كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ، أَنَّ شُرَيْحًا الْحَضْرَمِيَّ، ذُكِرَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ((ذَاكَ رَجُلٌ لَا يَتَوَسَّدُ الْقُرْآنَ))
کتاب
باب
سائب بن یزید نے بیان کیا کہ بے شک شریح حضرمی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ ایسا آدمی ہے جوقرآن کو تکیہ نہیں بناتا۔
تشریح :
(1).... قرآن مجید کو تکیہ بنانا، اس میں مدحت اور مذمت دونوں پہلو نکلتے ہیں۔ مدحت یہ ہے کہ قرآن مجید کو معمولی سمجھ کر پس پشت نہیں ڈالنا بلکہ اس کی توقیر و تعظیم بجا لانی ہے اور مذمت کا پہلو یہ ہے کہ سونے والا تکیے پر اوندھے منہ گر جاتا ہے اور بے خبرو غافل ہوتا ہے اس طرح قرآن سے غفلت شعاری اختیار نہیں کرنی۔ صاحب ’’القاموس المحیط‘‘ نے کہا کہ پہلی (مدحت کی)مثال ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ’’قرآن کو تکیہ نہ بناؤ۔‘‘ اور دوسری (مذمت کی)مثال ہے: ایک شخص نے سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں علم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور اس کے ضائع ہونے سے ڈرتا ہوں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: علم کو تکیہ بنانے سے بہتر ہے کہ تم جہالت کو تکیہ بنا لو۔ (ترتیب القاموس المحیط : 4؍608، 609۔)
(2) .... سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر نکلے اور ہم مسجد میں ایک دوسرے کو قرآن پڑھ، پڑھا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی کتاب کو سیکھو اور اسے اپنی جمع پونجی بنا لو۔‘‘ کہا کہ میرا خیال ہے کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اور اس کے ساتھ غنا حاصل کرو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقینا وہ دس ماہ کی حاملہ اونٹنی کے اپنی رسی سے چھوٹنے سے بھی زیادہ بھاگنے والا ہے۔‘‘( صحیح الجامع الصغیر للألباني: 2961۔)
تخریج :
الزهد، ابن مبارك : 426، مسند احمد : 426، ابن سعد : 3؍363، سنن نسائي : 1783۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح الإسناد‘‘ قرار دیا ہے۔
(1).... قرآن مجید کو تکیہ بنانا، اس میں مدحت اور مذمت دونوں پہلو نکلتے ہیں۔ مدحت یہ ہے کہ قرآن مجید کو معمولی سمجھ کر پس پشت نہیں ڈالنا بلکہ اس کی توقیر و تعظیم بجا لانی ہے اور مذمت کا پہلو یہ ہے کہ سونے والا تکیے پر اوندھے منہ گر جاتا ہے اور بے خبرو غافل ہوتا ہے اس طرح قرآن سے غفلت شعاری اختیار نہیں کرنی۔ صاحب ’’القاموس المحیط‘‘ نے کہا کہ پہلی (مدحت کی)مثال ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ’’قرآن کو تکیہ نہ بناؤ۔‘‘ اور دوسری (مذمت کی)مثال ہے: ایک شخص نے سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں علم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور اس کے ضائع ہونے سے ڈرتا ہوں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: علم کو تکیہ بنانے سے بہتر ہے کہ تم جہالت کو تکیہ بنا لو۔ (ترتیب القاموس المحیط : 4؍608، 609۔)
(2) .... سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر نکلے اور ہم مسجد میں ایک دوسرے کو قرآن پڑھ، پڑھا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی کتاب کو سیکھو اور اسے اپنی جمع پونجی بنا لو۔‘‘ کہا کہ میرا خیال ہے کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اور اس کے ساتھ غنا حاصل کرو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقینا وہ دس ماہ کی حاملہ اونٹنی کے اپنی رسی سے چھوٹنے سے بھی زیادہ بھاگنے والا ہے۔‘‘( صحیح الجامع الصغیر للألباني: 2961۔)