كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، ثَنَا حَبَّانُ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ بَشِيرٍ الْعِجْلِيِّ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: ((لَمْ يَكُنْ يَلْزَمُهُ لِلصَّلَاةِ شَيْءٌ أَحْرَى أَنْ يُؤَخِّرَهَا إِذَا كَانَ عَلَى حَدِيثٍ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ، وَمَا صَلَّاهَا قَطُّ، فَدَخَلَ عَلَيَّ إِلَّا صَلَّى بَعْدَهَا أَرْبَعًا أَوْ سِتًّا، وَمَا رَأَيْتُهُ مُتَّقِيًا الْأَرْضَ بِشَيْءٍ قَطُّ، إِلَّا أَنِّي أَذْكُرُ يَوْمَ مَطَرٍ فَإِنَّا بَسَطْنَا تَحْتَهُ بِسَاطًا أَوْ شَيْئًا ذَكَرَهُ، يَعْنِي نِطَعًا، فَرَآنِي أَنْظُرُ إِلَى خَرْقٍ فِيهِ يَنْبُعُ مِنْهُ الْمَاءُ))
کتاب
باب
شریح بن ھانی رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں سوال کیا؟ تو انہوں نے فرمایا: نمازوں میں سے، عشاء کی نماز سے زیادہ، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بات چیت میں ہوتے، کسی نمازکو مؤخر کرنے کے زیادہ لائق نہ تھے اور جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ (نماز عشاء)پڑھی اور پھر میرے پاس تشریف لائے تو چار یا چھ رکعتیں ضرور پڑھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین سے کبھی کسی چیز کے ساتھ بچاؤ اختیار نہ کرتے، البتہ مجھے ایک بارش والا دن یقینا یاد ہے، کہ بے شک ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے ایک چٹائی بچھا دی یا کوئی اور چیز جس کا (راوی)نے ذکر کیا، یعنی چرمی فرش، گویا کہ میں اس میں سوراخ کو دیکھ رہی ہوں، جس سے پانی نکل رہا ہے۔
تشریح :
حدیث پاک میں تین چیزوں کا تذکرہ ہے۔
(1).... عشاء کی نماز کو تاخیر سے پڑھنا۔
(2) .... عشاء کے بعد چار یا چھ رکعتیں پڑھنا۔ اکثر احادیث میں عشاء کے بعد دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے۔ علامہ زرقانی ’’شرح المواهب‘‘ میں فرماتے ہیں : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی عشاء کی نمازپڑھی، پھر میرے گھر تشریف لائے تو ضرور چار رکعتیں پڑھیں۔‘‘ یعنی کبھی کبھار ایسا ہوا اورکبھی چھ بھی پڑھیں اور صحیح مسلم میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز عشاء پڑھاتے اور میرے گھر میں داخل ہوتے تو دو رکعتیں پڑھتے: ’’اسی طرح بخاری و مسلم میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے۔ ان تمام احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ عشا کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر میں جاتے تو جیسے آسانی ہوتی، کبھی دو اور کبھی چھ رکعتیں پڑھتے۔( عون المعبود : 3؍131۔)
لیکن عشاء کے بعد چھ رکعتوں والی روایت سندا ضعیف ہے۔ کیوں کہ اس میں مقاتل بن بشیر عجلی مجہول ہے۔ ابن حبان 7؍509 کے علاوہ کسی نے اس کی توثیق نہیں کی اور علامہ ذہبی نے فرمایا: وہ غیر معروف ہے۔( میزان الاعتدال : 4؍171۔) لہٰذا علامہ زرقانی رحمہ اللہ کی چھ رکعتوں کے بارے مذکورہ بالا تصریح محل نظر ہے۔ البتہ عشاء کے بعد چار رکعت پڑھنا مسنون اور ثابت ہے بلکہ ان کی بڑی فضیلت ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’جس نے عشاء کے بعد چار رکعتیں پڑھیں وہ لیلۃ القدر میں پڑھی گئی چار رکعتوں کے برابر ہیں۔‘‘( مصنف ابن ابي شیبة : 7351۔)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’عشاء کے بعد چار رکعتیں لیلۃ القدر کی اتنی رکعتوں کے برابر قرار دی گئی ہیں۔‘‘( مصنف ابن ابي شیبة : 7352۔) لیکن ان چار رکعتوں کو ایک سلام سے پڑھنا ہے، جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’جس نے عشاء کے بعد چار رکعتیں پڑھیں اور ان کے درمیان سلام کا فاصلہ نہیں کرتا، وہ لیلۃ القدر کی اتنی رکعتوں کے برابر قرار دی جائیں گی۔( مصنف ابن ابي شیبة : 7353۔)
یہ تینوں موقوف روایات مرفوع حکمی ہیں کیوں کہ اجر و ثواب اور تعداد رکعات وغیرہ عبادات صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے اجتہاد سے بیان نہیں کر سکتے۔ اسی طرح کئی تابعین سے بھی ان کا ثبوت ملتا ہے۔( مصنف ابن ابي شیبۃة: 7354، 7355،7356، 7357۔)
(3) .... اس حدیث میں تیسری چیز یہ بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے دوران چٹائی وغیرہ پر کھڑے نہیں ہوتے تھے بلکہ ننگی زمین پر نماز پڑھتے تھے۔ لیکن یہ حدیث سنداً کمزور ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چٹائی پر نماز پڑھنا متعدد احادیث سے ثابت ہے جیسا کہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چٹائی پر نماز پڑھا کرتے تھے۔( صحیح بخاري: 333، صحیح مسلم : 270۔)
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چٹائی پر نماز پڑھی۔( صحیح مسلم : 271، 285، سنن ابن ماجة: 1029۔)
تخریج :
الزهد، ابن مبارك : 451، مسند احمد : 24305۔ شیخ شعیب نے اسے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔
حدیث پاک میں تین چیزوں کا تذکرہ ہے۔
(1).... عشاء کی نماز کو تاخیر سے پڑھنا۔
(2) .... عشاء کے بعد چار یا چھ رکعتیں پڑھنا۔ اکثر احادیث میں عشاء کے بعد دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے۔ علامہ زرقانی ’’شرح المواهب‘‘ میں فرماتے ہیں : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی عشاء کی نمازپڑھی، پھر میرے گھر تشریف لائے تو ضرور چار رکعتیں پڑھیں۔‘‘ یعنی کبھی کبھار ایسا ہوا اورکبھی چھ بھی پڑھیں اور صحیح مسلم میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز عشاء پڑھاتے اور میرے گھر میں داخل ہوتے تو دو رکعتیں پڑھتے: ’’اسی طرح بخاری و مسلم میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے۔ ان تمام احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ عشا کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر میں جاتے تو جیسے آسانی ہوتی، کبھی دو اور کبھی چھ رکعتیں پڑھتے۔( عون المعبود : 3؍131۔)
لیکن عشاء کے بعد چھ رکعتوں والی روایت سندا ضعیف ہے۔ کیوں کہ اس میں مقاتل بن بشیر عجلی مجہول ہے۔ ابن حبان 7؍509 کے علاوہ کسی نے اس کی توثیق نہیں کی اور علامہ ذہبی نے فرمایا: وہ غیر معروف ہے۔( میزان الاعتدال : 4؍171۔) لہٰذا علامہ زرقانی رحمہ اللہ کی چھ رکعتوں کے بارے مذکورہ بالا تصریح محل نظر ہے۔ البتہ عشاء کے بعد چار رکعت پڑھنا مسنون اور ثابت ہے بلکہ ان کی بڑی فضیلت ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’جس نے عشاء کے بعد چار رکعتیں پڑھیں وہ لیلۃ القدر میں پڑھی گئی چار رکعتوں کے برابر ہیں۔‘‘( مصنف ابن ابي شیبة : 7351۔)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’عشاء کے بعد چار رکعتیں لیلۃ القدر کی اتنی رکعتوں کے برابر قرار دی گئی ہیں۔‘‘( مصنف ابن ابي شیبة : 7352۔) لیکن ان چار رکعتوں کو ایک سلام سے پڑھنا ہے، جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’جس نے عشاء کے بعد چار رکعتیں پڑھیں اور ان کے درمیان سلام کا فاصلہ نہیں کرتا، وہ لیلۃ القدر کی اتنی رکعتوں کے برابر قرار دی جائیں گی۔( مصنف ابن ابي شیبة : 7353۔)
یہ تینوں موقوف روایات مرفوع حکمی ہیں کیوں کہ اجر و ثواب اور تعداد رکعات وغیرہ عبادات صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے اجتہاد سے بیان نہیں کر سکتے۔ اسی طرح کئی تابعین سے بھی ان کا ثبوت ملتا ہے۔( مصنف ابن ابي شیبۃة: 7354، 7355،7356، 7357۔)
(3) .... اس حدیث میں تیسری چیز یہ بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے دوران چٹائی وغیرہ پر کھڑے نہیں ہوتے تھے بلکہ ننگی زمین پر نماز پڑھتے تھے۔ لیکن یہ حدیث سنداً کمزور ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چٹائی پر نماز پڑھنا متعدد احادیث سے ثابت ہے جیسا کہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چٹائی پر نماز پڑھا کرتے تھے۔( صحیح بخاري: 333، صحیح مسلم : 270۔)
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چٹائی پر نماز پڑھی۔( صحیح مسلم : 271، 285، سنن ابن ماجة: 1029۔)