مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 64

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ((لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُ بِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ وُضُوءٍ، وَلَأَخَّرْتُ الْعِشَاءَ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ أَوْ ثُلُثِ اللَّيْلِ، إِنَّهُ إِذَا مَضَى نِصْفُ اللَّيْلِ أَوْ ثُلُثُ اللَّيْلِ، ذَكَرَ نُزُولَهُ، فَقَالَ: مَنْ ذَا الَّذِي يَدْعُونِي فَأَسْتُجِيبَ لَهُ، مَنْ ذَا الَّذِي يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ، مَنْ ذَا الَّذِي يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ))

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 64

کتاب باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں اپنی امت پر مشقت نہ سمجھتا تو ہر وضو کے وقت مسواک کاضرور انہیں حکم دیتا اور عشاء کی نماز کو نصف رات یا تہائی رات تک موخر کرتا۔ بات یہ ہے کہ جب نصف رات یا رات کا تہائی حصہ گزر جاتا ہے۔ تو (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے)اللہ عزوجل کے نزول کا ذکر فرمایا (اور کہا کہ)وہ فرماتا ہے ’’کون ہے جومجھے پکارے میں اس کی دعا قبول کروں گا۔‘‘ کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اسے عطا کروں گا کون ہے جو مجھ اسے استغفار کرے، میں اسے بخشش دوں گا، یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجائے۔‘‘
تشریح : (1).... اس حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنی امت پر مہربانی اور شفیق و رحیم ہونے کا بیان ہے۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَاعَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ﴾(التوبة : 128) ’’اس پر تمھارا تکلیف میں مبتلا ہونا گراں (گزرتا(ہے، وہ تمھارے لیے (بھلائی کا)حریص ہے۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ﴾ (الأحزاب : 6) ’’یہ نبی مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھنے والا ہے۔‘‘ (2) .... مسواک کے اوقاتـ: مسواک تمام اوقات میں مستحب ہے، لیکن پانچ اوقات میں اور بھی مستحب ہے۔ (1)نماز کے وقت (2)وضو کے وقت (3)قرآن مجید پڑھنے کے وقت (4)نیند سے بیدار ہوتے وقت (5(منہ کا ذائقہ جب بدل جائے۔ ذائقے کا بدلنا کئی چیزوں سے ہوتا ہے۔ کبھی کھانا پینا چھوڑنے سے، کبھی بدبودار چیز کھانے سے، کبھی لمبی خاموشی سے، کبھی زیادہ گفتگو سے وغیرہ۔ مسواک نہ زیادہ کھردری اور خشک ہو کہ زخمی کر دے اور نہ ہی زیادہ تر اور نرم ہو کے صفائی نہ کرے، اسی طرح مسواک عرض میں کی جائے نہ کہ لمبائی میں تاکہ دانتوں کے گوشت کو زخمی نہ کر دے۔ مسواک دانتوں کے اندر باہر، ڈاڑھوں پر، زبان پر، حلق میں اور سارے منہ میں گھمانی چاہیے، مسواک منہ کے دائیں جانب سے شروع کی جائے۔ اجازت سے دوسرے کی مسواک بھی دھو کر استعمال کی جا سکتی ہے۔ بچوں کو بھی عادت ڈالنے کے لیے مسواک کروائی جائے۔( شرح صحیح مسلم : 1؍127۔) (3) .... نماز عشاء کا وقت: غروب شفق (سرخی ختم)ہوتے ہی نماز عشاء کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور نصف رات تک وقت ہے۔نماز عشاء کو تاخیر سے پڑھنا مسنون و افضل ہے۔ لیکن امت سے مشقت دور کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری وقت پر ہمیشگی نہیں فرمائی۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تاخیر سے نماز عشاء پر ہمیشگی سے خدشہ تھا کہ کہیں اس وقت فرض نہ کر دی جائے یا لوگ اسے واجب سمجھنے لگیں، اس لیے تاخیر سے پڑھنا چھوڑ دیا، جس طرح کے نماز تراویح کو چھوڑا تھا اور اس کی علت بیان فرمائی کہ فرض نہ ہوجائے اور لوگ عاجز آجائیں گے۔( شرح صحیح مسلم : 1؍228۔) (4) .... اس حدیث میں پچھلی رات دعا کی قبولیت کے وقت میں مزید وسعت کا بیان ہے کہ طلوع شمس تک یہ وقت بیان کیا گیا ہے، جب کہ باقی روایات میں طلوع فجر تک بیان ہوا ہے۔
تخریج : الزهد، ابن مبارك : 437، صحیح مسلم : 3؍132 (42)، سنن ابن ماجة: 691، 287، مسند احمد (الفتح الرباني )1؍294، مستدرك حاکم : 1؍146، مسند دارمي: 1؍140، صحیح ابن حبان : 2؍288، سنن ابو داؤد : 1؍69، سنن الکبریٰ بیهقي: 1؍184، 185، تاریخ بغداد : 9؍346، موطا مالك:1؍133، 134، سنن ترمذي: 1؍101۔ (1).... اس حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنی امت پر مہربانی اور شفیق و رحیم ہونے کا بیان ہے۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَاعَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ﴾(التوبة : 128) ’’اس پر تمھارا تکلیف میں مبتلا ہونا گراں (گزرتا(ہے، وہ تمھارے لیے (بھلائی کا)حریص ہے۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ﴾ (الأحزاب : 6) ’’یہ نبی مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھنے والا ہے۔‘‘ (2) .... مسواک کے اوقاتـ: مسواک تمام اوقات میں مستحب ہے، لیکن پانچ اوقات میں اور بھی مستحب ہے۔ (1)نماز کے وقت (2)وضو کے وقت (3)قرآن مجید پڑھنے کے وقت (4)نیند سے بیدار ہوتے وقت (5(منہ کا ذائقہ جب بدل جائے۔ ذائقے کا بدلنا کئی چیزوں سے ہوتا ہے۔ کبھی کھانا پینا چھوڑنے سے، کبھی بدبودار چیز کھانے سے، کبھی لمبی خاموشی سے، کبھی زیادہ گفتگو سے وغیرہ۔ مسواک نہ زیادہ کھردری اور خشک ہو کہ زخمی کر دے اور نہ ہی زیادہ تر اور نرم ہو کے صفائی نہ کرے، اسی طرح مسواک عرض میں کی جائے نہ کہ لمبائی میں تاکہ دانتوں کے گوشت کو زخمی نہ کر دے۔ مسواک دانتوں کے اندر باہر، ڈاڑھوں پر، زبان پر، حلق میں اور سارے منہ میں گھمانی چاہیے، مسواک منہ کے دائیں جانب سے شروع کی جائے۔ اجازت سے دوسرے کی مسواک بھی دھو کر استعمال کی جا سکتی ہے۔ بچوں کو بھی عادت ڈالنے کے لیے مسواک کروائی جائے۔( شرح صحیح مسلم : 1؍127۔) (3) .... نماز عشاء کا وقت: غروب شفق (سرخی ختم)ہوتے ہی نماز عشاء کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور نصف رات تک وقت ہے۔نماز عشاء کو تاخیر سے پڑھنا مسنون و افضل ہے۔ لیکن امت سے مشقت دور کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری وقت پر ہمیشگی نہیں فرمائی۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تاخیر سے نماز عشاء پر ہمیشگی سے خدشہ تھا کہ کہیں اس وقت فرض نہ کر دی جائے یا لوگ اسے واجب سمجھنے لگیں، اس لیے تاخیر سے پڑھنا چھوڑ دیا، جس طرح کے نماز تراویح کو چھوڑا تھا اور اس کی علت بیان فرمائی کہ فرض نہ ہوجائے اور لوگ عاجز آجائیں گے۔( شرح صحیح مسلم : 1؍228۔) (4) .... اس حدیث میں پچھلی رات دعا کی قبولیت کے وقت میں مزید وسعت کا بیان ہے کہ طلوع شمس تک یہ وقت بیان کیا گیا ہے، جب کہ باقی روایات میں طلوع فجر تک بیان ہوا ہے۔