مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 66

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، أَنَّ رَجُلًا حَدَّثَهُ، قَالَ: قِيلَ لِعُبَيْدٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُ بِصَلَاةٍ غَيْرِ الْمَكْتُوبَةِ؟ قَالَ: ((بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ))

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 66

کتاب باب سلیمان تیمی رحمہ اللہ نے کہا کہ ایک آدمی نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام عبید سے کہا گیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز کے علاوہ کسی نماز کا حکم دیتے تھے؟ کہا: ہاں، مغرب اور عشاء کے درمیان۔
تشریح : (1).... یہ حدیث ضعیف ہے، اس میں ایک مجہول راوی ہے۔ لہٰذا مغرب اور عشاء کے درمیان کوئی ایسی خاص نماز نہیں ہے کہ جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہو۔ (2) .... بعض لوگوں نے اس وقت ’’صلاة الأوابین‘‘ کا گمان کیا ہے، لیکن ’’صلاة الأوابین‘‘ کا یہ وقت نہیں ہے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صلاة الأوابین‘‘ اس وقت ہے جب اونٹنی کابچہ گرمی محسوس کرے۔‘‘( بلوغ المرام : 419۔) (3) .... جامع ترمذی کی ایک حدیث میں مغرب کے بعد چھ رکعتوں کا ذکر ہے، لیکن یہ عمر بن عبداللہ بن ابی خثعم کی وجہ سے ضعیف ہے۔ امام بخاری نے اسے سخت ضعیف اور منکر الحدیث قرار دیا ہے۔( جامع الترمذي : 4435۔) (4) .... جامع ترمذی کی ایک اور روایت میں مغرب کے بعد بیس رکعتوں کا ذکر آیا ہے، لیکن اس میں یعقوب بن ولید مدائنی کذاب راوی ہے، لہٰذا یہ بھی ضعیف ہے۔( تحفة الأحوذي : 1؍330 (435)۔) (5).... مغرب و عشاء کے درمیان کوئی مخصوص نماز ثابت نہیں ہے البتہ نوافل بغیر تعین عدد کے پڑھے جاسکتے ہیں، کیوں کہ یہ وقت ممنوع اوقات میں سے نہیں ہے جیسا کہ ظہر اورعصر کے درمیان کوئی نفل پڑھنا چاہے تو اسے روکا نہیں جا سکتا، کیوں کہ وہ ممنوع اوقات میں سے نہیں ہے۔ ایسے ہی ایک مرتبہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مغرب سے عشاء تک نوافل پڑھے، لیکن یہ کوئی مخصوص نماز نہیں، نہ ہی اس کا کوئی نام ہے اور نہ کوئی متعین رکعات، سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ والی روایت کے متعلق علامہ منذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسے نسائی نے عمدہ سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔( تحفة الأحوذي : 1؍330۔)
تخریج : الزهد، ابن مبارك : 444، مسند احمد : 23652، مجمع الزوائد، هیثمي : 2؍229، اور فرمایا کہ اسے احمد اور طبرانی (کبیر)نے روایت کیا ہے اور اس کے تمام طرق کا دارومدار ایک آدمی پر ہے جس کا نام نہیں لیا گیا اور احمد کے باقی راوی صحیح کے راوی ہیں۔ شیخ شعیب نے بھی اسے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔ (1).... یہ حدیث ضعیف ہے، اس میں ایک مجہول راوی ہے۔ لہٰذا مغرب اور عشاء کے درمیان کوئی ایسی خاص نماز نہیں ہے کہ جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہو۔ (2) .... بعض لوگوں نے اس وقت ’’صلاة الأوابین‘‘ کا گمان کیا ہے، لیکن ’’صلاة الأوابین‘‘ کا یہ وقت نہیں ہے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صلاة الأوابین‘‘ اس وقت ہے جب اونٹنی کابچہ گرمی محسوس کرے۔‘‘( بلوغ المرام : 419۔) (3) .... جامع ترمذی کی ایک حدیث میں مغرب کے بعد چھ رکعتوں کا ذکر ہے، لیکن یہ عمر بن عبداللہ بن ابی خثعم کی وجہ سے ضعیف ہے۔ امام بخاری نے اسے سخت ضعیف اور منکر الحدیث قرار دیا ہے۔( جامع الترمذي : 4435۔) (4) .... جامع ترمذی کی ایک اور روایت میں مغرب کے بعد بیس رکعتوں کا ذکر آیا ہے، لیکن اس میں یعقوب بن ولید مدائنی کذاب راوی ہے، لہٰذا یہ بھی ضعیف ہے۔( تحفة الأحوذي : 1؍330 (435)۔) (5).... مغرب و عشاء کے درمیان کوئی مخصوص نماز ثابت نہیں ہے البتہ نوافل بغیر تعین عدد کے پڑھے جاسکتے ہیں، کیوں کہ یہ وقت ممنوع اوقات میں سے نہیں ہے جیسا کہ ظہر اورعصر کے درمیان کوئی نفل پڑھنا چاہے تو اسے روکا نہیں جا سکتا، کیوں کہ وہ ممنوع اوقات میں سے نہیں ہے۔ ایسے ہی ایک مرتبہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مغرب سے عشاء تک نوافل پڑھے، لیکن یہ کوئی مخصوص نماز نہیں، نہ ہی اس کا کوئی نام ہے اور نہ کوئی متعین رکعات، سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ والی روایت کے متعلق علامہ منذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسے نسائی نے عمدہ سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔( تحفة الأحوذي : 1؍330۔)