا جائے گا جس کا نام ’’بولس‘‘ ہے۔ ان پر آگوں کی آگ چڑھی ہی ہوگی۔ انہیں جہنمیوں کے جسموں سے نکلنے والا لہو اور پیپ پلائی جائے گی۔‘‘
(7) .... اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے کہ اس سے مانگا جائے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّهٗ مَنْ لَمْ یَسْأَلِ اللّٰهَ یَغْضَبْ عَلَیْهِ۔))( جامع ترمذي، ابواب الدعوات، باب منه : 3373۔) ’’جو اللہ سے نہ مانگے، وہ اس سے غصے ہوجاتا ہے۔‘‘
کیا خوب کہا ہے کہنے والے نے ؏
اَللّٰهُ یَغْضَبُ إِنْ تَرَکْتَ سُؤَالَهُ
وَتَرَي ابْنَ آدَمَ حِیْنَ یُسْأَلُ یَغْضَبْ
’’اللہ تعالیٰ غصے ہوتا ہے اگر تو اس سے مانگنا چھوڑ دے، اور تو ابن آدم کو دیکھے گا کہ جب اس سے مانگا جائے تو غصہ ہوتا ہے۔‘‘
تخریج :
جامع ترمذي، تفسیر القرآن، باب ومن سورة البقرة : 2969، سنن أبي داؤد : 1479۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
(1).... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کے عبادت ہونے کی دلیل کے طور پر یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی کہ جس کے آخر میں ہے: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ﴾
’’بے شک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں، عنقریب ذلیل ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے۔‘‘ یہاں عبادت سے مراد دعا ہے، کیونکہ پیچھے دعا کا حکم اور ترغیب ہے۔
(2) .... اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ’’دعا‘‘ کا واحد حق دار ہونے کی دلیل کے طور پر اپنا تعارف ’’رَبُّکُمْ‘‘، (تمہارا رب(کے لفظ کے ساتھ کروایا ’’ادْعُوْنِيْ‘‘ (مجھے پکارو(کا حکم تمہیں وہ دے رہا ہے، جو ہر لمحے کسی کی شرکت کے بغیر تمہاری پرورش کر رہا ہے اور تمہاری ہر ضرورت پوری کر رہا ہے۔
(3) .... تمہارے رب نے فرمایا کہ تم مجھے پکارو، مجھ سے مانگو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا، میں تمہیں دوں گا، نہ مجھ سے بدگمان ہو، نہ کسی اور کو پکارو اور اس سے مانگتے پھرو، یہ سمجھ کر کے وہ تمہیں کچھ دے گا، یا تمہاری درخواستیں میرے دربار سے منظور کروادے گا۔
(4) .... اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مطلقاً دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، مگر دوسری جگہ قبولیت کے وعدے کے ساتھ کچھ شرطیں بھی ذکر فرمائیں۔ پھر فرمایا:
﴿ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ﴾ (البقرة : 186)
’’اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں تو بے شک میں قریب ہوں، میں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں، جب وہ مجھے پکارتا ہے تو لازم ہے کہ وہ میری بات مانیں اور وہ مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ ہدایت پائیں۔‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی کہ دعا تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں ضرور قبول ہوتی ہے یا تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا جلد قبول کرلیتا ے یا آخرت میں اس کا ذخیرہ کرلیتا ہے یا اس سے اتنی برائی ٹال دیتا ہے۔( مسند احمد : 3 ؍18 (11139)، صحیح۔)
دعا کی قبولیت کی شرطوں اور صورتوں کی تفصیل سے آگاہی ضروری ہے۔
(5)....﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي ﴾یہ جملہ دلیل ہے کہ دعا ہی عبادت اور پکارنا ہی بندگی ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے، اس سے مانگتا ہے اور اس سے فریاد کرتا ہے وہ اس کی عبادت کرتا ہے اور جو مافوق الاسباب اشیاء کے لیے اس کے سوا کسی اور کو پکارتا ہے یعنی ’’یا علی مدد‘‘ کہتا ہے، یا ’’شیخ عبد القادر جیلانی شیئا للہ‘‘ کہتا ہے، بہاؤ الحق یا کسی خود ساختہ داتا، دستگیر، گنج بخش یا غریب نواز کو پکارتا ہے اور ڈوبتی کشتی کو کنارے لگانے کی درخواست کرتا ہے، درحقیقت وہ اس کی عبادت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے، جو اس کے ہاں ناقابل معافی ہے، یہ کہنا کہ ہم ان بزرگ ہستیوں کو صرف پکارتے ہیں، ان کی عبادت نہیں کرتے، سراسر دھوکا ہے، جو دھوکا مشرک اپنے آپ کو اور اللہ کے بندوں کو دے رہے ہیں کیونکہ پکارنا ہی تو عبادت ہے۔
(6).... جو لوگ کِبر میں مبتلا ہیں۔ اللہ کی آیات، اس کے رسولوں پر ایمان نہیں لاتے اور اس سے دعا نہیں کرتے، وہ ذلیل ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے۔ دنیا میں وہ جس قدر اونچے بنتے تھے، قیامت کے دن اتنے ہی ذلیل و حقیر ہوں گے۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں : ’’بندگی کی شرط ہے اپنے رب سے مانگنا، نہ مانگنا غرور ہے۔ اگر دنیا نہ مانگے تو مغفرت ہی مانگے۔‘‘ (موضح)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((یُحْشَرُ الْمُتَکَبِّرُونَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ أَمْثَالَ الذَّرِّ فِی صُوَرِ الرِّجَالِ، یَغْشَاهُمْ الذُّلُّ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ، فَیُسَاقُونَ إِلَی سِجْنٍ فِی جَهَنَّمَ یُسَمَّی بُولَسَ، تَعْلُوهُمْ نَارُ الْأَنْیَارِ یُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَةِ أَهْلِ النَّارِ طِینَةَ الْخَبَالِ۔))( جامع ترمذي، صفة القیامة والرقائق، باب ما جاء فی شدة الوعید للمتکبرین : 2492۔)
’’تکبر کرنے والوں کو قیامت کے دن چیونٹیوں کی طرح آدمیوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا۔ ہر طرف سے ذلت انہیں ڈھانک رہی ہوگی۔ پھر انہیں جہنم میں ایک قید خانے کی طرف ہانک کر لے جایا جائے گا جس کا نام ’’بولس‘‘ ہے۔ ان پر آگوں کی آگ چڑھی ہی ہوگی۔ انہیں جہنمیوں کے جسموں سے نکلنے والا لہو اور پیپ پلائی جائے گی۔‘‘
(7) .... اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے کہ اس سے مانگا جائے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّهٗ مَنْ لَمْ یَسْأَلِ اللّٰهَ یَغْضَبْ عَلَیْهِ۔))( جامع ترمذي، ابواب الدعوات، باب منه : 3373۔) ’’جو اللہ سے نہ مانگے، وہ اس سے غصے ہوجاتا ہے۔‘‘
کیا خوب کہا ہے کہنے والے نے ؏
اَللّٰهُ یَغْضَبُ إِنْ تَرَکْتَ سُؤَالَهُ
وَتَرَي ابْنَ آدَمَ حِیْنَ یُسْأَلُ یَغْضَبْ
’’اللہ تعالیٰ غصے ہوتا ہے اگر تو اس سے مانگنا چھوڑ دے، اور تو ابن آدم کو دیکھے گا کہ جب اس سے مانگا جائے تو غصہ ہوتا ہے۔‘‘