كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زَحْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرًا، فَبَقِيتُ فِي عَمَلِهِ كُلِّهِ فَرَأَيْتُهُ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ، أَوْ زَاغَتْ، أَوْ كَمَا قَالَ، إِنْ كَانَ فِي يَدِهِ عَمَلُ الدُّنْيَا رَفَضَهُ، وَإِنْ كَانَ نَائِمًا فَكَأَنَّمَا نُوقِظُ لَهُ فَيَقُومُ فَيَغْتَسِلُ أَوْ يَتَوَضَّأُ، ثُمَّ يَرْكَعُ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ يُتِمُّهُنَّ وَيُحْسِنُهُنَّ وَيَتَمَكَّنُ فِيهِنَّ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَنْطَلِقَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَكَثْتَ عِنْدِي شَهْرًا وَلَوَدِدْتُ أَنَّكَ مُلِئْتَ الْخَيْرَ مِنْ ذَلِكَ، فَبَقِيتَ فِي عَمَلِكَ كُلِّهِ، فَرَأَيْتُكَ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ أَوْ زَاغَتْ فَإِنْ كَانَ فِي يَدِكَ عَمَلٌ رَفَضْتَهُ، فَإِنْ كُنْتَ نَائِمًا تُوقَظُ فَتَغْتَسِلُ أَوْ تَتَوَضَّأُ، ثُمَّ تَرْكَعُ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ تُتِمُّهُنَّ وَتُحْسِنُهُنَّ وَتَتَمَكَّنُ فِيهِنَّ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّ أَبْوَابَ السَّمَاءِ وأَبْوابَ الْجَنَّةِ يُفتَحْنَ فِي تِلْكَ السَّاعَةِ، فَلَا يُوَافِي أَحَدٌ بِهَذِهِ الصَّلَاةِ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ يَصْعَدَ مِنِّي إِلَى رَبِّي فِي تِلْكَ السَّاعَةِ خَيْرٌ))، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَزَادَنِي الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي فِي أَوَّلِ عَمَلِ الْعَابِدِينَ
کتاب
باب
سیدنا ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ (ان کے ہاں)(اترے۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کاموں کے لیے باقی رہا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب سورج ڈھل جاتا یا ٹیڑھا ہوجاتا ہے یا جیسے میں نے کہا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے کسی کام میں مصروف ہوتے تو آپ اسے چھوڑ دیتے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوتے تو گویا ہم آپ کو اس کے لیے بیدار کردیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے، غسل یا وضو کرتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعتیں پڑھتے، انہیں مکمل کرتے، خوبصورت کرتے اور انہیں خوب اطمینان و تمکین سے ادا فرماتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ہمارے گھر سے)جانے کا ارادہ فرمایا تو میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ایک مہینہ رہے اور یقینا میں نے جانا کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے خیر و بھلائی سے بھر دیے گئے۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب کاموں کو جاننے کے لیے آپ کے ساتھ رہا (مسنون اعمال کا خوب مشاہدہ کرنے کے لیے)، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب سورج ڈھل جاتا یا ٹیڑھا ہوجاتا، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کوئی کام ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے چھوڑ دیتے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیدار کیا جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل یا وضو فرماتے، پھر چار رکعتیں پڑھتے، آپ انہیں مکمل کرتے، خوبصورت کرتے اور انہیں خوب اطمینان و تمکین سے ادا فرماتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک آسمان کے دروازے اور جنت کے دروازے اس گھڑی اس کے لیے کھول دیے جاتے ہیں۔ جو بندہ اس نماز کے ساتھ تو میں نے پسند کیا کہ میرے لیے، میرے رب کی طرف اس گھڑی میں خیر و بھلائی چڑھ۔
تشریح :
(1).... عون المعبود میں ہے کہ آسمان کے دروازے کھولے جانے کا مطلب ہے کہ یہ حسن قبول اور سرعت وصول سے کنایہ ہے اور ان رکعتوں کا نام سنت زوال ہے۔ یہ ظہر کی سنتوں کے علاوہ ہیں۔ اس کی وضاحت غزالی نے کی ہے جیسا کہ علامہ مناوی نے فرمایا ہے۔( عون المعبود : 104؍4۔)
(2) .... سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ جس کی نشاندہی امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’وفی الباب‘‘ میں فرمائی ہے، اس کے متعلق علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ’’لم أ قف علیه‘‘ علامہ فیض الرحمن ثوری بہاولپوری رحمہ اللہ کے بارے فرماتے ہیں : ’’قال الشیخ (فی الباب عن علي)لم اقف علیه ۱ھ۔ اقول أخرجه الترمذي : 326؍1، 410؍1، والنسائي، وابن ماجة واحمد وابن ابی شیبة والبیهقي: 50؍3 والدارقطني، ص : 194۔( رش السحاب فیما ترك الشیخ مما فی الباب، ذیل تحفة الأحوذي : 1؍348۔)
(3) .... جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ میں یہ الفاظ بھی ہیں : بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے قبل جب سورج ڈھل جاتا تو چار رکعتیں پڑھتے، ان میں سلام کا فاصلہ نہ کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب سورج ڈھلتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ علامہ مناوی نے فرمایا کہ اس کی سند ضعیف ہے اور حنفیہ نے کہا کہ اس سے یہ ثابت ہوا کہ ظہر سے پہلے چار رکعتیں ایک سلام سے پڑھنی افضل ہیں اور کہا کہ یہ شافعی کے برخلاف حجت ہے جو انہیں دو سلام سے پڑھنے کے قائل ہیں۔( تحفة الأحوذي : 1؍348۔)
(4) .... مصنف ابن ابی شیبہ کے الفاظ ہیں : ’’إن أبواب الجنة تفتح عند زوال الشمس فلا ترتج حتی تقام الصلاة، فأحب أن أقدم‘‘ (مصنف ابن ابی شیبة : 274؍4 (5992)۔)’’بے شک جنت کے دروازے سورج کے ڈھلنے کے وقت کھولے جاتے ہیں، پس وہ بند نہیں کیے جاتے، یہاں تک کہ نماز کھڑی کردی جاتی ہے، پس میں پسند کرتا ہوں کہ آگے بھیجوں۔‘‘
(5).... اس حدیث میں اگرچہ عبیدہ بن معتب ضبی کی وجہ سے کلام ہے، لیکن کثرتِ طرق سے تقویت پکڑی جاتی ہے اور حسن کے درجے تک پہنچ جاتی ہے۔ ابن ابی شیبہ کے محقق محمد عوامہ نے کہا کہ منذری نے ’’الترغیب والترهیب : 1؍399 ‘‘ میں فرمایا کہ اس حدیث کو ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا اور ان دونوں کی اسناد میں تحسین کا احتمال ہے۔ محقق نے مزید کہا ہے کہ ’’فالحدیث بهذہ الطرق یتقوي‘‘(مصنف ابن ابی شیبة : 274؍4۔)
تخریج :
سنن ابوداؤد : 1270، جامع ترمذی مع تحفة الأحوذي : 348؍1 (459)، سنن ابن ماجۃ : 1157۔ امام ترمذی نے فرمایا: ’’حدیث عبد اللہ بن السائب حدیث حسن غریب‘‘۔
(1).... عون المعبود میں ہے کہ آسمان کے دروازے کھولے جانے کا مطلب ہے کہ یہ حسن قبول اور سرعت وصول سے کنایہ ہے اور ان رکعتوں کا نام سنت زوال ہے۔ یہ ظہر کی سنتوں کے علاوہ ہیں۔ اس کی وضاحت غزالی نے کی ہے جیسا کہ علامہ مناوی نے فرمایا ہے۔( عون المعبود : 104؍4۔)
(2) .... سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ جس کی نشاندہی امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’وفی الباب‘‘ میں فرمائی ہے، اس کے متعلق علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ’’لم أ قف علیه‘‘ علامہ فیض الرحمن ثوری بہاولپوری رحمہ اللہ کے بارے فرماتے ہیں : ’’قال الشیخ (فی الباب عن علي)لم اقف علیه ۱ھ۔ اقول أخرجه الترمذي : 326؍1، 410؍1، والنسائي، وابن ماجة واحمد وابن ابی شیبة والبیهقي: 50؍3 والدارقطني، ص : 194۔( رش السحاب فیما ترك الشیخ مما فی الباب، ذیل تحفة الأحوذي : 1؍348۔)
(3) .... جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ میں یہ الفاظ بھی ہیں : بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے قبل جب سورج ڈھل جاتا تو چار رکعتیں پڑھتے، ان میں سلام کا فاصلہ نہ کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب سورج ڈھلتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ علامہ مناوی نے فرمایا کہ اس کی سند ضعیف ہے اور حنفیہ نے کہا کہ اس سے یہ ثابت ہوا کہ ظہر سے پہلے چار رکعتیں ایک سلام سے پڑھنی افضل ہیں اور کہا کہ یہ شافعی کے برخلاف حجت ہے جو انہیں دو سلام سے پڑھنے کے قائل ہیں۔( تحفة الأحوذي : 1؍348۔)
(4) .... مصنف ابن ابی شیبہ کے الفاظ ہیں : ’’إن أبواب الجنة تفتح عند زوال الشمس فلا ترتج حتی تقام الصلاة، فأحب أن أقدم‘‘ (مصنف ابن ابی شیبة : 274؍4 (5992)۔)’’بے شک جنت کے دروازے سورج کے ڈھلنے کے وقت کھولے جاتے ہیں، پس وہ بند نہیں کیے جاتے، یہاں تک کہ نماز کھڑی کردی جاتی ہے، پس میں پسند کرتا ہوں کہ آگے بھیجوں۔‘‘
(5).... اس حدیث میں اگرچہ عبیدہ بن معتب ضبی کی وجہ سے کلام ہے، لیکن کثرتِ طرق سے تقویت پکڑی جاتی ہے اور حسن کے درجے تک پہنچ جاتی ہے۔ ابن ابی شیبہ کے محقق محمد عوامہ نے کہا کہ منذری نے ’’الترغیب والترهیب : 1؍399 ‘‘ میں فرمایا کہ اس حدیث کو ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا اور ان دونوں کی اسناد میں تحسین کا احتمال ہے۔ محقق نے مزید کہا ہے کہ ’’فالحدیث بهذہ الطرق یتقوي‘‘(مصنف ابن ابی شیبة : 274؍4۔)